شام: نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن

شام پر ہونے والے جنیوا مذاکرات کے بعد دس پیچیدہ دن گزر جانے کے باوجوداس بدقسمت ملک کے شہریوں کو امن کا سانس لینا نصیب نہیںہوا۔ اب تک یہاں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور اگر اس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔اکیسویں صدی میں جبکہ عالمی سطح پر امن قائم کرنے کے لیے مختلف فورمز اور نظام موجود ہیں، ایک ملک میں ہونے والے قتل وغارت کو روکنے کے لیے عالمی برادری کی ناکامی انتہائی افسوس ناک ہے، لیکن جب علاقائی اور عالمی قوتیں اپنے اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوں تو پھر اس انجام پر کسی کو حیرت نہیںہونی چاہیے۔اگلے دوہفتوںکے دوران جنیوا مذاکرات کا ایک اور دور ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ، لیکن شام کے لاکھوں باشندے اپنے ملک اوردیارِ غیر(جہاں وہ بطور مہاجر رہنے پر مجبور ہیں) دونوں جگہ اذیت کاشکار رہیں گے۔ 
جس دوران جنیوا مذاکرات میںنام نہاد شامی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے افراد جو بہترین تراش خراش والے لباس زیب تن کر کے صحافیوں سے بات چیت کررہے ہیں، زمینی حالات یہ ہیںکہ شام میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند گروہ عوام کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔انتہا پسند گروہوں کے نمائندے نہ تو جنیوا مذاکرات میں شریک ہیں اور نہ ہی ان پر مذاکرات کرنے والوں کا کوئی اختیار ہے۔کسی نے بھی شام میں سرگرم ان قوتوں کا ذکر نہیںکیا کیونکہ ایسا کرنا بھڑوںکے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف ہے ۔ جس دوران ہوا میں تیر چلانے کے مترادف یہ بے سروپا کارروائی جاری تھی، امریکی کانگریس نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شام کے نام نہاد معتدل باغیوں کے لیے ہتھیاروں کی سپلائی بڑھانے کے حق میں ووٹ دے دیا۔اس سے چند ہفتے پہلے امریکی حکومت نے انہیں ہتھیاروں کی سپلائی اس لیے روک دی تھی کہ ایک اسلامی انتہا پسند گروہ نے اس کے فراہم کردہ اسلحے کے گودام کو توڑ کر بھاری مقدار میں ہتھیار لوٹ لیے تھے۔ اس پرامریکی کانگریس میں سوال اٹھایا گیاکہ جو اپنے ہتھیاروں کی حفاظت نہیں کرسکتے انہیں بڑی مقدار میں یہ ہتھیار دینے کی پالیسی سمجھ سے بالا ہے۔ 
اسی دوران شام کے وزیر ِ خارجہ ولید معلم کو یہ بات کہنے کابھی موقع مل گیا کہ عالمی قوتیں ان کے ملک میں دہشت گردوں کی معاونت کررہی ہیں۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ شام میں متحارب دھڑوں کو ملنے والی بیرونی امداد نے جلتی پر تیل ڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ شامی حکومت کا تختہ الٹنے کے خواہاں جنگجو گروہوںکو بعض ممالک سے عسکری اور مالی امداد مل رہی ہے۔ ایسے گروہوں میں سے ایک ''آئی ایس آئی ایس‘‘کا مقصد عراق اورشام کو ملا کر ایک اسلامی ریاست تشکیل دینا ہے۔ ''آئی ایس آئی ایس‘‘ نظریاتی طور پر اسامہ بن لادن کی پیروی کرتے ہوئے ان افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا واجب سمجھتا ہے جو اس کے عقیدے کی پیروی نہیںکرتے۔ اس نے اپنے علاقوںمیں اسلامی شریعت کی پیروی کرتے ہوئے غیر مسلموں، خاص طور پر عیسائیوں پر جزیے کی ادائیگی کا قانون نافذکردیا اور انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ اگر کسی کو اس گروہ کے ارادوں کے بارے میں شک ہو تو وہ ''دی سپیکٹیٹر ‘‘ میں شائع ہونے والامیری ویک فیلڈ کا مضمون پڑھے جس میں انہوں نے اس گروہ کے موقف کا حوالہ دیا۔ وہ کہتے ہیں:'' بھوکے شیروں پر مشتمل ہماری فوج خون پیتی اور ہڈیوں تک کوکھاجاتی ہے اور ہمیں سہاوہ(جو ان کا مخالف گروہ ہے) کے خون سے زیادہ مزیدار کوئی چیز نہیںلگتی‘‘۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے تئیں اسلامی شریعت نافذ کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں اور ہم میں سے اکثر اُنہیں مجاہدین ِ اسلام سمجھتے ہیں۔ 
القاعدہ سے وابستگی رکھنے والا ایک اور گروہ'النصرہ‘ بھی جنیوا مذاکرات میں موجود نہیںتھا۔ یہ دونوں گروہ شامی فوج کے خلاف لڑنے کے علاوہ آپس میں بھی برسرِ پیکار ہیں۔ اس صورتِ حال سے معاملات مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ اسی دوران جبکہ ملک میں غیر ملکی لڑاکا جنگجوئوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، کرد نسل کے لوگ اپنے علاقوں کے تحفظ کے لیے میدان میں آچکے ہیں۔ یہ تمام گروہ حکومت کے خلاف ہونے کے باوجود آپس میں بھی لڑ رہے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ کون کس کو اور کیوں ماررہا ہے۔ اس طرح اس پیچیدہ ہوتی ہوئی خانہ جنگی میں بہنے والا انسانی خون سرزمین ِ شام پر چھائے ہوئے سرخ اندھیرے کی ہیئت میں مزید اضافہ کررہاہے۔ 
آج کی پرتشدد دنیا میں عام طور پر بد اور بدتر کے درمیان انتخاب کرنا پڑتا ہے، لیکن شام میں یہ انتخاب بدتر اور بدترین کے درمیان ہے۔ ایک طرف انتہائی سفاک آمربشار الاسد ہے جو اپنا اقتدار بچانے کے لیے ہزاروں شہریوں کا خون بہانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا جبکہ اس کے خلاف لڑنے والے ،کرہ ارض کے ظالم ترین انتہاپسند گروہ ہیں۔ النصرہ اور آئی ایس آئی ایس دونوں ، خطے میں ایسی ریاستیں بنانے کے لیے پرعزم ہیں جہاں وہ قدیم دور کی شریعت نافذکرتے ہوئے شہریوں کو ماضی کی طرف دھکیل سکیں۔ اس حوالے سے وہ افغان اور پاکستانی طالبان سے مختلف نہیںہیں اور ان کے نظریات، افکار، افعال اور مقاصد کے درمیان انتہائی مشابہت پائی جاتی ہے۔ تو کیا اس کایہ مطلب لیا جائے کہ آنے والے عشروں میں خطے کے جغرافیائی خدوخال تبدیل ہونے والے ہیں؟
حکومت ِ پاکستان نے تحریک ِ طالبان کوایک مرتبہ پھر مذاکرات کی پیش کش کی ہے(سیاسی مبصرین اس پر تعجب کا اظہار کررہے ہیں لیکن مجھے اس پر کوئی حیرت نہیں) تاہم وہ عجلت میں یہ بتانا شاید بھول گئی کہ وہ بات کس سے اورکس موضوع پرکرے گی؟ اس وقت پاکستان میں دودرجن سے زائد انتہا پسند گروہ ہیں جو ''جہاد ‘‘ کے پرچم تلے متحد ہیں اور وہ نفاذ شریعت سے متعلق اپنے موقف میں ذرہ برابر لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں۔اس صورت حال میں حکومت کس کے ساتھ مذاکرات کرے گی؟یا پھرجیسا کہ جنیوا میںہوتا ہے، بات چیت کرنے کی مالا جپتے ہوئے یہ تاثر دے گی کہ وہ کچھ کررہی ہے ۔ خدشہ ہے کہ اب ایسے طرزِ عمل کے لیے وقت نہیں بچا۔ 
درحقیقت عالمی برادری کوسمجھ نہیں آرہی کہ شام میں کیسے آگے بڑھا جائے کیونکہ بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے تمام گروہ مذہبی انتہا پسند ہیں اور ان کے کسی نہ کسی سطح پر القاعدہ سے روابط ہیں۔ جغرافیائی اور سماجی طور پر شام میں مختلف عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں، اس لیے اُن پر کوئی ایک عقیدہ مسلط کرنے کی کوشش اس ملک کو فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر انتہائی ہولناک تفریق سے دوچار کردے گی۔ ایسی تقسیم اس خطے پرجس میں ترکی، عراق ، شام اورلبنان شامل ہیں، گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ مشرق وسطیٰ کا موجودہ نقشہ اس تقسیم کے مطابق ہے جس کی لکیر پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر فرانس اور برطانیہ نے کھینچی تھی۔اگر ایک باراس لکیر میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں تو اس کے نتیجے میں خطے میں ناقابلِ تصور جغرافیائی اور سیاسی انتشار کا دروازہ کھل جائے گا۔ اس وقت ایسا دکھائی دیتا ہے کہ صرف بشارالاسد کی سیکولر حکومت ہی خطے کو اس انتشار سے بچا سکتی ہے ، اسی لیے میں نے کہا تھا کہ شام میں چوائس بدتر اور بدترین کے درمیان ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں