طیب اردوان کو درپیش مسائل

سیاست میں ایک سال بھی بہت ہوتا ہے۔ 2013ء کے آغاز تک ترکی کے وزیرِ اعظم طیب اردوان کو، جن کی ''جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘‘تین انتخابات جیت چکی ہے، جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال پاشاکے بعد ترکی کا سب سے طاقت ور سیاست دان کہا جاسکتا ہے؛ تاہم اب جبکہ وہ تین مرتبہ وزیرِ اعظم بن چکے ہیں، ان کی صدر بننے کی خواہش خزاں رسیدہ پتوں کی طرح نامساعد ہوائوں کی زد میں ہے، کیونکہ وقت کی طنابیں ترک وزیرِ اعظم کے ہاتھ سے آہستہ آہستہ سرک رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ان کا ہر دائو الٹ ہوجائے گا۔اب ان کی اپنی پارٹی کے عہدیدار پے در پے استعفے دے رہے ہیں، ان کی پوزیشن خاصی کمزور ہو چکی ہے۔ اس دوران تقویت پاتی ہوئی اپوزیشن پارٹی ہی ان کے لیے مشکلات پیدانہیں کررہی بلکہ ان کی اپنی صفوں میں بھی اُن کے خلاف غصے کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ 
ترک وزیرِ اعظم کو کن دشواریوں کا سامنا ہے؟ دراصل ان کی مشکلات کا آغاز گزشتہ مئی میں اچانک پھوٹ پڑنے والے اُن ہنگاموںسے ہوا جن کی وجہ استنبول کے غازی پارک میں کسی متنازعہ عمارت کی تعمیر تھی جبکہ حالیہ دنوں میں اُن کی پارٹی بدعنوانی کے سنگین الزامات کی زد میں آ گئی ہے۔ ان دونوں واقعات کے درمیان یہ خبریں افشا ہوئیں کہ ترک حکومت روحانی پیشوا فتح اﷲ گولن کی Hizmet موومنٹ (جس کا اردو مترادف الخدمت تحریک ہے)کی طرف سے کھولے گئے ہزاروں سکولوں کو بند کرنے کا ارادہ رکھتی ہے(واضح رہے کہ سلفی انتہا پسندوںکے برعکس Hizmet متعدل مزاج اسلامی تحریک ہے۔) 
غازی پارک میں ہنگاموںکی وجہ یہ تھی کہ اردوان حکومت استنبول شہر کے وسط میں واقع ''تقسیم چوک‘‘ کی کھلی جگہ پر کمرشل تعمیرات کا ارادہ رکھتی تھی۔ اس پر ماحولیاتی تنظیموں کے نمائندوں اور سول سوسائٹی نے پرزور احتجاج کیا۔اس شدید مگر پرامن احتجاج کا دائرہ پورے ملک میں پھیلتا گیا۔ اسے دبانے کے لیے پولیس نے تشدد کا سہارا لیا۔۔۔ آنسو گیس، لاٹھی چارج اور ربرکی گولیوں کا آزادانہ استعمال دیکھنے میں آیا۔ اس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد زخمی ہوئے جبکہ چند ایک ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ 
طیب اردوان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوںنے ترکی کی طاقتور فوج کو واپس بیرکس میں بھیج دیا تھا۔اس تاریخی کام کی انجام دہی میں فتح اﷲ گولن نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ترک وزیرِ اعظم کے اسلامی تصورا ت بہت حد تک گولن تحریک سے مشابہت رکھتے ہیں؛ تاہم اب ترک حکومت کو احساس ہورہاتھا کہ اپنی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھاتے ہوئے Hizmet موومنٹ ''ریاست کے اندر ریاست ‘‘ بنتی جارہی ہے جبکہ سرکاری افسران، عدلیہ اور پولیس میں بھی ان کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ چنانچہ وزیراعظم اردوان نے فیصلہ کیا کہ بہت ہو گیا، اب وقت آگیا ہے کہ اس تحریک کو ایک حد میں رکھا جائے۔ اگرچہ عرصہ دراز سے امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے گولن ترک وزیرِ اعظم کے اتحادی رہے تھے لیکن اب حکومت گمان کرتی ہے کہ وہ ان کے حریف بنتے جارہے ہیں۔ استنبول کے ایک انگریزی روزنامے ''Today's Zaman‘‘نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق اس تحریک کے تین ہزار سے زیادہ سکول کام کررہے ہیں۔ ان سکولوں سے فارغ التحصیل طلبہ یورنیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ اس طرح ان سکولوں سے تحریک کو آمدن بھی ہوتی ہے اور اس کے حامیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت کی طرف سے پڑنے والے دبائو کے ردِ عمل میں گولن نے بھی ترک حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ ابھی یہ بحران جاری تھا کہ حکومت بد عنوانی کے الزامات کی زد میں آگئی۔ درحقیقت بدعنوانی کے الزامات کی ایک سال تک ہونے والی تحقیقات کے بعد پولیس نے دو وزراء کے بیٹوں اور کچھ اہم کاروباری افراد اور سرکاری افسران کو گرفتار کر لیا ہے۔ طیب اردوان نے جارحانہ اقدامات کرتے ہوئے تفتیشی افسر معمراکاش(Muammar Akkash) اور بہت سے پولیس افسران کو جنھوںنے گرفتاریوں میںکردار ادا کیا تھا، برطرف کر دیا۔اس پر ہونے والی تنقید کے جواب میں اُنہوںنے حسبِ معمول بہت سے دیدہ و نادیدہ دشمنوںپر جن میں را، موساد اور سی آئی اے شامل ہیں، الزامات لگادیے ہیں۔
تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے جو رہنما دیر تک اقتدار میں رہیں، وہ خوشامدیوںکے درمیان گھرے رہنے کی وجہ سے حقائق سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔اُن کے مصاحب جنہیںعرفِ عام میں چمچے کہا جاتا ہے، اُن کو باور کراتے رہتے ہیں کہ وہ نہ صرف غلطیوں سے مبرا ہیں بلکہ تمام حاسد قوتیں ان کی دشمن ہیں۔ خوشامد ان کی آنکھوں پر کجی فہمی کی ایسی پٹی باندھ دیتی ہے کہ ہر سیاسی مخالف ملک دشمن اور غدار دکھائی دیتا ہے۔ ''Today's Zaman‘‘ میں کالم نگارعیسیٰ ارسلان لکھتے ہیں:''اردوان ایک عظیم جنگجو ہیں لیکن وہ ایک عظیم لیڈر نہیں ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ اُنھوں نے کہاں آگے بڑھنا ہے اور کہاں رکنا ہے۔ غرور اور خود پسندی نے اُن کی دانائی کو مسخ کردیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیںکہ ہر مورچہ فتح کرنا جنگ جیتنے کے مترادف ہوتاہے: حالانکہ یہ ایک بڑی جنگ کا ایک حصہ ہوتاہے‘‘۔ یقیناً اچھے لیڈر کی سب سے بڑی بہادری اُس کی دانائی اور معاملہ فہمی ہوتی ہے۔ 
بہت سی کامیابیوںکے باوجود طیب اردوان کے قدموں تلے سے زمین سرکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُنھوںنے ترک معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے۔ روایتی سوچ رکھنے والے قدامت پسند حلقوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں وہ لاکھوں سیکولر اور لبرل سوچ رکھنے والے تعلیم یافتہ اور باصلاحیت ترکوںسے دور ہوگئے ہیں۔ انھوںنے سیکولر آئین رکھنے والے معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنانے کی کوشش کی جو ناکامی سے ہمکنار ہوئی۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کو ملنے والا سیاسی مینڈیٹ کچھ بھی کرنے کا لائسنس ہے، اُنہوںنے تقریباً ہر معاملے کوسیاسی مخالفین کے ساتھ محاذآرائی میں بدل لیا ؛ چنانچہ ان اقدامات کے نتیجے میںوہ عوام کی ایک بڑی تعداد سے دور ہوتے چلے گئے۔ اُن کے آمرانہ رویے سے انکی اپنی جماعت کے اراکین بھی تنگ ہیں ، ان کی جماعت کے مستفعی ہونے والے رہنمائوںمیںسے ایک Erdal Kalkan نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''سیاسی جماعتیں سیاست دانوں کی ذاتی جائیداد نہیںہوتیں۔ یہ جماعت اردوان کی جاگیر نہیںہے‘‘۔ جہاں تک خارجہ معاملات کا تعلق ہے ، اردوان حکومت کی ترجیحات غلط ہیں ۔شام میں باغی دستوںکی حمایت کرتے ہوئے وہ بشارالاسد سے تعلق توڑ چکے ہیں۔ بہت سے ترک باشندے اس بات سے نالاں ہیں کہ ان کی حکومت نے بلاجواز اس خانہ جنگی میں مداخلت کی اور اس کے نتیجے میں ملک میں بہت بڑی تعداد میں مہاجرین آگئے ہیں جن کی وجہ سے دیگر مسائل کے علاوہ دہشت گردی کا بھی خطرہ ہے۔ 
ان تمام باتوںکے باوجود جس چیز نے اردوان کی مقبولیت کا گراف بلند رکھا ہواتھا وہ ان کی جماعت کی معیشت کی بہتری کے لیے کی گئی فقید المثال کوششیں تھیں ؛ تاہم شواہد بتاتے ہیںکہ (عارضی طور پر ہی سہی )معاشی ترقی میں کمی واقع ہورہی ہے۔یہ تمام باتیں اپنی جگہ لیکن طیب اردوان کو ترکی کی سیاست سے بیک جنبشِ قلم خارج نہیںکیا جاسکتا ، وہ اب بھی بہت قد آور سیاست دان ہیںاور ترکی کے سیاسی میدان میں دور دور تک ان کا کوئی حریف دکھائی نہیںدیتا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاست میں سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیںہوتا اس لیے اُنہیں سیکھنا چاہیے کہ ایک بڑا رہنما وہی ہوتا ہے جو معاشرے کے تمام طبقوں کو جنہوں نے ان کے حق میں ووٹ دیا ہو یا نہ دیا ہو، ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں