اگرچہ ریڈکلف ایوارڈ ، جس کے نتیجے میں 1947ء میں بر ِ صغیر کی تقسیم عمل میں آئی،میں حصہ لینے والے تمام افراد اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن اس پر سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں اور مختلف حلقوںکی جانب سے تنقید کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ حالیہ دنوں لندن کے ''ہمپسٹیڈ تھیٹر‘‘ (Hampstead Theatre) ، جو کہ شائقین سے کھچا کھچ بھرا ہواتھا ، کے سامنے ہاورڈ برنسٹن کا کھیل پیش کیا گیا۔ اس کھیل میں ریڈکلف،جو کہ برطانوی جج او ر متنازعہ ''ریڈ کلف ایوارڈ‘‘ کی روح و رواں تھے، کے کردار کو بہت شاندار طریقے سے اُجاگر کیا گیا۔
تاریخ کے وہ طالب علم ، جو ہماری تاریخ کے اس ہنگامہ خیزدور کا مطالعہ کرتے ہیں، کی توجہ مائونٹ بیٹن، نہرو، جناح اور گاندھی جیسے مرکزی کرداروں کے افعال اور اقوال پر مرکوز رہتی ہے جبکہ ریڈکلف صرف پانچ ہفتوں میں تقسیم ِ ہند کے پیچیدہ کام کو سرانجام دینے کے لیے منظر ِ عام پر آتے ہیں۔درحقیقت سرحد کے اِس طرف اُنہیں برطانوی استعمار کا وہ مہرہ سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی حق تلفی ہوئی ۔ میںنے سری لنکا میں یہ ڈرامہ ''Drawing the Line‘‘ آن لائن دیکھااور میں اس کے لیے اپنی دوست سارا واحدی کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھے اس کا لنک بھیجا۔ '' ہمپسٹیڈ تھیٹر‘‘ نے بیرونی ناظرین کے لیے یہ ڈرامہ آن لائن دستیاب کرکے اچھی روایت قائم کی۔ میں چاہتا ہوں کہ دیگر تھیٹر بھی اس رجحان کی پیروی کریں تاکہ لندن سے دور رہنے والے لوگ بھی ان ڈراموں سے مستفید ہوسکیں۔ اگرچہ آن لائن ڈراموں میں دوری کا احساس پیدا ہونا لازمی امر ہے لیکن ان کا فائدہ یہ ہے کہ ان کے ذریعے ناظرین سٹیج پر موجود اداکاروںکے جملے اور تاثرات، جو براہ ِ راست ڈرامہ دیکھنے والے اگلی قطاروں میں بیٹھ کر بھی مس کردیتے ہیں، کوبہتر انداز میں جان سکتے ہیں۔
تقسیمِ ہند کو اُجاگر کرتے ہوئے برنسٹن کا جھکائو مسٹر جناح( جن کا کردار پال بزلے نے ادا کیا) کی طرف دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ 1946ء تک فیڈریشن کو تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے، جبکہ پنڈت نہرو(جن کا کردارسیلاز کارسن نے ادا کیا)ایک چالاک شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہیں۔وہ لیڈی ایڈوینا مائونٹ بیٹن(جن کا کردار لوسی بلیک نے ادا کیا)کو استعما ل کرتے ہوئے فیروز پور ، جو پنجاب کا اہم ضلع ہے، بھارت کو دلا دیتے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے ایڈوینا مائونٹ بیٹن اپنے شوہر ، جو وائسرائے ہند تھے، کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ریڈکلف ( ٹام بورڈ) پر دبائو ڈال کر فیروز پور کو بھارت کی جھولی میں ڈال دیں۔
جذبات، مکاری اور مقاصد کے اس الجھائو میں ریڈکلف ایک قابل ِ رحم شخصیت بن جاتے ہیں۔ وہ ایک عمدہ اور دیانت دار شخص تھے لیکن وہ بھارت کے نقشوں اورسیاسی جغرافیائی معروضات کا زیادہ علم نہیںرکھتے تھے۔ اس کے علاوہ، تقسیم کا اہم ترین کام سرانجام دیتے ہوئے وہ دہلی کے کھانے کھاکھاکر بیمار ہوگئے اور اُنہیں بار بار ٹوائلٹ جانا پڑتا تھا۔ چنانچہ اسی کمزوری کی حالت میں اُن کے قلم نے کروڑوں افراد کے مستقبل کا فیصلہ سنا دیا۔ ریڈکلف کا اخلاقی کردار اُس وقت دائو پر لگ جاتا ہے جب وہ فیروز پور اور کلکتے کے مسئلے پر وائسرائے کا سامنا کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ دونوں اضلاع پاکستان کو ملنے تھے ۔ مائونٹ بیٹن کوایڈوینا نے دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر یہ علاقے بھارت کو نہ ملے تو وہ اُنہیں چھوڑ دے گی۔ مائونٹ بیٹن ریڈکلف کو بتاتے ہیں کہ وہ بطور وائسرائے برطانوی بادشاہ کی نمائندگی کررہے ہیں اس لیے ریڈکلف، اگرچہ وہ آزاد حیثیت سے کام کررہے ہیں،بھی تاج کو جواب دہ ہیں۔
برنسٹن اس بات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ مائونٹ بیٹن نے تقسیم ِ ہند جیسے مشکل اور پیچیدہ کام کے لیے بہت کم وقت دیا۔ اگرچہ اُس وقت برطانوی وزیر ِاعظم ایٹلی (Attlee) نے اُنہیں اس مقصد کے لیے دوسال کا وقت دیا تھا لیکن وہ اس سے نصف وقت میں یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ اس جلدبازی کے نتیجے میں سکیورٹی انتظامات نہ کیے جاسکے اور پھوٹنے والے فسادات میں لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ برنسٹن کا خیال ہے کہ مائونٹ بیٹن کو انگلینڈ جانے کی اس لیے جلدی تھی تاکہ نہرو اور ان کی بیوی کے درمیان تعلق ختم ہوجائے (نہرو اور لیڈی مائونٹ بیٹن کا افیئر منظر ِ عام پر آیا تھا)۔ تقسیم کے اس باب میں دواور شخصیات، جو ریڈکلف کے دفتر میں کام کرتے ہیں، کا ذکرآتا ہے۔ ان میں سے ایک رائو عائر(Rao Ayer) ہیں جوکانگرس نواز ہیں اور وہ تقسیم میں بھارتی مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں، جبکہ دوسرے کرسٹوفر بیومونٹ (Christopher Beaumont) ہیں جن کا جھکائو مسلم لیگ کی طرف ہے۔ وہ دونوں ریڈکلف کو اپنے اپنے موقف پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ریڈکلف نہرو سے ملتے ہیں تو وہ ان کی بہترین انگریزی وضع قطع سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔ نہرو اپنی'' انگریز پسندی ‘‘ سے اُنہیں متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری طرف مسٹر جناح اپنے لب و لہجے میں دوٹوک اور قطعی ہوتے ہیں او ر ان کے طرزِ عمل میں خوشامد اور چاپلوسی کا شائبہ تک دکھائی نہیں دیتا، چنانچہ اُنہیں ''ہٹ دھرم اور مغرور‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ گاندھی تقسیم کو کسی بھی صورت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے وہ مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔ نہرو انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے موقف میں لچک پیدا کریں لیکن بے سود۔
دو گھنٹے کے اس مختصر ڈرامے میں تقسیم ِ ہند کے تمام واقعات کو سمونا مشکل ہے لیکن مصنف نے تاریخی واقعات اور تصورات کے باہم ادغام سے ایک ایسی صورت ِ حال تشکیل دی جس سے معاملات کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ وہ اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ریڈکلف نے ضمیر پر پڑنے والے دبائو کی وجہ سے سخت الجھن میں نہ صرف اپنی فیس لینے سے انکار کردیا بلکہ ایوارڈ کے تمام کاغذات بھی جلا دیے۔ ان کے ایک سیکرٹری نے بعد میں بتایا کہ ایک شام پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مائونٹ بیٹن ریڈکلف سے ملنے آئے۔ اگرچہ زیادہ تفصیل منظر ِ عام پر نہیں آئی لیکن لیڈی مائونٹ بیٹن کے نہرو کے ساتھ معاشقے کی وجہ سے صرف تین افراد ہی متاثر نہیں ہوئے تھے بلکہ بر ِ صغیر کے لاکھوں افراد کو اپنی جان ، مال اور آبرو سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے بادل کبھی نہ چھٹ سکے۔ مائونٹ بیٹن خاندان کی طرف سے اس معاملے پر کبھی کوئی بات نہیںکی گئی ۔