دائیں بازو کی جماعتیں اور ملکی سلامتی

آخر کار عمران خان صحیح معنوں میں ایک سیاست دان بن ہی گئے۔ وہ نعرہ بازی کرتے ہوئے عوام کی توقعات کی جہت تبدیل کرنے کا فن سیکھ چکے ہیں۔ عوامی جذبات سے کھیلتے ہوئے وہ نان ایشوز کو سیاسی افق پر نمایاں کر سکتے ہیں۔ اس سے یہ مراد لینا درست نہیں کہ ڈرون حملے کوئی مسئلہ نہیں ہیں، لیکن پاکستانیوںکو درپیش دوسرے ان گنت اور بھاری بھرکم مسائل کے مقابلے میں امریکی ڈرون طیاروں سے پہنچنے والا نقصان بے معنی سالگتا ہے۔ 
اگر انتخابات سے پہلے عوام سے کیے گئے وعدوں کی فہرست مرتب کی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کی جماعت کا اہم ترین اور یک نکاتی ایجنڈا صرف اور صرف ڈرون حملے روکنا تھا۔ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت ہے اور وہ ایسے وقت پر نعرے بازی کر رہے ہیں جب عوام کو دہشت گردی، غربت، جہالت، بیماریوں اور کثر تِ آبادی جیسے مسائل درپیش ہیں بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان سنگین مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے مذہب اور قوم پرستی کے جذبات کا سہارا لینے میں پی ٹی آئی اکیلی نہیں بلکہ عملی طور پر تمام جماعتیں اپنے ووٹروں سے بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں لیکن جیسے ہی ان کے نمائندے منتخب ہو جاتے ہیں وہ اپنا پورا زور عوام کی ترجیحات کا رخ غیر اہم مسائل کی جانب موڑنے پر صرف کر دیتی ہیں۔ ان مسائل میں عقیدے کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ میڈیا کے چالاک پنڈت اور کم علم لیکن چالباز علما بھی سادہ لوح عوام کے جذبات کو اتنا برانگیختہ کر دیتے ہیں کہ وہ گلیوں بازاروں میں ''ڈرون حملے بند کرو‘‘ کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ عوام کے جذبات کے اظہار کے لیے یہ ترکیب کام دے جاتی ہے اور بالآخر وہ تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن جب تک ڈرون حملے بند نہیں ہو جاتے وہ سیاست دانوں سے روزگار، صاف پانی، صحت اور تعلیم کی سہولتوں اور انصاف کی فراہمی جیسی بنیادی ضروریات کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ اگر دینی جماعتیں اور پی ٹی آئی ہی یہ پالیسی اپنا لیں تو کوئی بات نہیں لیکن اگر نواز شریف جیسے سنجیدہ اور منجھے ہوئے عملیت پسند سیاست دان بھی اس راہ پر چل نکلیں تو دکھ کی بات ہے۔ 
اگر سیاست دانوں کی افسوسناک کارکردگی دیکھی جائے تو احساس ہوتا ہے کہ ان کے کریڈٹ پر ایسا کچھ نہیں جس کی بنیاد پر وہ عوامی حمایت کی توقع رکھیں۔ اس وقت دکھائی یہ دیتا ہے کہ ملک میں قدامت پسند حلقوںکے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کے ووٹروں کی تعداد میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران بے حد اضافہ ہوا ہے۔ اس مسابقت میں سب کو یہ ثابت کرنا ہے کہ زیادہ 'نیک‘ کون ہے۔ 'مقابلے‘ کی اس فضا میں بے چاری عقل اور معقولیت کو سرخ جھنڈی دکھا کر میدان سے باہر کر دیا گیا ہے لہٰذا جب عمران خان اپنے کارکنوں سے کہتے ہیں کہ ڈرون حملوں کے جواب میں نیٹو سپلائی لائن بند کر دیں تو سپلائی لائن روکنے کے حامی جماعت اسلامی کے منور حسن کو فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ وہ عمران خان سے کیونکر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سید صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ مایوسی گناہ ہے اس لیے حکیم اﷲ محسود پر ہونے والا ڈرون حملہ اُن کے لیے نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوا اور اُنھوں نے جھٹ سے اُسے شہید قرار دے ڈالا اور اس ڈر سے کہ عمران خان کوئی اور دائو نہ کھیل جائیں، لگے ہاتھوں پاکستانی سکیورٹی اہل کاروں کے بارے میں فتویٰ جاری کر دیا کہ دہشت گردوں کے مقابلے میں لڑتے ہوئے اپنے ہم وطنوںکی خاطر اپنی جان دینے والے شہید نہیں ہیں۔ اب بھلا مولانا فضل الرحمٰن کیسے پیچھے رہ جاتے، اُنھوں نے ایک اچھوتا ڈرون داغ دیا کہ امریکی حملوں سے ہلاک ہونے والا کتا بھی 'شہید‘ ہے۔ 
