مصر خانہ جنگی کے دہانے پر

مارچ 2003ء میں عراق پر حملے کے فوراً بعد امریکی پٹرول ٹیم کو عراق کے صحرا میں ہتھیاروں کی ایک کھیپ ملی ۔ اس نے اپنے حکام کو اس کے بارے میں اطلاع دی اوراپنا سفر جاری رکھا۔ ''جنگ کی دھند ‘‘ میں کئی ہفتے گزر جانے کے بعد کچھ گھبرائے ہوئے سپاہیوں کووہاں بھجوایا گیا تاکہ وہ ان ہتھیاروں کو دشمن کے فوجی دستوںکے ہاتھ لگنے سے بچائیں، لیکن جب تک فوجی اس مقام پر پہنچے، ہتھیاروںکے تمام باکس غائب ہوچکے تھے۔ یقیناً عراق پر قابض برطانوی اورامریکی فوجیوں کے خلاف عراق کے مزاحم دستوںنے جو ہتھیار استعمال کیے اور جن سے مغربی افواج کا جانی نقصان ہوا، اُن میں وہ ہتھیار بھی شامل ہوں گے۔ 
ایسا ہی ایک واقعہ اُس وقت بھی پیش آیا جب نیٹوکے ہوائی جہازوںنے لیبیا میں باغیوں کی مددکی تاکہ وہ معمر قذافی کا تختہ الٹ دیں۔ ہوا یوں کہ باغیوں نے مغربی طاقتوںکی مدد سے حکومت کے اسلحہ خانوں پر حملہ کردیا۔ قذافی نے اربوں ڈالرکا اسلحہ ملک بھر میں مختلف مقامات پر جمع کیا ہوا تھا ؛ چنانچہ جدید ہتھیاروںکی بھاری کھیپ مقامی جنگجوئوں کے ہاتھ لگ گئی۔ لوٹے ہوئے اُس اسلحے کی کچھ کھیپ مالی میں اسلامی عسکریت پسندوںکے پاس بھی پہنچ گئی اور اُنہوںنے ملک کے شمالی حصوںپر قبضہ کرنے کے لیے وہی ہتھیار استعمال کیے۔ لیبیا کے اسلحہ خانوںسے لوٹے ہوئے ہتھیار شام میں حکومت کے باغیوںکے پاس بھی دیکھے جارہے ہیں۔ نائیجریا میں باکو حرم اور الجیریا میں القاعدہ سے روابط رکھنے والے گروہ بھی انہی ہتھیاروں سے ''مستفید ‘‘ ہورہے ہیں۔ شام میں اسد حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں نے شامی فوج سے بھاری ہتھیار‘ جن میں ٹینک تک شامل ہیں، چھین لیے ہیں۔ حال ہی میں ایک اسلامی جہادی تنظیم نے اُس اسلحہ خانے پرحملہ کیا جوامریکی ہتھیاروںسے بھرا ہواتھا۔ اُنہوںنے وہ ہتھیار لوٹ لیے جو امریکہ نے شام کے ''اعتدال پسند ‘‘ جنگجوئوں کو دیے تھے۔ 
سنائی میں ہتھیاروں کی بھاری کھیپ پہنچائی جاچکی ہے،اس لیے مصر کے سکیورٹی دستوں پر جہادی تنظیموں کی طرف سے نہایت دیدہ دلیری سے حملے کیے جارہے ہیں۔ جب سنائی کے صحرا میں ایک فوجی ہیلی کاپٹر کوSA-16 میزائل سے مار گرایا گیا تو مصرکے فوجی ہیڈکوارٹر میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ SA-16 میزائل، جس کو کندھے پر رکھ کر فائر کیا جاتا ہے ،انتہائی جدید روسی ہتھیار ہے اور اسے چلانے کے لیے بے حد مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس خطے میں موجود انتہا پسندوںکے ہاتھ ایسے اینٹی ائیرکرافٹ میزائلوں کا لگ جانا ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں کیونکہ ان تنظیموں کے روابط دیگر ''ہم خیال ‘‘ تنظیموںسے بھی ہوتے ہیں۔ 
مشرق ِ وسطیٰ اور زیریں صحارا کے افریقی ممالک کے کچھ حصے ہتھیاروںسے بھرے ہوئے ہیں۔ ہتھیاروںکے یہ ذخائر، جن کی حفاظت محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے، انتہا پسندوںکی رسائی میں ہیں۔ شام میں خانہ جنگی کا دائرہ پھیلنے سے دیگر ہمسایہ ممالک کو بھی اس کی لپیٹ میں آنے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہتھیاروںسے بھرا ہو ا یہ خطہ انتہائی ہولناک خانہ جنگی کی نذر ہو سکتا ہے۔ اس سے جنم لینے والے انسانی المیے کا تصور بھی دل دہلا دیتا ہے۔ 
یہ خانہ جنگی صرف سیاسی مقاصد تک ہی محدود نہیں بلکہ ان ممالک میں مسلکی کشیدگی کی گہری ہوتی ہوئی لکیر‘ جس کے پیچھے بعض دوسرے ملکوں کی نظریاتی رقابت بھی کسی حد تک کارفرما ہے، اسے فرقہ وارانہ رنگ دے رہی ہے۔ اگرچہ مسالک کی تفریق اسلام میں کئی صدیوںسے ہے لیکن یہ فرقے دنیا کے بیشتر معاشروںمیں پر امن طور پر رہتے ہیں۔ ان کا اختلاف کتابوں، مناظروں اور تقریروں تک ہی محدودرہتا تھا، لیکن وہ ایک دوسرے 
کے وجود کو تسلیم کرتے تھے ،مگر آج ان کے اختلافات ہتھیاروں کی زبان میں بیان ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے پرکفرکے فتوے لگا کر خون بہا رہے ہیں۔ اس کھولتے ہوئے ماحول میں علاقائی اورعالمی سطح پرفعال اسلامی انتہا پسند جدید ترین ہتھیاروںسے لیس ہیں۔ اب جبکہ شام کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے جنگ جاری ہے، مصر بھی خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ جب اس کے فوجی جنرلوں نے اخوان المسلمون کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور اس تنظیم کو دہشت گرد قراردیا تو وہ شاید الجزائر کی حالیہ تاریخ پر نظر ڈالنے میں ناکام رہے تھے جہاں کئی عشروں کی فوجی آمریت کے بعد جب 1991ء کے انتخابات میں ایک مذہبی جماعت کی کامیابی یقینی دکھائی دے رہی تھی تو نگران حکومت نے فوج کے ''تعاون‘‘ سے انتخابات ملتوی کرا دیے۔ اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی خانہ جنگی بارہ سال تک جاری رہی اور اس میں ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔ مصر میں صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر فوج نے سلفی مکتب ِ فکر کے اس نظریے کو تقویت دی کہ انتخابات یا جمہوری عمل محض ایک ڈھونگ ہوتا ہے۔ 
اخوان المسلمون نے جسے 1928ء میں حسن البنا نے قائم کیا تھا، عشروں تک مصرمیں آمریت کے خلاف انڈرگرائونڈ رہ کر جدوجہدکرتی رہی ۔ اسی کی جدوجہد سے تحریک پاکر حماس اور القاعدہ جیسے انتہا پسند گروہ وجود میں آئے۔ اگرچہ اس تنظیم نے بعد میں عسکریت پسندی کا راستہ ترک کر دیا تھا لیکن اس کی صفوںمیں لاکھوں تربیت یافتہ کارکن موجود ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صدر مرسی نے منتخب ہونے کے بعد مصرکے منقسم معاشرے پر اخوان کے نظریات کو مسلط کرتے ہوئے خود کو اُن لبرل اور جمہوریت پسند طبقوںسے دور کرلیا تھا جنہوںنے تحریر چوک میں ثابت قدمی دکھاتے ہوئے مبارک حکومت کے خلاف علم بلند کیا تھا۔ تاہم مرسی حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے جنرل سیسی نے‘ جو اب فیلڈ مارشل بن چکے ہیں،اخوان المسلمون کو دوبارہ انڈر گرائونڈ سرگرمیاں شروع کرنے پر مجبور کرنے کی بھیانک غلطی کی ہے۔ اس کی فورسز اب تک پرامن احتجاج کرنے والے اخوان کارکنوں کو سینکڑوںکی تعداد میں ہلاک کرچکی ہیں۔ اس سے یہ خطرہ پیدا ہوچکا ہے کہ اخوان کے نوجوان کارکن انتہا پسندوں کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے ریاست کے خلاف کارروائیاں شروع کرسکتے ہیں۔اس وقت سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کی اطلاعات مل رہی ہیںجبکہ ملک میں ایک گروہ ''انصار بیت المقدس ‘‘ بھی سرگرمِ عمل ہوچکا ہے۔ چونکہ اخوان کے لیے جمہوری عمل کا راستہ روک دیا گیاہے، اس لیے تعجب نہیں کہ اس کے کارکن تخریبی سرگرمیوں پر اتر آئیں۔ صدر مرسی کی محدود سوچ اور پھر فوجی جنرلوں کی حماقت نے مصر کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں