نائیجیریا میں انتہاپسندی

آپ کو اُس اشتعال اور غم و غصے کا اندازہ لگانے کے لیے یورپ یا دنیا کے کسی دوسرے حصے میں رہنے کی ضرورت نہیں جو مہذب دنیا 'باکوحرام‘ کے بارے میں رکھتی ہے۔ نائیجیریا سے تعلق رکھنے والا یہ انتہا پسند گروہ دقیانوسیت، سفاکیت اور درندگی میں افغان طالبان سے مشابہت رکھتا ہے۔ اگر ٹویٹر یا دوسرا سوشل میڈیا استعمال کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ لوگوں کے جذبات نائیجیریا کے ایک قصبے چی بوک (Chibok) سے تین سو لڑکیوںکے اغوا پر کس قدر بپھرے ہوئے ہیں۔ آن لائن تبصروں کا سلسلہ جاری ہے اور زندہ ضمیر رکھنے والی دنیا انتہا پسندوں کی مذمت کر رہی ہے؛ تاہم پاکستان میں ہم کنویں کے مینڈکوں کی طرح پانی سے باہر آنے اور پھر نہایت چابکدستی سے واپس اس میں کود جانے کی مشق پر نازاں، ایسے واقعات پر بمشکل اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ ایک دو انگریزی اخبارات میں اسلامی دنیا پر زور دیا گیا کہ وہ مل کر اس گھنائونے فعل کی مذمت کرے، اس کے سوا پاکستانی میڈیا بالعموم خاموش رہا۔ جہاں تک ہمارے پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا تعلق ہے تو ان کی اپنی مصروفیات ہیں۔ وقت بچ جائے تو وہ عمران خان، عدالتی معاملات اور انواع و اقسام کے ملائوں کے بیانات کی نذر ہو جاتا ہے۔ 
اپنے داخلی معاملات کی دلدل میں ہم جتنے بھی دھنسے ہوئے ہوں، یہ بات فراموش نہیںکرنی چاہیے کہ ہم خلا میں نہیں بلکہ انسانوںکی دنیا میں رہتے ہیں۔ اس میں ہونے والے تمام نہیں تو کچھ واقعات ہم پر اخلاقی ذمہ داری کا بوجھ ڈالتے ہیں۔ آج بھی پاکستان میں بہت سے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر دنیا نے ملالہ یوسف زئی کو اتنی اہمیت کیوں دی۔ ایک ایسے ملک میں‘ جہاں بے گناہ شہری ہر روز سفاکیت کا نشانہ بنتے ہوں‘ اس سوال کا جواز نکلتا ہے، لیکن ملالہ کو یہ شہرت اس لیے ملی (اور اس میں کوئی سازش نہیں) کہ اس نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کی۔ اسی طرح نائیجیریا میں سکول کی تین سو طالبات‘ جنہیں اغوا کیا گیا اور اب جن میں سے متعدد کو جنسی غلام کے طور پر فروخت کر دیا جائے گا، کے ساتھ پیش آنے والی درندگی نے دنیا کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ 
امریکہ اور برطانیہ نے اپنے غصے کو مثبت اور عملی شکل میں ڈھالتے ہوئے ان لڑکیوں کا کھوج لگانے اور انہیں رہائی دلانے کے لیے نائیجیریا کی حکومت کی مددکرنے کے لیے امدادی ٹیمیں بھیجنے کی پیش کش کی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان ممالک کے انٹیلی جنس آفیسرز اس افریقی ملک میں پہنچ بھی چکے ہیں۔ اس کے علاوہ چین سمیت دیگر ممالک نے بھی مدد کی پیش کش کی ہے۔ نائیجیریا اور پاکستان میں بہت سی مشترکہ قدریں موجود ہیں۔ دونوں ممالک کے انتہا پسند جدید تعلیم سے نفرت کرتے ہیں۔ کیمرون کی سرحد تک نائیجیریا کے شمال مشرقی علاقوں میں پھیلا ہوا گھنے جنگلات کا سلسلہ انتہا پسندوںکو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا ہے جہاں باقاعدہ فورسز کو ان کے خلاف کارروائی کرنے میں دشواری پیش آتی ہے‘ بالکل ہمارے قبائلی علاقوں کے دشوار گزار پہاڑوں کی طرح جو طالبان کے علاوہ دنیا بھر کے انتہا پسندوں کے لیے جنت بنے ہوئے ہیں۔ 
اس موقع پر نائیجیریا کے صدر گڈلک جوناتھن کا رویہ بھی انتہائی پریشان کن اور اشتعال انگیز رہا کیونکہ اُن کی حکومت نے اغوا کے تین ہفتے بعد اعلان کیا کہ جو بھی اغوا ہونے والی لڑکیوں کے بارے میں اطلاع دے گا‘ اُسے انعام دیا جائے گا۔ اُسی دن 'باکوحرام‘ نے کیمرون کی سرحد کے نزدیک حملہ کیا اور تین سو افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نائیجریا میں اس گروہ کی کتنی دہشت ہو گی۔ حال ہی میں ملک کے دارالحکومت ابوجا (Abuja) میں ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس ہو رہا ہے۔ نائیجیریا کو افریقہ کی سب سے بڑی معاشی قوت ہونے کا درجہ بھی حاصل ہے؛ چنانچہ اس کے باشندے اپنی حکومت سے سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ ان کا تحفظ کرنے سے قاصر کیوں ہے؟ گزشتہ سال نائیجیریا نے دفاعی بجٹ کی مد میں چھ بلین ڈالر خرچ کیے۔ دراصل اس کے مسلم آبادی کے اکثریتی صوبوں میں ہونے والی بدعنوانی اور مجموعی طور پر ناقص نظم و نسق کی وجہ سے حکومت 'باکو حرام‘ کے سامنے عملی طور پر کوئی موثر کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ 
اب جبکہ مغربی ممالک کی سکیورٹی ٹیمیں نائیجیریا کی حکومت کی معاونت کے لیے آپریشن کا آغاز کرنے والی ہیں، مجھے یقین ہے کہ تمام اسلامی دنیا میں انتہا پسند مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ لبرل آوازیں بھی صدر اوباما اور ڈیوڈ کیمرون کی مذمت شروع کر دیں گی کہ وہ ایک آزاد ملک کی خود مختاری کو پامال کر رہے ہیں۔ کسی مسلم ریاست نے سرکاری طور پر لڑکیوںکے اغوا کی مذمت نہیں کی، مبادا وہ اپنے مقامی انتہا پسندوں کو ناراض کر بیٹھیں، کیونکہ اکثر ریاستوں کے حکمران ان گروہوں سے جان کی امان پا کر ہی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ایک انگریزی اخبار کے اداریے کے مطابق ان ریاستوںکی خاموشی دراصل باکو حرام کے جرائم کی خاموش حمایت کے مترادف ہے کیونکہ یہ گروہ تمام جرائم مذہب کے نام پر کر رہا ہے۔ 
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے لیکن ہمارا رویہ غیر مسلموںکو اس سے اختلاف کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ ہم اس حقیقت کا سامنا کرنا پسند کریں یا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لیں، حقیقت یہی ہے کہ انتہا پسندوں نے دنیا بھر میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جب وہ اپنے مخالفین کو گولیوں سے بھونتے ہیں یا ان کے سر قلم کرتے ہیں تو مغربی دنیا کو اس کی تشریح سے نہیں روکا جا سکتا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں سے زیادہ تر گروہوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، وہ اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مذہب کا نام استعمال کرتے ہیں۔ یہ ان کی عسکری حکمت عملی ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کا ایک بڑا طبقہ انہیں مجاہدین سمجھتا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہمارے گلی بازار ڈرون حملوں کی مذمت کے نعروں سے گونج رہے تھے۔ افسوس، جس دوران امت مجموعی طور پر خاموش بلکہ خوفزدہ تماشائی بنی ہوئی ہے، مغربی حلقے اس بات پر قائل ہوتے جا رہے ہیںکہ اصل خرابی چند مسلمان گروہوں (انتہا پسندوں) میں نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہے۔ افسوس، ہمارے رویے نے اُنہیں اس بات کا جواز فراہم کیا ہے۔ جب بھی کوئی گروہ اسلام کا نام لے کر ظلم و ستم کا بازار گرم کرتا ہے، ہم اس کے افعال کا جواز گھڑنے میں لگ جاتے ہیں۔ باکو حرام کے درندہ صفت جنگجوئوںکی طرف سے لڑکیوں کے اغوا کا جہادیوں کے حامی کیا جواز فراہم کریں گے؟ کیا اس فعل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت نہیں کی جانی چاہیے؟ یا پھر ان لڑکیوں کا اغوا اور آبروریزی بھی کسی ڈرون حملوں کا ہی رد ِعمل ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں