’’اس رنگ کو کیا جانے پوچھو جو کبھی

قدیم زمانے سے ہی انسان انواع واقسام کی چیزوںسے نشہ آور مشروبات کشید کرتا چلاآرہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں قبل ازتاریخ دور کے آثارکی کھدائی سے کشیدکرنے والے برتن ہی نہیں، کچھ پھلوں کے آثار بھی ملے ہیں جن سے مشروبات کشید کیے جاتے تھے۔ قدیم مصری شہدکے خمیر سے مشروب تیار کرتے تھے جو ''میڈ‘‘ کہلاتا تھا۔ یونانی انگوروںاور وائن دیوتا ڈیئونی سیس (Dionysius) کی پوجا کرتے جبکہ رومن باشندے اُسے Bacchusکے نام سے پکارتے اور اُس کی تصاویر پیالوں پر نقش ہوتیں۔ مشہور مورخ ہیروڈوٹس جسے ''بابائے تاریخ ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، انڈیا سے آنے والے ایک مسافر کے حوالے سے ایک عجیب رواج بیان کرتا ہے۔ اُس مسافر نے ہیروڈوٹس کو بتایا کہ انڈیا میں شوقین لوگ ایک بند خیمے میں گرم پتھر رکھتے ہیں اوراس پر کسی پودے کے خشک پتے ڈالتے ہیں۔ پھر وہ خیمے میں داخل ہوکر گہرے سانس لیتے ہیں اور لڑکھڑاتے ہوئے باہر آتے ہیں۔ پودے کا نام تو نہیں بتایا گیا لیکن امکان ہے کہ وہ پتے بھنگ کے ہوں گے۔ کیا اُن گرم پتھروں پر پتے ڈال کر نشہ کرنے سے ہی Getting Stoned کی اصطلاح وجود میں آئی تھی؟
انسان کی نشہ آور چیزوںسے طویل وابستگی رہی ہے اور بعض لوگ ان کے عادی بھی ہوجاتے ہیں، لیکن زمانہ ٔ قدیم سے ان کی مذمت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پرہیزگاری ، پاکیزگی اور مذہبی تعلیمات کی تبلیغ کرنے والوں نے ہمیشہ ایسے مشروبات کی مذمت کی جبکہ قانون سازوں نے ان کے نظریات کی بنیاد پرایسی چیزوں پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔ اسلام نے الکوحل کے استعمال کی بتدریج حوصلہ شکنی کی یہاں تک کہ اسے مکمل طور پر ممنوع قرار دے دیا اور اس کے استعمال پر سزا بھی تجویز کی ؛ تاہم یہ پابندی بلکہ سزا بھی صدیوں سے لاکھوں مسلمانوں کو پھلوں خاص طور پر انگور اور اناج سے کشید کیے جانے والے ممنوع مشروبات کے استعمال سے نہ روک سکی۔ مغل بادشاہ نہ صرف انگورکی شراب پیتے تھے بلکہ اکثر اوقات اسے افیون کا ''تڑکا‘‘ بھی لگاتے، مباداکوئی کسر رہ جائے۔ اسلامی سپین میں شہزادے اپنے دوستوں کے ساتھ بہتی ندی میں بیٹھ جاتے جبکہ ملازمین پانی کے بہائو کے ساتھ مے سے لبریز چھوٹے چھوٹے ڈونگے تیرادیتے ، جب وہ تفریح کرنے والے امراء کے قریب پہنچتے تو وہ انہیں پکڑکر نوش ِ جاں کرتے۔ عربی، فارسی اور اردو شاعری مے کشی کے تصورات سے مہک رہی ہے۔ شاعرانِ رند مزاج کو‘ جو ''خرابات کے گرد پھیرے پہ پھیرے‘‘ لگاتے رہے‘ جانے دیں‘ متقی اور پرہیزگار حضرت اکبر الہ آبادی بھی بے ساختہ کہہ اٹھے ع 
ہنگامہ ہے کیوں برپا، تھوڑی سی جو پی لی ہے 
اگر مے کشی لطف دیتی ہے تو اس کے نقصانات بھی ہیں۔ فی الحقیقت ایسے مشروبات کا محدود استعمال سرور دیتا ہے لیکن زیادہ مقدارہوش و حواس سے بیگانہ کردیتی ہے اور وہ توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ ایسے مشروبات کو ناپسندیدہ اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ ان سے رویوں میں شدت آجاتی ہے، جذبات اندھے ہوجاتے ہیں اور ان کی عادت انسان کو بار بار پینے پر مجبورکر دیتی ہے ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو لوگ مشروبات یا مرکبات کے عادی ہوجاتے ہیں، وہ اپنی اور اپنے اہل ِ خانہ کی زندگیوں کو تباہ کر بیٹھتے ہیں۔ 
ان وجوہ کی بنا پر بہت سے ممالک اور معاشروں میں نشہ آور اشیا پر پابندی لگانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ امریکہ میں 1920ء میں الکوحل پر پابندی لگائی گئی جو 1933ء تک جاری رہی۔ اس پابندی سے صرف اتنا فرق پڑا کہ اس کے عادی لوگ چوری چھپے، بنددروازوں کے پیچھے اور قانون کی نظروں سے اوجھل رہ کر اپنا شوق پورا کرتے رہے اور ڈرگ مافیا نے جی بھرکے دولت کمائی ۔ جنوبی ریاستوں میں کشید کی گئی وہسکی غیر قانونی طور پر شہروں میں فروخت ہونے لگی ۔ جب امریکی انتظامیہ کو اندازہ ہوا کہ پابندی سے شہریوں کی کردارسازی کے بجائے مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہواہے تو پابندی اٹھا لی۔ کہا جاتا ہے کہ صدر کینیڈی نے بھی کینیڈا سے سمگل کی جانے والی ہُوچ (Hooch) سے دولت کمائی۔ اسی دوران Marijuana کے خلاف بھی مہم شروع کی گئی ، بیسویں صدی کے آغاز تک امریکہ بھر کے ڈاکٹر اسے درد سے نجات دینے کے لیے سکون آور دوائی کے طور پر استعمال کرتے تھے، لیکن جب دوا ساز اداروںنے کچھ اور پین کلر (Pain Killer)دریافت کرلیے تو اُنہوںنے کانگرس میں زبردست لابی کرکے Marijuana کے استعمال کو ممنوع قرار دلا دیا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک اس کی تھوڑی سے مقدار ملنے پر بھی لاکھوں امریکیوں کوقید کی سزاسنائی جاچکی ہے۔ ویت نام جنگ کے دوران خاص طور پر امریکی انتظامیہ نے اس حوالے سے بہت سختی کی ، اس کی وجہ یہ تھی کہ صدر نکسن کو ہپی(Hippy) افراد سے سخت نفرت تھی۔ اعداد وشمار کے مطابق 1973ء سے 2009ء تک امریکی جیلوں میں قیدیوںکی تعداد میں 700 فیصد کا اضافہ ہوا جن میں سے ساڑھے چار کروڑافراد کو صرف منشیات رکھنے یا استعمال کرنے پر قید کی سزا سنائی گئی۔ 
اس لاحاصل 'مشق‘ کے بعد امریکہ نے Cannabis سمیت ایسی منشیات کے مقابلے میں ہار مان لی۔این بی سی نیوز کی طرف سے کروائے گئے حالیہ سروے کے مطابق پچپن فیصد امریکی اس حق میں ہیں کہ تفریح کی غرض سے تھوڑی سے مقدار میں Marijuana کے استعمال کی اجازت دے دی جائے ۔ واشنگٹن اورکالوریڈو کی ریاستوں میں اس بارے میں قانون سازی بھی ہوچکی ہے اور امکان ہے کہ بہت جلد دوسری ریاستیں بھی اس کی پیروی کریںگی۔ اس کا ایک مثبت اور عملی پہلو یہ بھی ہے کہ غیر قانونی دھندے کو ٹیکس کی حدود میں لاکر ریاست کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے گا۔
ہالینڈ پہلا ملک تھا جس نے عام افراد کے لیے ممکن بنایا کہ وہ گرفتاری کے خوف سے بے نیاز ہوکر ایک آدھ کش لگا کر نیم دراز ہوجائیں ۔ کئی برسوں سے ایمسٹر ڈم کے کیفے اپنے گاہکوںکو Cannabis کی قانونی طور پر مقررکردہ مقدار فراہم کررہے ہیں۔ حال ہی میں لوکل کونسلوں نے حکومت سے کہا کہ اُنہیں Marijuana کاشت کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اس سے منافع حاصل کر سکیں، لیکن حکومت نے اس دلیل کے ساتھ اس کی اجازت دینے سے انکار کردیاکہ چونکہ یورپی یونین کے دوسرے ممالک میں اس پر پابندی ہے اس لیے کہیں ایسا نہ ہوکہ اسے ان ممالک میں لے جاکر فروخت کردیا جائے۔ 
پاکستان میں ایسے مشروبات پر پی پی پی حکومت نے 1977ء میں اُس وقت پابندی لگائی تھی جب سیاسی صورتِ حال اس کے ہاتھ سے تقریباً نکل چکی تھی۔ جیل میں بھٹو صاحب نے ''اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ میںاس بات کا اعتراف کیا کہ پابندی لگانا ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ اُس وقت سے لے کر آج تک ایسے مشروبات کے سمگلروں اور غیر قانونی فروخت کنندگان نے جی بھرکے دولت کمائی ہے۔ مشروبات پر پابندی کی وجہ سے لوگ ہیروئن جیسی زیادہ خطرناک منشیات کی طرف مائل ہوئے۔ قصہ مختصر، چاہے جیسے قوانین بنا لیں، لوگ وہی کریںگے جو وہ ہزاروں سال سے کرتے چلے آرہے ہیں، اُنہیں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے فرارکے لیے کچھ تو چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں