مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ

گزشتہ ہفتے میں سری لنکا میں اپنے پُرسکون مکان میں تھا کہ ایک ای میل نے مجھے جلتے انگاروں کی نذرکر دیا۔ اس میں ایک ویڈیوکا لنک تھا جس میں طالبان کی طرف سے ایف سی کے پندرہ جوانوںکو گولیاں مار کر ہلاک کرنے کے مناظر تھے۔ جوانوںکی آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھ پیچھے بندھے تھے اور ایک شخص ان پر گولیاں برسا رہا تھا۔ گولی ان کے جسم میں جس جگہ پیوست ہوتی وہاں سے خون کا فوارہ پھوٹتا۔ پتھر دلوںکو بھی شدت غم سے پاش پاش کر دینے والی اس درندگی کے بعد قاتل نے ان ہلاکتوں کا دینی جواز پیش کرتے ہوئے متعدد بار اللہ کے کلام کا حوالہ دے کر ''ناظرین‘‘ کو یقین دلایا کہ مقتولین سیدھے جہنم میں جائیں گے۔ 
میں چاہتا ہوں کہ طالبان کے حامی، جن کی اس ملک میں کمی نہیں، اس ویڈیو کو دیکھیں اور پھر مقتولین کے اہلِ خانہ سے آنکھیں چار کرکے طالبان کی حمایت کرتے ہوئے اس سفاکی کا مذہبی جواز پیش کریں۔ اس تصور سے دل صدمے سے شق ہو رہا ہے کہ جب ہلاک کیے جانے والے ایف سی کے ان جوانوں کے ساتھیوں نے یہ ویڈیو دیکھی ہو گی تو ان کے دل میں انتقام کی آگ کتنی بھڑکی ہوگی۔ انہیں اپنے ساتھیوں اور ہزاروں دوسرے افراد کے بہیمانہ قتل کا انتقام لینے کا موقع نہ دینا ظلم ہے۔ 
اب جبکہ ریاست بتدریج مغلوب ہوتی محسوس ہو رہی ہے، ہمیں کہا جا رہا ہے کہ خاطر جمع رکھیں کیونکہ ان مذاکرات میں حکومت طالبان کو ہرگز کوئی ناروا رعایت نہیں دے گی۔ یہ یقین دہانی طفل تسلی محسوس ہوتی ہے کیونکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے حکومت نے قاتلوں کو نہ صرف ریاست کے مساوی بلکہ اُنہیں اپنی شرائط پیش کرنے اور منوانے کی پوزیشن پر بھی لاکھڑا کیا ہے۔ شمالی وزیرستان میں انتہاپسندوں کے ٹھکانوں پر کیے جانے والے حالیہ فضائی حملوں سے ایک بات تو ظاہر ہوتی ہے کہ طاقت رکھتے ہوئے مذاکرات کرنے میں ہی عزت اور معقولیت ہے۔ بیروت میں خانہ جنگی جاری تھی اور غیر ملکیوں کا اغوا معمول کی بات تھی۔ 1985ء میں سوویت یونین کے چار سفارت کاروںکو ایک گروہ نے جو ''اسلامک لبریشن آرگنائزیشن‘‘ کہلاتا تھا، اغوا کر لیا۔ ان میں سے ایک سفارت کار کی لاش سوویت سفارت خانے کے باہر سے مل گئی۔ اس پر ''کے جی بی‘‘ نے اپنے انسدادِ دہشت گردی کے سیل الفا ڈائریکٹوریٹ (Alfa Directorate) سے ایک ٹیم روانہ کی جس نے آئی ایل او کی قیادت کے اہل خانہ کو اغوا کر لیا، پھر ان میں سے ایک کے نازک اعضا کاٹ کر اس پیغام کے ساتھ پارسل کر دیے کہ سفارت کاروں کو رہا کر دیں ورنہ باقی جسم کے حصے بھی اگلی ڈاک میں آپ کو مل جائیں گے۔ تینوں سفارت کاروں کو فی الفور رہا کر دیا گیا اور وہ بالکل خیریت سے واپس لوٹ آئے۔ اس کے بعد کبھی کسی روسی باشندے کو بیروت میں اغوا نہ کیا گیا۔ کے جی بی نے عوامی سطح پر کبھی اس واقعے کا اعتراف نہ کیا لیکن اُس وقت بعض ذرائع نے یہ کہانی پھیلا دی اور کچھ اخبارات نے بھی اس پر رپورٹ شائع کی۔ 
میں یہ نہیں کہتا کہ ایسے سنگدلانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں لیکن طالبان نے اپنے طرزِعمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ امن اور جمہوریت سے نفرت کرتے اور صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔ ایک ماہ کی جنگ بندی کا معاہدہ کرنے کے فوراً بعد طالبان نے یہ دیکھنے کے لیے کہ حکومت اور دفاعی اداروں کا ردِ عمل کیا ہوتا ہے، ہنگو اور اسلام آباد میں کارروائیاں کیں۔ اگرچہ اُنہوں نے ان دو حملوں میں ہونے والی ہلاکتوںکی ذمہ داری قبول نہیں کی اور کہا کہ ان حملوں میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں، لیکن جو ہزاروں افراد کو سفاکی سے ہلاک کر سکتے ہیں، وہ جھوٹ کیوں نہیں بول سکتے؟ گزشتہ کئی برسوں میں اُنہوں نے پانچ ہزار سکیورٹی اہل کاروں سمیت پچاس ہزار پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں۔ اس دوران اُنہوں نے متعدد بار امن معاہدے کیے اور جب بھی موقع ملا انہیں توڑ کر عوام کا خون بہایا۔ کیا ہم ان کی تردید کو سچائی مان لیں؟ اگر وہ واقعی ان حملوں کے حوالے سے بے قصور ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے انتہاپسند گروہ طالبان کے زیراثر نہیں۔ حالیہ دنوں ٹی وی پروگراموں میں حکومت سے تعلق رکھنے والے بہت سے دانشور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان حملوں میں کوئی ''خفیہ ہاتھ‘‘ ملوث ہے اور اس کا مقصد پرامن مذاکرات کو سبوتاژ کرنا ہے۔ اس خفیہ ہاتھ سے امریکہ مراد ہو گا۔ یہ بے بنیاد اور احمقانہ توجیہہ صرف اپنے ذاتی موقف کو تقویت دینے کی کوشش ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری ایک گمنام گروہ نے قبول کی ہے۔ ہمیں انتہا پسندوںکے ان ہتھکنڈوں پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ پہلے ہی پاکستان میں ساٹھ کے قریب جہادی گروہ کام کر رہے ہیں اور ان کے پاس خود کش بمباروں کی بھاری کھیپ موجود ہے۔ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ کوئی شخص محض رقم کی خاطر اپنی جان پر کھیل جائے، اس لیے یہ ایک موہوم امکان ہے کہ غیرملکی ایجنسیاں انہیں اپنے مقاصد کی خاطر پاکستان میں تباہی پھیلانے کے لیے استعمال کریں۔ ''خفیہ ہاتھ‘‘ کی تلاش جن کا قومی فریضہ بن چکا ہے، ان کے پاس وہ ترغیب موجود نہیں جو کسی کو جان قربان کرنے پر آمادہ کر سکے۔ 
طالبان اور ان کے رہنما بارہا کہہ چکے ہیں کہ ان کی منزل پاکستان میں اپنی پسند کی شریعت کے نفاذ کے سوا اور کچھ نہیں۔ حکومت ان کے ساتھ مذکرات کرنے کے لیے اتنی بے تاب ہے کہ اس نے ان سے کوئی گارنٹی نہیں لی کہ وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں گے یا نہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو لاحق خطرے اور اس کی سنگینی کا شاید احساس نہیں۔ چونکہ طالبان کے بہت سے گروہ ہیں اس لیے وہ مذاکرات کا لامتناہی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے آپریشن سے بچ کر حملے جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہر حملے کے بعد وہ نہایت معصومیت سے خود کو بے گناہ قرار دے کر کسی گمنام گروہ کو آگے کر دیںگے اور حکومت امن کے نام پر ان کی بے گناہی کو تسلیم کر لے گی۔ انتہا پسندوں کی یہ حکمتِ عملی نئی نہیں، لیکن ہم تاریخ کے مطالعے سے گریز کرتے ہیں۔ ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں ایک مشہور اردو کالم نگار نے کہا کہ حکومت کو طالبان کو بھاری زرِ تلافی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے لیکن وہ صحافی یہ بتانے سے قاصر رہا کہ طالبان نے جن ہزارہا افراد کو ہلاک کیا، وہ ان کے اہل خانہ کے نقصان کی تلافی کیسے کریں گے؟ منافقت سے لبریز معاشرے میں اسی معیارکی صحافت کی توقع کی جا سکتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں