جنرل کیانی کے بعد پاک فوج کا چیف کون ہو گا؟ اس موضوع پر ہونے والی بحث سے گمان گزرتا تھا کہ انتہائی کانٹے دار انتخابی معرکہ زیر بحث ہے۔ ملک میں ہونے والی اس گفتگو سے دفاعی اداروںکے سیاست میں ملوث ہونے کا تاثر ابھرتا ہے اور اسے صحت مندانہ رجحان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس دوران کچھ حوصلہ افزا باتیں بھی سننے کو ملیں۔ ان میں سب سے خوش آئند یہ تھی کہ سول ملٹری تعلقات میں کئی برسوں سے روا رکھے جانے والے عدم توازن پر بھی بات کی جاتی رہی۔ ایک انگریزی اخبار نے اپنے اداریے میں وزیر اعظم نواز شریف پر زور دیا ہے کہ وہ خارجہ پالیسی، خاص طور پر افغانستان، بھارت اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے سول حکومت کا کنٹرول یقینی بنائیں۔
اس بات پر یقین کیا جاتا ہے کہ اگرچہ وزیر اعظم نواز شریف کے سامنے کچھ اور بھی سینئر افسران موجود تھے لیکن شاید اُنھوں نے نام ''شریف‘‘ کو ترجیح دی ہے۔ نوے کی دہائی میں بھی ان سے یہی غلطی سرزد ہوئی تھی جب اُنھوں نے کچھ سینئر افسران پر ترجیح دیتے ہوئے جنرل مشرف کو آرمی چیف بنا دیا تھا۔ شاید اُس وقت وزیر اعظم نواز شریف کے دل میں یہ ہو گا کہ جنرل مشرف کو مقرر کرتے ہوئے وہ کسی صوبے کو ترجیح نہیں دے رہے (کیونکہ جنرل مہاجر تھے) اور اُن کا کوئی حلقۂ انتخاب بھی نہیں تھا، اس لیے ان سے سیاست میں ملوث ہونے کی توقع نہیں تھی۔ ایسا کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ فوج بذات خود ایک ''حلقۂ انتخاب‘‘ رکھتی ہے۔ فوج میں افسروں اور جوانوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ دوسرے اداروں کی طرح فوج کے بھی مفادات ہیں‘ جن کا تحفظ اسے عزیز ہوتا ہے۔ اس لیے ایک آرمی چیف‘ چاہے اُس کا تعلق کسی بھی صوبے یا نسل سے ہو‘ کا سب سے پہلا کام اپنے ادارے کی بہتری ہوتا ہے۔
اگر ہم فوج کی طرف سے جمہوری حکومتوںکا تختہ الٹے جانے کو یاد کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اس ''کار خیر‘‘ کو ہمیشہ عدلیہ نے جائز قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کمزوری کا شکار رہیں اور اُنہیں خود پر اعتماد نہیں ہوتا۔ جب انہیں اقتدار ملتا ہے تو بھی وہ اپنی بات منوانے سے قاصر رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوںکی نااہلی، بدعنوانی اور تصورات کی کمی بھی اُن کے لیے مسائل کا باعث بنتی ہے۔ اگر ریٹائر ہونے والے فوجی افسران کو سول ملازمتوں میں جگہ نہ مل سکے تو اُنہیں بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے۔
دنیا کی دیگر افواج بھی اسی طرزعمل کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ صدیوں پہلے جینی ساریز فوجی دستے (Janissaries) دہشت کی علامت تھے۔ اُس وقت سلطنت عثمانیہ یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی طرف قدم بڑھا رہی تھی۔ جینی ساریز ترک فوج کے لیے ہراول دستوں کا کام دیتے تھے لیکن پھر حالات بدلنے لگے اور جینی ساریز کو شکست ہونے لگی، وہ بکھرنے لگے اور ختم ہو گئے۔ جیسن گڈمین اس عمل کو اپنی کتاب Janissary Tree میں اس طرح بیان کرتا ہے: ''اگر عثمانی سلطنت مہذب دنیا کے لیے خوف کی علامت تھی تو جینی ساریز نے غیر مذاہب کے لیے زندگی تنگ کی رکھی تھی۔ اُنھوں نے صوفیا، بلغراد، جزیرہ نما عرب کے بہت سے علاقے، مصر، روڈز، سائپرس اور صحارا فتح کیے۔ انہی کی تلوار کی دھار نے یونانیوں سے استنبول چھینا تھا۔ اس کے بعد فتوحات کا سلسلہ رک گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جینی ساریز نے خلیفہ سے درخواست کی تھی کہ جب جنگ نہ ہو رہی ہو تو اُنہیں تجارت کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے فوج میں اپنے بیٹوں کو بھرتی کر لیا۔ اس طرح فوج لڑنے سے کنی کترانے لگی؛ تاہم ماضی کے کارناموںکی بدولت وہ خوف کی علامت تھے؛ چنانچہ وہ عام لوگوں پر حکم چلانے لگے۔ چونکہ وہ جنگ میں مرنے کے لیے تیار کیے گئے تھے اس لیے وہ سلطان کے چہیتے تھے لیکن اب وہ مقدس مجاہد نہیں رہے تھے۔ درحقیقت اُنھوں نے اپنی زندگی بدل لی تھی۔ وہ لوگ جو یورپ کو ڈرانے کے تیار کیے گئے تھے، ایک سادہ سے فارمولے پر عمل پیرا ہو گئے۔ یہ زیادہ خطرناک بات بھی نہیں تھی کہ دشمن کے بجائے اپنے لوگوںکو خائف رکھو۔ سلطانوں نے ان کو لگام دینے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے اور مارے گئے۔ جب وہ سلطان کو انجام سے دوچار کر سکتے تھے تو عام افراد کا اُن سے خائف ہونا فطری بات تھی۔ اُن کا رویہ دھمکی آمیز ہوتا گیا اور وہ گلیوں میں دندناتے پھرتے تھے‘‘۔
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب یورپ کی منظم اور طاقتور افواج نے حملہ کیا تو وہ ان کے مقابلے میں پے در پے شکستوں سے کیوں دوچار ہوئے حتیٰ کے مصر کے علی پاشا نے بھی اُنہیں شکست دی۔ اس کے بعد ترکی کے سلطان نے نئی فوج قائم کی اور اُسے جدید یورپی خطوط پر استوار کیا۔ اس فوج نے سب سے پہلے جینی ساریز کا خاتمہ کیا، ان کی بیرکوں پر توپوں سے گولہ باری کرتے ہوئے اُنہیں ختم کر دیا گیا۔ سلطنت عثمانیہ ختم ہو گئی، اب سلطان کی بجائے ادارے کام کرتے ہیں، لیکن ان اداروںکے درمیان بھی اپنے مفاد کے لیے مسابقت کی فضا پائی جاتی ہے۔
ہمیں دفاعی قوت، معیشت اور خارجہ پالیسی کے درمیان تعلق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں بھارت اور افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی ضرورت ہے۔ ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں، امریکہ اتنا طاقتور ہے کہ وہ ہمیشہ نرم زبان میں بات نہیں کر سکتا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عالمی طاقتوںکے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں لیکن قومی اداروںکا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے۔ بلاشبہ اداروں کے مابین توازن کی ضرورت ہے لیکن اس معاملے میں نہایت محتاط رہ کر اور صلاح مشورے سے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