اب وزیر اعظم نواز شریف کے لیے پریشانی یہ ہے کہ ملک کی ایک صوبائی حکومت نیٹو سپلائی روک کر ملک کی خارجہ پالیسی کا رخ موڑنے کی کوشش میں ہے لیکن مرکزی حکومت اس صورتحال کو صبر بلکہ یوں کہہ لیں کہ لاتعلقی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے خاموشی سے برداشت کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے مقابلے میں سخت موقف اپناتے ہوئے نواز لیگ کی حکومت نیٹو کے ٹرالروں کو روکنے والے ان کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈائون کر کے دائیں بازو کے ووٹروں کو کھونے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نیٹو میں سینتالیس کے قریب ممالک کے فوجی دستے شامل ہیں جبکہ ڈرون حملوں کا ذمہ دار صرف امریکہ ہے۔ دوسرے ممالک کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ نیٹو سپلائی روک کر پاکستان کو چالیس سے زائد ممالک سے تعلقات خراب کرنے کا خطرہ مول لینا پڑے گا۔ 
اس دوران دینی عقائد کے علم بردار اداروںکو بھی مذہبی جماعتوں کی مخالفت کا سامنا ہے؛ حالانکہ کبھی یہ دینی جماعتیں انہیں اداروں سے تقویت پاتی تھیں۔ جماعت اسلامی اور طالبان کی برسوں مخصوص سیاسی مقاصد کے تحت حمایت کی جاتی رہی۔ عمران خان کے یک دم سیاسی ابھار کے بارے میں کافی چہ میگوئیاں ہوئی تھیں۔ بعض ناقدین نے اُن کے خفیہ اداروںکے ساتھ روابط پر بات کی تھی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جب سبھی ایک دوسرے سے زیادہ نیک اور پارسا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر اس بات کا فیصلہ کیسے کیا جائے کہ مذہب کا اصل چمپیئن کون ہے؟ اصول کی بات تو یہ ہے کہ جس گروہ کے نظریات سب سے زیادہ انتہاپسندانہ اور شدید ہوں اسی کو اس مقابلے کا فاتح قرار دینا چاہیے اور وہ طالبان کے سوا اور کون ہو سکتا ہے! ان کے علاوہ اور کس گروہ نے اسلام کے نام پر اتنی تباہی پھیلائی؟ ہو سکتا ہے دوسری جماعتیں بھی انتہائی نظریات کی تبلیغ کریں لیکن ''عملی اقدامات‘‘ کے میدان میں طالبان کا دور دور تک کوئی حریف نہیں۔ 
اب جبکہ جماعت کے سربراہ نے طالبان رہنما کو شہادت کے مرتبے پر سرفراز کر دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اور اس کے ہم نوا جہادی گروہوں اور ان کی کارروائیوں کو درست مانتے ہیں۔ ملک میں چوبیس گھنٹے انتہا پسندانہ نظریات کی بلاروک ٹوک ترویج جاری ہو تو ملک کو بنیاد پرستی کی طرف مائل دیکھ کر کسی کو کیا حیرت ہو گی؟ آج ملک میں سیکولر جماعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک وقت تھا جب پی پی پی کو غریب عوام کی دوست جماعت سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ بڑی حد تک سندھی جاگیرداروں کی جماعت بن چکی ہے۔ ایم کیو ایم مہاجر ایشوکو زندہ رکھے ہوئے ہے جبکہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اے این پی نے خود کو نااہل اور بدعنوان ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیںکیا۔ اس وقت پا کستان میں لیفٹ کا کوئی وجود ہی نہیں کیونکہ لبرل دانشور باہمی کشمکش سے نجات نہیں پا سکے۔ اس صورتحال میں نوجوان ذہن نسبتاً منظم گروہوںکی طرف مائل ہو رہا ہے۔ میڈیا کا بھی ایک اپنا ایجنڈا ہوتا ہے؛ چنانچہ اب جبکہ فوج کی اعلیٰ قیادت تبدیل ہو چکی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاک فوج نظریاتی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک کی جغرافیائی سرحدوں اور داخلی سکیورٹی کی طرف توجہ دے۔ جنرل کیانی نے تسلیم کیا تھا کہ ملک کو داخلی طور پر خطرہ ہے اور ان کا اشارہ انتہا پسندوں کی طرف تھا۔ اب فوج کی ہائی کمان کو احساس ہو چکا ہے کہ طالبان اتنے قوی ہیں کہ وہ ریاست کے سب سے طاقتور ادارے (فوج) پر بھی حملے کرنے سے نہیں چوکتے۔ اب اگر ملک میں دائیں بازو کی مسابقت، جس کا کالم کے آغاز میں اشارہ دیا گیا، جاری رہی تو طالبان اور دوسری جماعتوں کے درمیان فرق کم سے کم ہوتا جائے گا۔ یہ جماعتیں ''ڈرون ڈرون‘‘ کی دہائی دے رہی ہیں اور بائیں بازو کی جماعتیں بوجوہ ان کا راستہ نہیں روک پا رہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں