خون پھر خون ہے‘ ٹپکے گا تو جم جائے گا

جنگیں ہمیشہ ایک نوعیت کی نہیں ہوتیں۔ ان کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں۔ کچھ جنگیں ''سرد‘‘ ہوتی ہیں، کچھ گرم، کچھ علاقائی، کچھ عالمی، کچھ باقاعدہ، کچھ بے قاعدہ یعنی گوریلا۔ ان جنگوں کے مقاصد بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ جنگیں علاقہ حاصل کرنے یا اس کا دفاع کرنے کے لیے لڑی جاتی ہیں جبکہ کچھ کا مقصد کوئی سماجی اور سیاسی انقلاب ہوتا ہے۔ کچھ جنگوں کی نوعیت مذہبی ہوتی ہے۔ ان کا مقصد ایک مذہب کو دوسرے پر غلبہ دلانا یا کسی کو مٹانا ہوتا ہے۔ ماضی میں کوئی بادشاہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ اُسے غائبی ہدایت ملی ہے کہ وہ زمین یا اس کے کسی خطے پر آسمانی طاقتوں کے احکامات کو نافذ کرے، چنانچہ وہ اس مقصد کے لیے لڑی جانے والی جنگ کو مقدس قرار دے کر اس کا جواز فراہم کرتا تھا۔ 
ایسی جنگوں کے فریقین کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہوتا کہ وہ جنگ کر رہے ہیں؛ تاہم پاکستان میں یہ صورت حال نہیں۔ یہاں بعض نام نہاد جہادی طاقتیں ریاست کو تباہ کرنے کے لیے جنگ کر رہی ہیں لیکن بہت سے لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہ ان کے مسلمان ساتھی ہیں، بس ذرا راستے سے بھٹک گئے ہیں۔ اس موقف کا تقاضا ہے کہ ان کے خلاف کسی قسم کے اقدام سے گریز کیا جائے کیونکہ وہ ''بھٹکے ہوئے لوگ‘‘ خود ہی راہ راست پر آ جائیں گے۔ بعض افراد کے نزدیک فوجی ایکشن سے معاملات مزید خراب ہوں گے۔ بعض رہنما اور ان کے ہم خیال چاہتے ہیں کہ ہم تھپڑ کھا کر دوسرا گال آگے کر دیں اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے جب تک مارنے والے ہاتھ شرمندگی محسوس کرتے ہوئے راہ راست پر نہیں آ جاتے۔ 
ان خونی جہادیوں کو شاید اپنی قسمت پر یقین نہیں آئے گا کہ ان کے سامنے پاکستان کے شہری اور ادارے مٹی کی مورتوںکی طرح بے حس و حرکت پڑے ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے وہ جتنے ہزار افراد کو چاہے نہایت سنگدلی سے ذبح کر لیں۔ ان سفاک قاتلوں کی بہیمانہ کارروائیوں کے جواب میں ریاست کا رد عمل بالکل ایک سردی سے ٹھٹھرے ہوئے خرگوش جیسا محسوس ہوتا ہے جو اپنی طرف آنے والی کار کی ہیڈ لائٹس دیکھ کر بھی حرکت نہیںکر سکتا۔ اب جبکہ حکومت نے ان ریاست دشمن عناصر کو مذاکرات کی میز پر اپنے برابر کی پوزیشن سے سرفراز کر دیا ہے تو ان نام نہاد جہادیوںکی طرف سے مطالبات آنا شروع ہو گئے ہیں کہ آئین کو معطل کر دیا جائے، قدیم اور دقیانوسی سوچ اپنائی جائے، جدید تعلیم پر پابندی لگا دی جائے اور قبائلی علاقو ں کو ان کے حوالے کر دیا جائے۔ ان مطالبات کا اس کے سوا اور کوئی مطلب نہیں کہ ہم پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیل دیں۔ 
جس دوران ریاست ان کے سامنے بڑی لجاجت کا مظاہرہ کر رہی ہے‘ وہ نہایت بے خوفی سے اپنا خونیں کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں (اب تو قومی سطح کے سیاست دان ملا بھی ان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردی کا جواز پیش کرنے لگ گئے ہیں) جب طالبان کہتے ہیںکہ دہشت گردی کے کسی واقعہ میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تو ان کے حامی طبقے اس بیان کو آسمانی صداقت مانتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ نہایت سفاکی سے لڑکوں کو خود کش حملہ آور بنا سکتے ہیں، اپنے قیدیوں کا کند خنجروں سے گلا کاٹ سکتے ہیں، کسی نو عمر لڑکی پر گولیوں کی بارش کر سکتے ہیں، پچاس ہزار پاکستانیوں کو خون میں نہلا سکتے ہیں لیکن وہ جھوٹ نہیں بول سکتے۔ اگر ہم ان کے مطالبات نہیں مانتے تو ان کے حامی یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ پاکستانیوں کا خون بہانے کے لیے پانچ سو خود کش بمبار خواتین تیار بیٹھی ہیں۔ خیال تھا کہ ہر وہ شخص‘ جس کے دل میں خدا کا ذرہ برابر خوف اور انسانی جان کا کوئی احترام ہو گا، وہ ایسے حامیوں کے بیانات کی مذمت کرے گا، لیکن ان کی جانب کوئی انگلی نہیں اٹھی۔ ایسے بیانات کے خلاف کوئی آواز سنائی نہیں دی۔ چالیس ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ہلاکت کا جواز پیش کرنے کے لیے طالبان کے حامی کہا کرتے تھے کہ اس کی وجہ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی اور پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مغربی طاقتوںکی حمایت ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ ایک بودی منطق ہے کیونکہ یہ جہادی تو مذہبی بنیادوں پر 9/11 سے پہلے سے خون بہا رہے ہیں۔
درحقیقت یہ جہادی دستے نوّے کی دہائی میں تخلیق کیے گئے تھے کہ ان کے ذریعے بھارت کو کشمیر میں ناکوں چنے چبوائے جا سکیں لیکن جلد ہی ان جہادی دستوں کو اپنی ''غلطی‘‘ کا احساس ہو گیا اور اُنہوں نے اپنی بندوقوں کا رخ پاکستان کی طرف کر دیا۔ زاہد حسین اپنے ایک حالیہ کالم میں ہمیں یاد دلاتے ہیں۔۔۔''مجھے یاد ہے کہ جب میں ان دنوں اس پالیسی پر تنقید کیا کرتا تھا تو کچھ افراد کہا کرتے تھے کہ اگر چند سو جہادی کشمیر میں کئی ڈویژن بھارتی فوج کو مصروف رکھ سکتے ہیں تو فوجی نقطۂ نظر سے ہمیں اُن کی حمایت کرنی چاہیے‘ لیکن ایسی شارٹ ٹرم پالیسیاں ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں‘‘۔ اب وہ جہادی، جو کل چند سو تھے، کئی ہزار کا مسلح لشکر بن چکے ہیں اور ان کے سامنے کشمیر کی آزادی کا جھوٹا خواب نہیں بلکہ ریاست پاکستان پر اپنی عملداری قائم کرنے کی خواہش ہے کیونکہ یہاں ان کے سامنے کوئی پُرعزم رکاوٹ موجود نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کو بہت دیر سے ناز تھا کہ اس کا دفاعی بندوبست بہت طاقتور ہے اور اس کے ادارے اُڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں، لیکن ان نام نہاد جہادیوںکے مقابلے میں تو سب ریت کی دیوار ثابت ہو رہے ہیں۔ 
ایسا لگتا ہے کہ ملک کے صرف ایک حصے کو بچانے کے لیے ان جہادیوں کو خوش رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور انتظامیہ اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ ہمایوں گوہر نے پاکستان سے شائع ہونے والے ایک انگریزی زبان کے اخبار میں اپنے ایک حالیہ مضمون میں کہا کہ طالبان کے نفاذ شریعت کے مطالبے کی آڑ میں کسی خفیہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پچھلے دور میں ایسی کوشش کی گئی تھی۔ خواہشات آسانی سے نہیں مرتیں، اس لیے ہو سکتا ہے کہ ہمایوں گوہر درست کہہ رہے ہوں۔ اگر یہ خدشہ درست ہے کہ اس کے لیے ریاست اور حکومت کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ 
پس تحریر: میرے دوست مصطفی نورانی گزشتہ ہفتے ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ جس نوجوان آدمی کو لاپروائی سے گاڑی چلانے اور حادثے کی وجہ بننے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا، اُسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ بہرحال مصطفی نورانی ایک شریف آدمی تھے، خدا ان کی مغفرت کرے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں