طالبان کی اسلامی امارت کے خدوخال

ایسا لگتا ہے کہ طالبان اُس ریڈیو سے اپنا پیغام نشرکررہے ہیں جس کی فریکوئنسی پر زیادہ تر پاکستانیوںکے ریڈیو نہیں ملائے گئے ، لیکن اس کے باوجود وہ ان کا پیغام واشگاف الفاظ میں سن رہے ہیں۔۔۔ ہمارا نظامِ شریعت اپنالو ورنہ۔۔۔! 
پیغام کا قابلِ سماعت حصہ یہی ہے ؛ تاہم وہ دنیوی زندگی کی ترقی اوراس میں کامیابی کا وعدہ اُس طرح نہیںکرتے جیسے ان کے بزرگ کیا کرتے تھے کیونکہ وہ جان گئے ہیں کہ ان کے شرعی نظام میں ایسی کوئی چیزنہیں۔ ہم ان کی حکومت کے دور کا افغانستان دیکھ چکے ہیں،ان کی حکومت جوامارت یا خلافت، جس بھی نام پرقائم تھی، ہم اس میں ایک دن بھی بسر نہیںکرسکتے تھے۔ 
طالبان کی تازہ ترین لہورنگ سفاکیت جس میں تئیس جوانوں کے گلے خنجر سے کاٹے گئے‘ کے باوجود نوازشریف پنجاب کو ان کے غضب سے بچانے پر تلے ہوئے ہیں چاہے دہشت گردکتنے ہی پاکستانیوںکو بہیمانہ طریقے سے ہلاک کردیں ؛چنانچہ کراچی، فاٹا، پشاوراور ملک کے دوسرے حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں جاری ہیں لیکن وزیراعظم کی سیاست کے مرکز میں اس بھونچال کا ارتعاش محسوس نہیںہو رہا۔ جب راولپنڈی میں حملہ ہوا تو فوج اورائیرفورس نے فوری کارروائی کرکے شمالی وزیرستان میں درجنوں دہشت گردوںکو ہلاک کردیا، لیکن اب جب ہم ان جنونیوں کے سامنے سرنڈرکرتے چلے جارہے ہیں(ردعمل میں کیے گئے وقتاً فوقتاً حملوں سے ان کا بال بھی بیکا نہیںہوگا) تو ہمارے سامنے اس زندگی کا نقشہ واضح ہونا چاہیے جو ہمیں طالبان کے نظام کے تحت بسرکرنا پڑے گی۔ ہوسکتا ہے کہ طالبان کواپنی شریعت صرف اپنے مفتوحہ علاقوں(فاٹا) میںہی نافذکرنے کی اجازت ملے لیکن کوئی دیوانہ ہی سوچ سکتا ہے کہ وہ صرف ان علاقوں تک ہی محدود رہیںگے۔ دراصل وہ فاٹاکواپنا مضبوط ٹھکانہ بناکر ملک کے دوسرے حصوں کی طرف پیش قدمی کریںگے۔اس کی مثال ہم سوات میں دیکھ سکتے ہیں ، جب اُس وقت کی حکومت نے یہ جنت نظیر وادی ان گلاکاٹنے والے انتہا پسندوں کو تھالی میں رکھ کر پیش کردی تواُنہوں نے وقت ضائع کیے بغیر پیش قدمی شروع کردی‘ یہاں تک کہ دارالحکومت ان سے صرف سات کلومیٹردور رہ گیا۔ پانی سر سے گزرنے کے بعدکارروائی کرنے کی ہماری روایت تبدیل ہوتی دکھائی نہیںدیتی۔۔۔ دنیا میںکچھ چیزیں فانی نہیں ہوتیں، لہٰذا یہ ہماری مجبوری ہے۔ 
ریاست کو جس مسئلے کا سامنے ہے اس میںایک طرف اسلحہ بردار دشمن ہم پر دقیانوسیت مسلط کرنے پر تلا ہوا ہے اور دوسری جانب کنفیوژن کا شکارکمزور حکومت ہے ۔ ٹیکس چور، قرض نادہندگان، بدعنوان سیاست دان ہوں یا قوم کو فرقہ واریت کے خونی عفریت کی بھینٹ چڑھانے والے ملا، ہرعیارطبع صیادکا دام من پسند شرعی نظام سے ہی مزّین ہوتا ہے کیونکہ وہ بقول غالب جانتے ہیں: ''بک جاتے ہیں ہم آپ متاعِ سخن کے ساتھ‘‘ 
اس نظام کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی تفہیم زیادہ مشکل نہیں کیونکہ طالبان کے ایک ترجمان کے مطابق''اسلامی امارت پاکستان ‘‘ کے امیر کے لیے ملا فضل اﷲ موزوں امیدوار ہے اور ملا فضل اﷲ کو سب جانتے ہیں کہ جب وہ ''والی سوات ‘‘ تھا تواس کے خنجر بردار ہاتھ سے کیسے فوری انصاف ہوتا تھااوراس نظام کے سربریدہ عملی نمونے کس طرح درختوںکے ساتھ الٹے لٹکے ہوتے تھے۔ لہٰذا حکومت کی مذاکراتی کوششوں کے نتیجے میں جب طالبان کی حکومت، معاف کیجیے امارت، قائم ہوگئی تو عوامی مقامات پر کوڑے مارنے اور انسانوں کوذبح کرنے کی رسم تفریح کا درجہ حاصل کرلے گی ۔ کالعدم تحریک طالبان ملالہ یوسفزئی پر فائرنگ کرکے اپنی''تعلیمی پالیسی ‘‘ پہلے ہی واضح کرچکی ہے ،قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں سینکڑوں سکولوں کی تباہی کے بعد اگرکسی کو مزید تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو وہ بات کرکے دیکھ لے تاکہ سارے مغالطے اسی فانی دنیا میں ہی دور ہوجائیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ طالبان نے اس ضمن میں کبھی ابہام نہیںپھیلایا ، وہ واشگاف انداز میںکہتے رہے ہیں کہ وہ صرف اپنے مدرسوں میں ہی تعلیم کی اجازت دیں گے اور نصاب انہی کا تجویز کردہ ہوگا۔ اس ''تحصیلِ علم‘‘کے بعد جوجادہ ِ زیست ہمارا منتظر ہوگا، وہ سب جانتے ہیں۔اس کے نتیجے میں اعلیٰ ترین عہدہ خود کش جیکٹ پہننے والے کو ہی ملے گا۔ 
جہاں تک طالبان کی معاشی پالیسی کا تعلق ہے،اُنہوں نے فی الحال اس کو مخفی رکھا ہوا ہے ،لیکن چونکہ ان کے شرعی نظام میں سودکی گنجائش نہیںہوگی، اس لیے وہ ملک پر واجب الادا تمام غیرملکی قرضے واپس کرنے سے انکارکردیںگے۔ اس کے نتیجے میں مالیاتی ادارے مستقبل میں نہ صرف قرضے کی سہولت واپس لے لیں گے بلکہ ہماری درآمد اور برآمد کا عمل معطل ہوجائے گا۔ اس سے ملک میں ایک مالیاتی بحران پیدا ہوگا، صنعتی سرگرمیاں رک جائیں گی اور لوگ بیروزگار ہوکر جوق در جوق جہادی گروہ میں شامل ہوجائیں گے۔ خارجہ پالیسی استوارکرنے کی پہلی اورآخری شرط دوسرے ملک کا ''اچھے مسلمان‘‘ کی شرط پر پورا اترنا ہوگا ،طالبان اور ان کے بہی خواہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ''اچھائی ‘‘ کے اس معیار پرکون کون پورا اترتا ہے۔۔۔ ٹخنوں سے اوپر شلوار چڑھائے باریش فوج بھارت پر چڑھائی کے لیے تیار ہوگی جبکہ اسپِ تازی پر سوار شمشیر بکف زید حامد اسلام کا پرچم لہراتے، نعرے لگاتے دہلی کے لال قلعے کی طرف رواں دواں ہوں گے۔۔۔گڈ لک ! 
نرم الفاظ میں بتایا جائے گا کہ خواتین کا اصل مقام گھرہے اور اس کومان لینے میں ہی عافیت ہوگی ، اس لیے بیک جنبشِ قلم ملک بھر میں محنت مزدوری کرتے ہوئے اپنے بچوں اوراہلِ خانہ کا پیٹ پالنے والی عورتیں کام چھوڑکرگھرکی چاردیواری میں قید ہوجائیںگی۔ وہ برقع پہن کرکسی محرم کے ہمراہ ہی گھر سے باہر آسکیںگی ، وہ کسی مرد ڈاکٹر سے علاج نہیںکراسکیں گی۔۔۔ خواتین ڈاکٹرزکا تو سوال ہی پیدا نہیںہوتا کیونکہ طالبان لڑکیوں کی جدید تعلیم کے خلاف ہیں۔ اگر کسی عورت کے جسم کا ایک انچ بھی برہنہ دکھائی دے گیا توکوئی بھی''طالب‘‘ اسے درّے مارسکے گا، یہ مبالغہ آرائی نہیںکیونکہ افغانستان میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ 
عدم برداشت کوبرداشت کرنے اور دوسرے ممالک میں جہادی دستوں کی روانگی سے چشم پوشی کرتے ہوئے پاکستان پہلے ہی قوموں کی برادری سے دور ہورہا ہے ؛ چنانچہ اُس وقت کا تصورکریں جب پوری دنیا پاکستان کا سبز پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے اپنے دروازے بند کردے گی۔ اگر ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ دنیا ہمیں ہمارے حال پر چھوڑکر آگے بڑھ جائے گی تویہ ہماری بھول ہے کیونکہ ایٹمی ہتھیار طالبان کے ہاتھ لگ جانے کا تصورہی عالمی برادری کے لیے ایک بھیانک خواب سے کم نہیں، اس لیے دنیا انسانیت کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے ہمارے ساتھ کچھ بھی کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ کئی برسوں سے ہمارے ٹی وی سٹوڈیوز میں یہ سدابہار موضوع رہا ہے کہ امریکہ ہمارے ایٹمی ہتھیاروںکو''بے اثر‘‘کرنا چاہتا ہے ،اگر طالبان ریاست کا کنٹرول سنبھالتے دکھائی دیں تو یہ خدشہ سچ ثابت ہوجائے گا۔اس میںکوئی شک نہیں کہ اگر ان خدشات نے حقیقت کا روپ دھارلیا تو بہت خون خرابہ ہوگا ، لیکن مجھے یقین ہے کہ باقی دنیاکو اس پرکوئی تاسف نہیںہوگا کیونکہ ہم جان بوجھ کراس اندھے کنویں میں گرنے جارہے ہیں۔ اقلیتوں کوعلم ہونا چاہیے کہ طالبان کی اسلامی ریاست میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی، اس لیے وہ کسی ایسے ملک جانے کے لیے درخواست دینے کی تیاری کریں جو انہیں پناہ دینے کے لیے تیار ہو۔ اس ملک میں غیر مسلم تو ایک طرف، غیر سنی بھی دوسرے درجے کے شہری بن کررہیںگے۔ وادی کیلاش والوں کو الٹی میٹم مل چکا اور ان کو نیک و بد سمجھایاجاچکاہے ۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اپناتے ہیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے ، میں نے بھی بہت سے ایسے جملہ لوازمات پر غورکرنا شروع کردیا ہے جن پر میں کبھی عمل نہیں کر سکا۔ کیا کہا،کالم کس زبان میں ہوگا؟کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں