پہلی جنگ ِ عظیم آخری نہ تھی

پہلی جنگِ عظیم کے آغاز کو2014ء میں ایک سو سال ہورہے ہیں اوردنیا بھر میں مضامین، ٹی وی رپورٹس اورکتابیں لکھ کراس خوفناک واقعے کی یاد تازہ کی جارہی ہے۔ جب 28 جولائی قریب آئے گی تو اس موضوع پریورپ میں بطورخاص مزید بات ہوگی اس لیے کہ اس دن آسٹریا اور ہنگری نے سربیا کو الٹی میٹم دیا تھا۔ اگرچہ اس جنگ کو سو سال کا عرصہ گزرچکا ہے لیکن اس کی دہشت کے خونچکاں نقوش ذہنِ انسانی پرہنوز ثبت ہیں۔ اس جنگ میں ہونے والی تباہی و بربادی کا تصور بھی دل دہلا دیتا ہے۔۔۔ سولہ ملین(ایک کروڑساٹھ لاکھ) افراد کی ہلاکت، جس میں مخالف افواج کی ایک کروڑ ہلاکتیں بھی شامل تھیں۔اس جنگ میں دوکروڑانسان زخمی ہوئے۔
اس قدر وسیع پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کی نظیر چشمِ فلک نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی، اس کی وجہ جدید ہتھیار اور نئی جنگی ٹیکنالوجی کا استعمال تھا۔ پہلی مرتبہ کسی جنگ میں لڑاکا طیاروں، ٹینکوں، آبدوزوں، مشین گنوں اور مہلک گیس کا استعمال کیا گیا۔ فرانس میں جرمن پیش قدمی کو روکنے کے لیے بچھائی گئی بارودی سرنگیں ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت کا باعث بنیں۔
ہلاکت خیزی اپنی جگہ، لیکن اس جنگ کے آغاز کی وجوہ پر مورخین کا آپس میں اتفاق نہیں۔ اس سے پہلے یورپی اقوام کی باہم تنظیم سازی اور طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کی پالیسی کی بدولت کریمن جنگ(جو روس اوربرطانیہ، فرانس اور سلطنت ِ عثمانیہ کے اتحادکے درمیان ہوئی) اور فرانس اور جرمنی کے درمیان ہونے والی جنگ کے سوایورپ میں مجموعی طور پرنپولین جنگوں(Napoleonic wars)کے بعد ایک سوسال تک امن قائم رہا۔ واٹرلو میں نپولین کی شکست کے بعد 1815ء میں''کنسرٹ آف یورپ‘‘کے قیام کی وجہ سے یورپی ممالک کے باہمی تنازعات سفارتکاری اور مذاکرات کی مدد سے حل کیے جانے کی سبیل پیدا ہوگئی۔ 
بسمارک نامی بحری بیڑے کے بعد 1871ء میں جب جرمن سلطنت کا قیام عمل میں آیاتو جرمن حکمران چاہتے تھے کہ عالمی طاقتیں بشمول برطانیہ اس سلطنت کو تسلیم کرلیں۔ان دنوں بحری بیڑے اور دنیا کے مختلف ممالک میں قائم کی گئی کالونیوںسے کسی سلطنت کی طاقت اور اختیار کا اظہار ہوتا تھا۔ جرمنی جو پہلے ایک زمینی طاقت تو تھا لیکن اس کے پا س بحری بیڑے تھے نہ ہی کوئی کالونی ،لیکن بسمارک کے بعد جرمنی برطانیہ کی مسابقت کرنے کے لیے پرعزم ہوگیا۔ اُس وقت روس جو یورپ کی سب سے پسماندہ ریاست تھی کے شہنشاہ زارنکولس دوم عوامی حمایت سے محروم تھے اور اس کوشش میںتھے کہ حکومت کے خلاف ابھرنے والے عوامی جذبات کا رخ کسی دوسری طرف موڑ دیں۔ یورپ کا سہ رکنی اتحاد روس، فرانس اور برطانیہ پر مبنی تھا، ان میں سب سے کمزور روس تھا۔ بہرحال جرمنی کو مشرقی محاذ پر روس سے خطرہ محسوس ہورہا تھا،اس لیے اس نے اپنی فوج کودومحاذوں پرلڑنے کے لیے بھیج دیا۔ 
پہلی جنگِ عظیم کی صدسالہ یادمنانے کے موقعے پر جو بہت سی کتابیں منظرِ عام پر آرہی ہیں‘ ان میں مارگریٹ میک ملن (Margaret MacMillan)کی کتاب ''The War that Ended Peace‘‘ قابل ِ ذکر ہے۔ اس کتاب میں مصنفہ نے تاریخی حوالوں سے اس جنگ میں حصہ لینے والے ممالک کے حکمرانوں کے عزائم اور سیاسی مقاصد کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ مصنفہ نے اُن واقعات اور اتفاقات کا بھی ذکرکیا ہے جو اس جنگ کا باعث بنے۔ بنیادی طور پر وہ ان عوامل کا ذکر کرتی ہیں جن میں بگاڑ آنے سے کسی ملک کا امن خراب ہوتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے حوالے سے سب سے بڑا عامل جرمنی کی طرف سے جہازسازی کی صنعت کو فروغ دینا تھا۔ اس کی وجہ سے سمندروں پر برطانیہ کی حاکمیت کو خطرہ محسوس ہوا۔ طاقتور بحری بیڑے جزائرِبرطانیہ کی ضرورت تھے کیونکہ اس کی کالونیاں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھیں۔ دوسری طرف جرمن بھی جو خودکوکسی سے کم نہیں سمجھتے تھے، برطانیہ کو چیلنج کرنے پر تلے ہوئے تھے ۔ایک اور عامل جس کی وجہ سے پہلی جنگِ عظیم ناگزیر ہوگئی‘ عثمانیہ سلطنت کا یک لخت زوال تھا۔ جب کمزور خلافت اپنے انجام کو پہنچی تو یورپی طاقتیں جن کے سرپر زیادہ سے زیادہ کالونیاں بنانے کی دھن سوار تھی، ترکی کی بندر بانٹ کے لیے لپکے۔ اس وقت تک سرب قوم پرست بھی آزادی حاصل کرنے کے بعد ایک ایسی عظیم سربیا ریاست قائم کرنے کے لیے پرعزم تھے جو Slavic آبادی کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہوئی مشرقی یورپ تک پھیلی ہوئی ہو۔انہی قوم پرستوں کے ہاتھوںآسٹریا‘ ہنگری کے ولی عہد آرک ڈیوک فرانز فرڈیننڈاوراس کی بیوی کواس وقت قتل کردیا گیا جب وہ بوسنیا کے دورے پر تھے۔ یہ قتل گویا بارود کے ڈھیرکو چنگاری دکھانے کے مترادف تھا۔ 
جس یورپی اتحاد نے امن قائم رکھنا تھا وہی جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے لگا۔روس نے سربیاکے ساتھ اس کی حفاظت کا وعدہ کر رکھا تھا جبکہ جرمنی‘ آسٹریا اور ہنگری کے ساتھ تھا۔ اگرچہ فرانس جس کے مشرق میں یہ کشمکش زور پکڑ رہی تھی،اس جنگ سے براہ ِ راست متاثر نہ تھا لیکن وہ روس کے ساتھ دفاعی معاہدے میں شریک تھااور برطانیہ کا فرانس کے ساتھ معاہدہ تھا۔ اگرچہ فرانس اوربرطانیہ طویل عرصہ تک دشمن رہے تھے لیکن برطانیہ‘ جرمن حملے کی صورت میں فرانس کی مدد کے لیے کمر بستہ ہوچکا تھا۔یہ بات نوٹ کرنادلچسپی سے خالی نہیں کہ جرمنی، برطانیہ،ہنگری ، آسٹریا اور روس کے حکمران نسل کے اعتبار سے ایک ہی تھے ؛ تاہم جب طبلِ جنگ بجا توخون کی یکسانیت ان کو خونریزی سے روک نہ سکی۔ اس جنگ کے اختتام پر چار میں سے تین سلطنتیں ختم ہوگئیں۔ 
آج سوسال بعد اس جنگ کے ذکر کی کیا اہمیت ہے؟سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں ہونے والی جغرافیائی حد بندیوں کی شکست وریخت سے بہت سی نئی ریاستیں وجود میں آئیں(اگرچہ آج 2014ء میں ان میں سے کچھ ممالک کی جغرافیائی حدود پھر خطرے کی زد میں ہیں)۔ جنگ میں شکست کے بعد سلطنتِ عثمانیہ ختم ہوگئی اور اس کے مشرقی وسطیٰ کے علاقوں پر فرانس اور برطانیہ نے Sykes-Picot Agreement کے تحت قبضہ کرلیا۔ جرمنی کی شکست کے بعد Versailles معاہدے کے تحت جدید عراق، اردن ، شام اور لبنان وجود میں آئے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد جب دنیا کی آنکھیں کھلیں تو بھیانک خونریزی سے انسانیت کا دل دہل گیا۔ طے کیا گیا کہ آئندہ ایسی وسیع جنگ چھڑنے کے امکانات کو روکاجائے گا؛ چنانچہ لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں لایاگیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ پہلی جنگِ عظیم وہ جنگ تھی جس نے آئندہ تمام جنگوں کے امکانات ختم کردیے ؛ تاہم یہ انسان کی خوش فہمی تھی۔ جنگ میں شکست خوردہ جرمنی پر سخت شرائط عائدکی گئیں اس لیے دو عشروںکے بعد دنیا اس سے بھی زیادہ مہیب جنگ کے شعلوں کی نذر ہوگئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں