عالمی برادری کے دہرے رویے

گزشتہ سال یا اس سے بھی کچھ زیادہ عرصے سے جمہوری حکومتیں ہل کر رہ گئیںاور بعض کا توگلیوں اور سڑکوں پر ہونے والے عوامی احتجاج نے تختہ الٹ دیا۔ان مواقع پر عالمی برادری کا ردِ عمل بہت معنی خیز تھا۔گزشتہ سال فوج کی طرف سے مصرکے صدر مرسی کا تختہ الٹنے کی مثال سامنے رکھیں تو نظریہی آتا ہے کہ وہ جمہوری طریقے سے منتخب صدر تھے اور اپنی بہت سی غلطیوںکے باوجود عوام کی قابلِ ذکر اکثریت کی حمایت رکھتے تھے ، اس کے باوجود جب فوج نے عوامی احتجاج کے بعد مرسی کواقتدار سے ہٹایا تو امریکی حکومت نے فوج کی طر ف سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کارروائی کو''شب خون ‘‘ قرار دینے سے گریزکیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگرکسی ملک میں فوج اقتدار پر قبضہ کر لے تو امریکی آئین یہ کہتا ہے کہ اُس کی فوجی اور مالی امداد فوری طور پر روک دی جائے۔ 
تھائی لینڈ میںوزیراعظم ینگلک شینا وترا(Yingluck Shinawatra)انتخابی عمل سے منتخب ہوکر اقتدار میں آئے تھے لیکن بنکاک کی گلیوں میں پرزور احتجاج کرنے والے ہجوم نے مطالبہ کیا کہ ''عوام کی کونسل ‘‘ کو اقتدار سونپا جائے۔ اس احتجاج کی بنیادی وجہ وزیراعظم کے بھائی تھاکسن (Thaksin)کو معافی دے کرتھائی لینڈ آنے کی اجازت دینے کا فیصلہ تھا۔ تھاکسن بھی تھائی لینڈ کے وزیراعظم تھے اور بدعنوانی اور غیر جمہوری اقدامات کی وجہ سے فوج نے ان کا تختہ الٹ دیا تھا اوروہ جلاوطنی کی زندگی دوبئی اور دوسرے ممالک میں گزار رہے تھے۔ جب ان کو اقتدار سے جبراً رخصت کیا گیا تو مغربی ممالک سے بہت کم آوازیں ان کی حمایت میں بلند ہوئیں اور جب مس شیناوترا نے ضمنی انتخابات کامطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اُنہیں عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے تو اپوزیشن جماعتوں نے ملک کے کئی حصوں میں ہونے والے انتخابات کور وک دیا۔ اس سے انتخابی عمل مفلوج ہوکر رہ گیا۔ 
وینز ویلا میں بھی نکولس مادرو(Nicholas Maduro) کی حکومت کے خلاف مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے عوام کے ہجوم نے کئی ہفتے پرزور احتجاج کیا ؛ تاہم صدر نکولس کا موقف تھا کہ وہ مرحوم ہیوگو شاویزکی ان پالیسیوں سے روگردانی نہیں کریںگے جن کی وجہ سے نوے کی دہائی میں غربت کی شرح 35 فیصد سے کم ہوکرچھ فیصد تک آگئی تھی۔ اُنہوںنے دعویٰ کہ غربت اور بے روزگاری میں کمی واقع ہورہی ہے۔ 
ان تینوں مثالوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ زیادہ تر احتجاج کرنے والوں کا تعلق درمیانے اور شہروں میں رہنے والے تعلیم یافتہ طبقے سے تھا۔ تھائی لینڈ میں شمالی حصوں میں آباد کاشت کاروں، جن کو تھاکسن کی معاشی اصلاحات سے فائدہ ہوا اور بنکاک کے علاوہ جنوبی حصوں میں رہنے والے صنعت کاروںاور پیشہ ور افراد کے درمیان تقسیم کی لکیر گہری ہورہی تھی ؛چنانچہ بنکاک اور جنوبی علاقوںکے صنعت کاروں نے سوچا کہ چونکہ وزیراعظم اوران کی بہن کو شمالی علاقوں کے افرادکی حمایت حاصل ہے اس لیے اُنہیں جمہوری طریقے سے اقتدار سے نکالا نہیںجاسکتا۔لہٰذا اُنہوںنے شب خون مارنے کے لیے فوج کی حمایت کی؛ تاہم وزیراعظم نے عوام کو احتجاج کرنے کا موقع دے دیا اور فوج کو بہانہ نہ مل سکا کہ وہ حکومت کی چھٹی کرادے۔
مصر میںمغربی نظریات رکھنے والی لبرل سوسائٹی اور بڑے شہروں میںرہنے والے لوگ اخوان المسلمون کے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے اسلام پسند حامیوں کے خلاف تھے۔اگرچہ ان دونوں طبقوں نے مل کر حسنی مبارک حکومت کے خاتمے کے لیے جدوجہد کی تھی لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد صدر مرسی اسلام پسندوں اور لبرل طبقوںکے درمیان توازن قائم نہ رکھ سکے اور اخوان کے نظریات کی حمایت شروع کردی ،اس لیے ان کے خلاف فوج کو کارروائی کرنے کا جواز مل گیا۔اب جنرل سیسی جو اقتدار پر فائز ہیں، حسنی مبارک سے بھی زیادہ اختیارات اپنی مٹھی میں لے چکے ہیں۔
ایک اور ملک جہاں عوامی احتجاج نے منتخب صدرکا تختہ الٹ دیا، وہ یوکرائن ہے۔ کئی ماہ کے پرتشدد احتجا ج کے بعد صدر Yanukovich بھاگ کر روس میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ اب ان کی جگہ نگران صدر اقتدار سنبھال چکے ہیں جبکہ پیوٹن نے عملی طور پر کریمیا کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے۔اس سے خطے میں بحران کے سائے گہرے ہورہے ہیں۔ روس کے مردِ آہن کے جارحانہ اقدام سے مغربی دارالحکومتوں اور میڈیا میں ہونے والی تنقید ان کے دوغلے پن اورکھوکھلے رویے کی غمازی کرتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پیوٹن نے ایسا کرتے ہوئے یوکرائن کی خود مختار ی اور بین الاقوامی قوانین کی پامالی کی ہے؛ تاہم مغربی رہنمااوران کا میڈیا یہ بات بھول گیا کہ 2003ء میںوسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے جو عراق پر حملہ کیا تھا، وہ بھی بین الاقوامی قوانین کی پامالی ہی تھی اوراُنہوںنے بھی ایک ملک کی خود مختاری کا لحاظ نہیںکیا تھا۔ 
ان واقعات سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ جمہوریت، ریاستی خودمختاری اوربین الاقوامی قوانین کی بات صرف اُس وقت ہی کی جاتی ہے جب اُن کا کسی ملک کو فائدہ ہو۔لوگ ایک اور بات بھی فراموش کررہے ہیںکہ کریمیا تاریخی طور پر روس کا حصہ ہی تھا۔1992ء میں ہونے والی سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد کریمیا نے یوکرائن کے ساتھ مل کر ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا تھا؛تاہم ایسا کرتے ہوئے کریمیا کے عوام سے جن میں ساٹھ فیصد روسی نسل کے باشندے ہیں،رائے نہیں لی گئی تھی۔اب اگرچہ کریمیا کے عوام کی مرضی جاننے کے لیے ریفرنڈم کے انعقاد کا اعلان کیا گیاہے لیکن مغربی رہنمائوںنے روس پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ میں مسٹر پیوٹن کی وکالت نہیں کر رہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عراق سے امریکی مفادکو اتنا خطرہ نہیں تھا لیکن روس نے کریمیا میں اپنے بہت سے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔کریمیا میں نہ صرف روسی باشندوںکی ایک بڑی تعداد مقیم ہے بلکہ روسی نیوی کا ایک اہم اڈا Sevastopol بھی وہیں ہے۔ 
یہ بات واضح ہے کہ مغرب کے پاس اس بحران کو حل کرنے کے لیے بہت کم آپشنز موجود ہیں۔ خوش قسمتی سے کوئی بھی فوجی کارروائی کی بات نہیں کررہا، اس لیے کہ روس عراق نہیں ہے۔ اس میں مغربی ممالک کا معاشی مفاد بھی دائو پر لگاہوا ہے کیونکہ یورپی یونین کے اکثر ممالک روس سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس پر انحصار کرتے ہیں، اس لیے وہ امریکہ کے کسی ایکشن کی حمایت نہیںکریںگے۔ مغربی میڈیا میں سب کچھ کہا جا رہا ہے سوائے اس کے کہ عوامی احتجاج کے ذریعے منتخب حکومتوںکو چلتا کرنا جمہوریت اور انتخابی عمل کی توہین ہے۔ اگر یوکرائن کے صدر کی مرضی تھی کہ وہ یورپی یونین میں شمولیت اختیارکرنے کے بجائے روس کے ساتھ چلیں گے تو بھی عوام کے پاس آپشن موجود تھا کہ اس فیصلے کو جمہوری انداز میں چیلنج کرتے، لیکن جس طرح طریقے سے مسلح افرادکئی ماہ تک گلیوں میں مارچ کرتے رہے، اس سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ ان کو منظم طریقے سے کسی فریق نے استعمال کیا ہے۔ اگرچہ میں سازشی تھیوری پر یقین نہیں رکھتا لیکن یہ قیاس کرنا دشوار ہے کہ بیرونی حمایت اور رقم کے بغیر ایک تحریک اتنی دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں