اعدادوشمارکا کھیل

عام طور پرمیں عمران خان سے کم ہی اتفاق کرتا ہوں کیونکہ ا ن کے سیاسی نظریات اور طالبان کی حمایت میرے لیے قابل ِ قبول نہیں ، لیکن میںنے ایک معاصر انگریزی اخبار کی طر ف سے آن لائن کرائے گئے پول میں انتخابی اصلاحات کے حق میں ووٹ دیا۔کئی عشروںسے انتخابات کا قریب سے ناقدانہ جائزہ لینے اور ان کے بارے میں لکھنے کے بعد مجھے ان میں جو قدر مشترک دکھائی دیتی ہے‘ وہ ان کے نتائج کا متنازع ہونا ہے۔ ایک یا دوکے سوا باقی تمام انتخابات میں عوام کی خواہشات کا خون ہوتے دیکھا۔ عوام کو احساس ہوا کہ ان کے ڈالے گئے ووٹ کا نتیجہ وہ نہیں نکلا جس کی اُنہیں توقع تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ کا کھیل ہو یا انتخابات، ہمیں ہارنا نہیںآتا۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں امپائر غیر جانبدار ہوتے ہیں لیکن انتخابات میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں عام طور پر الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری ایک سوالیہ نشان بنی رہتی ہے۔ بطور قوم ہم ویسے بھی دھاندلی کے نت نئے طریقے دریافت اورایجادکرنے کے ماہر ہوچکے ہیں۔ان حالات میں اگرکوئی انتخابی اصلاحات کی آواز بلند کرتا ہے تو اس کی حمایت کی جانی چاہیے۔ 
2013ء کے انتخابات کے فوراً بعد جب عمران خان نے دھاندلی کا نعرہ لگایا تو میں نے اسے شکست خوردہ رہنما کا روایتی واویلا قراردیا‘ جسے حریفوںکی کامیابی ہضم نہیںہوتی۔اُنہیں اپنے سونامی کی طاقت کا اتنایقین تھاکہ اُن کے لئے نتائج کو تسلیم کرنا مشکل ہورہا تھا۔ قومی اسمبلی میں ان کی جماعت نشستوں کی تعداد کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر ہے جبکہ پی ایم ایل ( ن ) کو سبقت حاصل ہے۔ اُس وقت عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ اس مبینہ دھاندلی کے خلاف بھرپور احتجاج کریںگے اورا س کا دائرہ پورے ملک تک پھیلادیںگے؛ چنانچہ میں نے بھی ان کی بات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنے طور پر تحقیق کا آغاز کردیا۔ میرے پاس معلومات کا جو سب سے بہترین ذریعہ تھا وہ فافین ( فری اینڈفیئر الیکشن نیٹ ورک ) کی ویب سائٹ تھی۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ گزشتہ ایک سال سے بہت بڑی تعداد میں الیکشن پٹیشنز زیرالتوا ہیں؛ تاہم جس چیز نے مجھے ہلا کررکھ دیا وہ عمران خان کا حالیہ دنوںسامنے آنے والا ایک دعویٰ تھا کہ ان کے ایک امیدوارنے ستاون لاکھ روپے خرچ کرکے ووٹوں کی تصدیق کرائی۔اگر خان صاحب کا یہ دعویٰ درست ہے ۔۔۔ مجھے ان کے الفاظ پر شک کرنے کی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔۔۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بیسیوں امیدوار جن کو اپنے حلقے میں ہونے والے انتخابی عمل پر شک تھا، ووٹوںکی تصدیق کے لیے کہیں گے اور اس عمل میں اربوں روپے صرف ہوجائیںگے۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ اپنی نشست جیتنا چاہتے ہیں تو پھر اُنہیں رقم خرچ کرنا ہوگی۔ اس کامطلب یہ بھی ہے کہ امیدوارکا دولت مند ہونا ضروری ہے ورنہ وہ قسمت پرصبرکرکے بیٹھ رہے۔ 
مذکورہ سائٹ پر نظر دوڑانے سے ایک اور دلچسپ حقیقت آشکار ہوئی کہ خود پی ایم ایل ( ن ) کے امیدواروںکی طرف سے دائرکی گئی بہت سی درخواستیں التواکا شکار ہیں۔ ان حلقوں میںسے زیادہ ترکا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے ۔اس صوبے سے پی ٹی آئی کامیاب ہوئی تھی اوروہاں اسی کی حکومت بنی ۔ اسے کچھ حلقوںکی طر ف سے ''جواب آں غزل‘‘ بھی قراردیا گیا۔ بہر حال ،اگر جیتنے اور ہارنے والے دونوں شور مچارہے ہیں تو پھر یقیناً یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس حوالے سے حکمران جماعت کا موقف یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے انتخابی عمل میں اصلاحات لانے کے لیے تجاویز پیش کی جائیں، وہ ان کا خیر مقدم کریںگے۔ اس سے حوصلہ پاتے ہوئے میں بھی کچھ تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں ؛ تاہم میں جانتا ہوں کہ ملک میں تجاویز پیش کرنے کا کیا مطلب ہوتاہے؟ 
چیف الیکشن کمیشن کے منصب کے لیے جناب فخر الدین جی ابراہیم کی تقرری سب نے پسند کی تھی کیونکہ وہ بے داغ کردار کے حامل ایک تجربہ کار ریٹائرڈ جج تھے ؛ تاہم عملی طور پراُنہوںنے خود کو افسر شاہی اور عدلیہ کے درمیان بے بس پایا۔ اس کی وجہ یہ کہ ہمارے ہاں الیکشن کمیشن کے پاس اختیارنہ ہونے کے برابر ہے۔ اسے اپنے ریٹرننگ آفیسرز اور پراونشل سٹاف پر تکیہ کرنا پڑتا ہے ۔ ریٹرننگ آفیسرز کا تعلق صوبائی عدلیہ سے ہوتا ہے۔ اس طرح یہ افراد چیف الیکشن کمیشن کی بجائے اپنے باس کو جوابدہ ہوتے ہیں۔الیکشن کے دن بوتھ پر فرائض سرانجام دینے والوں میںسے زیادہ ترکا تعلق سکول ٹیچرز سے ہوتا ہے۔ ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ مقامی وڈیرے یا کسی دوسری طاقتور شخصیت کے حکم کو ٹال سکیں گے، حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ انہیں دھمکی یا رشوت دے کر اپنی بات منوائی جاسکتی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر اپنے نفع نقصان کے ذمہ دار وہ خود ہوتے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر ایسی دانشمندی کامظاہرہ کرنا پسند کرتے ہیں جو ان حالات میں ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ 
یہ بات یاد رکھی جانی چاہیے کہ نتائج تبدیل کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر دھاندلی کی ضرورت نہیںہوتی۔ عام طور پرکانٹے کے مقابلوں میں ہی دھاندلی کی ضرورت ہوتی ہے اوران مقابلوں میں فتح اورشکست کے درمیان فرق بہت معمولی ہونے کی وجہ سے اگر چند ہزار ووٹ ادھرسے اُدھر ہوجائیںتو کام بن جاتاہے اوراگر تابعدار افسرڈیوٹی پر ہوںتو وہ نتائج تبدیل کرسکتے ہیں۔ ہماری افسرشاہی طاقتورحلقوںکو ناراض نہ کرنا ہی بہتر سمجھتی ہے ، اس لیے اگر یہ تاثر مل جائے کہ یہ پارٹی انتخابات جیتنے کی پوزیشن میںہے تو اس کے امیدوارکا حکم ٹالنا حماقت کے زمرے میں آتا ہے۔ اگرچہ انتخابات سے تین ماہ پہلے اسلام آباد اورصوبوں میں نگران حکومتوں کا قیام عمل میںآچکا ہوتا ہے لیکن وہ عملی طور پر نگرانی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں۔ یہ نظام ہمارے ہاں مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے کیونکہ ہماری افسر شاہی نگرانوں کو خاطر میں نہیںلاتی، وہ مستقبل کے حکمرانوں کے مفادکوپیش نظر رکھتی ہے۔ 
اس رویے اور رجحان کو تبدیل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ چیف الیکشن کمیشن کو تواناکیا جائے،اُسے ان افسروں کا ریکارڈ فراہم کیا جائے جنہوںنے انتخابی عمل کی نگرانی کرنی ہوتی ہے۔ پولنگ اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کیے جائیں تاکہ یہ خوف رہے کہ ان کا عمل دیکھا جا رہا ہے؛ تاہم ایسا تو اگلے انتخابات میںہوگا۔کیا زیرِ التوا درخواستوں کو دیکھنے کی زحمت کی جائے گی؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو سامنے آنے والی دھاندلی سے سبق سیکھتے ہوئے آئندہ کے لیے ان سے بچنے کا طریقہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں