میرا شہر کراچی

بیتے سالوں، خاص طور پر گزشتہ ایک عشرے کے دوران، میں دنیا کے مختلف شہروں میں رہا ہوں لیکن جب بھی کسی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا گھر کہاں ہے تو ہمیشہ جواب دیا: 'کراچی‘؛ تاہم مجھے اعتراف ہے کہ اس صوبائی دارالحکومت کے ساتھ میرا تعلق پسند و ناپسند کا عجیب سا امتزاج رہا ہے۔ درایں چہ شک کہ وسعت پذیری کی طرف مائل یہ شہر بدصورتی، افراتفری اور تشدد کا گڑھ ٹھہرا اور میرے جاننے والوں، اور ان کی تعداد کم نہیں، میں سے شاید ہی کوئی ایسا خوش قسمت ہو گا جو کسی نہ کسی مقام پر لوٹ مار کا نشانہ نہ بن چکا ہو۔ جب کوڑے کرکٹ اور گندگی سے اٹی ہوئی اس شہر کی گلیاں دیکھیں تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس میں امن و امان کی صورت حال زیادہ خراب ہے یا صفائی کی۔ فزوں تر آبادی سے کھچاکھچ بھرے اس شہر کو دیکھ کر یہ تو نہیں کہا جا سکتا، جیسے مرزا نے کہا تھا... ''درودیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا‘‘... لیکن یہ بات طے ہے کہ اس کے ہر مربع انچ سے صوبائی حکومت کی بدانتظامی کی جھلک نمایاں ہے۔ 
جب بھی میں انگلینڈ یا سری لنکا سے کراچی کی فلائٹ لینے کا قصد کرتا ہوں تو وہاں کے مقامی دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اتنی خطرناک جگہ کیوں جا رہا ہوں؟ کوئی دوسرا خیال ذہن میں لائے بغیر جواب دیتا ہوں: ''کیوںکہ وہ میرا گھر ہے‘‘ تاہم جب میں شاہراہ فیصل، جو کہ شہر کی مرکزی سڑک ہے، پر آتا ہوں تو خستہ حال مکانات، جن کا پینٹ جگہ جگہ سے اکھڑ چکا ہوتا ہے، اور سڑک کے کنارے ہر طرف بکھرے اور ہوا کے دوش پر اُڑتے پلاسٹک کے لفافے دیکھ کر دل کو سخت صدمہ ہوتا ہے؛ تاہم کاروبارِ زیست جاری و ساری ہوتا ہے اور دوست احباب مجھے وطن میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ پھر نمائشوں کی سیر، نت نئے ریستورانوں کا ذائقہ، نئے لوگوں سے ملاقات، پرانے دوستوںکی محبت اور پارٹیاں اور یہ ساری گرم جوشی دیکھ کر یہ احساس مزید گہرا ہو جاتا ہے کہ میں اپنے گھر میں ہوں۔
اپنے حالیہ دورے کے دوران میرے بیٹے شاکر نے مجھے دو کتابیں پڑھنے کو کہا۔ کراچی کے حوالے سے لکھی گئی ان کتابوں نے میری آنکھیں کھول دیں اور مجھ پر اس شہر کے ایسے گوشے آشکار ہوئے جن سے میں اب تک ناواقف تھا۔ پہلی کتاب ایک نوجوان رپورٹر صبا امتیاز کی"Karachi You're Killing Me" ہے۔ اس میں اُنہوں نے بہت متاثر کن طریقے سے شہر کے کچھ علاقوں، جیسا کہ ڈیفنس اور کلفٹن کی زندگی کے کچھ دلچسپ گوشوںکے بارے میں آگاہی بخشنے کی کوشش کی۔ یہ کتاب قارئین کو کچھ رومانوی پارٹیوں اور ایک اخبار کے نیوز روم میں لے جاتی ہے۔ اس کتاب کا حاصل مطالعہ وہ حصے ہیں‘ جن میں مصنفہ نے بڑے بڑے صنعتی گروپس کی نئی نسل کے ''لڑکوں‘‘ جو عقل و فہم جیسے غیر ضروری بوجھ کو سر پر سوار نہیں ہونے دیتے، کا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری کتاب ایک حاضر سروس پولیس افسر عمر شاہد حامد کی "The Prisoner"ہے۔ اس میں مصنف نے لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا ہے کہ کون اس شہر کو کس طرح کنٹرول کرتا ہے۔ اس کتاب میں '' قیدی‘‘ دراصل ایک سخت جان اور نڈر پولیس افسر ہے، جو بہت حد تک پولیس افسر چوہدری اسلم، جنہیں طالبان نے سڑک پر خود کش حملے میں شہید کر دیا تھا، سے مشابہت رکھتا ہے۔ اسے ایک انتہائی خوفناک گروہ سے نمٹنے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ کراچی میں رہنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ پولیس میں کس طرح سیاسی مداخلت کی جاتی ہے، چنانچہ اس کے لیے امن و امان قائم کرنا ممکن نہیں۔ اس خطرناک گروہ سے تعلق رکھنے والے گرفتار شدہ قاتلوں کو رہا کرنا پڑتا ہے۔ 
اس کتاب کا رمزیہ لہجہ زیادہ گہرا نہیں، اس لیے ہر کوئی نہایت آسانی سے سمجھ جاتا ہے کہ مصنف کن کی بات کر رہا ہے۔ مصنف ایک سندھی سیاسی خاندان کو بھی متعارف کراتا ہے۔ یہاں بھی ''اصل‘‘ کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ کتاب میں پُرکشش شخصیت کا مالک نواز چانڈیو جو وزیر اعلیٰ، یوسف، کا بھائی ہے، پولیس کے ہاتھوں ''حادثاتی‘‘ طور پر چلنے والی گولی کا نشانہ بن کر ہلاک ہو جاتا ہے۔ کتاب میں یہ واقعہ پڑھ کر ہو ہی نہیں سکتا کہ قاری کو ایک اہم فرد کے قتل کے بعد پھیلنے والی سازش کی تھیوریاں یاد نہ آئیں۔
میں نے ان کتابوں کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ قارئین کو احساس دلا سکوں کہ کراچی میں تشدد اور خوف کے باوجود ادب کی تخلیق کا سفر جاری ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کی آرٹ گیلریوں کی رونق قائم ہے۔ حال ہی میں ''امین گل جی گیلری‘‘ میں نوجوان مصوروں کے فن پاروں کی نمائش کی گئی۔ اس نمائش کے لیے بھیجی گئی چار سو میں سے جن ساٹھ کا انتخاب کیا گیا، وہ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں اور ان کے تخیل کا مظہر تھیں۔ اگرچہ رکھی گئی تصویروں میں معیار کی مساوات موجود نہ تھی لیکن 'تازہ مصوروں‘ کی نمائش میں ایسا تو ہوتا ہے۔ کئی سال پہلے اقبال احمد، جن کے کالم ایک انگریزی زبان کے اخبار میں شائع ہوا کرتے تھے، نے کہا تھا کہ کراچی پاکستان کا واحد سیکولر شہر ہے۔ ان کی یہ بات درست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد میں کراچی کو ہی اپنا گھر قرار دیتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ایک دیوہیکل پریشر ککر، جیسا کہ کراچی، کے دبائو میں زندگی گزارنے والے افراد کا آپس میں نظریاتی ربط نہ ہونا ناگزیر ہے۔ اگرچہ ہم تشدد کے عادی ہو چکے ہیں لیکن کبھی کبھار دل سے آہ نکلتی ہے کہ کاش یہاں بھی امن ہو۔ پھر یوسفی صاحب یاد آتے ہیں جن کا کہنا ہے... ''کراچی والے خود کراچی کی جی بھر کے برائی کرتے لیکن جب آپ ان کی ہاں میں ہاں ملائیں تو بُرا مان جاتے ہیں‘‘۔ کراچی کے اسی رویے پر پیار آتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں