غیرفعالیت اور اس کے نتائج

ایک وزیر اعظم کی اتھارٹی کے بارے میں کیا رائے زنی کی جائے‘ اگر وہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا تقرر کرے تو اس فیصلے کو ایک نہیں، تین مرتبہ منسوخ کر دیا جائے؟ مبادا عزیز قارئین کو غلط فہمی ہو، وضاحت کر دوں کہ یہ کالم پاکستان میں کرکٹ بورڈ کی چیئرمین شپ کے لیے لڑی جانے والی ٹروجن وار کے بارے میں نہیں۔ اگرچہ مسٹر نجم سیٹھی میرے پرانے دوست ہیں لیکن میں اس پوزیشن میں نہیںکہ ان کی پے در پے ہونے اور ختم کی جانے والی تقرریوں کے درست یا غلط ہونے کا پیمانہ طے کر سکوں۔ دراصل میرا موضوع وزیر اعظم اور ان کے گرد کھیلا جانے والے میوزیکل چیئر کا کھیل ہے۔ اس کھیل کے دوران ان کی قوت فیصلہ دائو پر لگی ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کے موڈ میں نہیں۔ 
جب پی ایم ایل (ن) نے ایک سال پہلے بھاری مینڈیٹ حاصل کیا اور نواز شریف صاحب نے تیسری مرتبہ حلف اٹھایا تو ہم نے اُنہیں گڈ لک کہا تھا۔ سب نے یہی سوچا کہ ملک کو ایک مستحکم حکومت نصیب ہوئی ہے۔ پہلے اپنے تمام تر الزامات اور خامیوں سمیت آصف زرداری رخصت ہوئے، پھر چیف جسٹس افتخار چوہدری اور پھر نئی حکومت کو جنرل کیانی کا جانشین مقرر کرنے کا بھی موقع مل گیا۔ کچھ دیر بعد وہ ٹی وی چینل جو آصف زرداری کے گرم تعاقب میں رہتے تھے، نواز شریف پر فریفتہ دکھائی دیے۔ ان حالات میں عام دانائی یہی کہتی تھی کہ اب ان کی حکومت کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں، چنانچہ وہ مضبوط قدموں پر کھڑے ہو کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر سکتے ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنی باری کا آغاز بھارت کے ساتھ تعلقات معمول کی سطح پر لاتے ہوئے تجارتی سرگرمیوں کی شروعات سے کریں گے۔ ہم سب توقع کر رہے تھے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کا سلسلہ وہیں سے جوڑیں گے جہاں سے ان کی گزشتہ حکومت کے دوران مشرف کی کارگل مہم جوئی کی وجہ سے ٹوٹا تھا۔ ان ساری توقعات پر ملک کے لبرل حلقوں نے خوشی کا اظہار کیا، لیکن جلد ہی یہ خوشی پانی کے جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ 
ہوا یوں کہ حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے انہوں نے سراسیمگی اور کنفیوژن کو اپنا معمول بنا لیا۔ اگرچہ ان کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل تھی جبکہ ان کے سامنے کوئی قابلِ اپوزیشن بھی نہیں تھی لیکن ان کی حکومت نے تقریباً ہر اہم مسئلے پر غیر فعالیت کا مظاہرہ کرنا اپنا شعار بنا لیا۔ ابھی ایک غیر فعالیت کی دھند نہ چھٹتی کہ ایک اور مسئلہ سر اٹھا لیتا اور حکومت یوں کنفیوژن کا شکار دکھائی دیتی۔۔۔ ''جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ‘‘۔ اس صورتحال کی ایک وجہ یہ ہے کہ نواز شریف حکومت کا تمام تر نظم و نسق اداروں کی بجائے ایک فرد (جو وہ خود ہی ہیں) کی فعالیت کے گرد گھومتا ہے؛ چنانچہ وہ ہر معاملے میں خود ہی کوئی سرخ لکیر کھینچ کر اس کو عبور کرتے رہتے ہیں۔ حکومت کے پہلے سال اس عادت کا مظاہرہ خوفناک حد تک تواتر کے ساتھ دیکھنے میں آیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ فعالیت کو بھول جائیں، ان کی حکومت زرداری حکومت کی نقل کرتے ہوئے کسی نہ کسی طور اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے جتن کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے وزرا کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہاتھ پائوں مارتے ہوئے بس کنارے تک پہنچنا چاہتے ہیں جبکہ اس دوران قوم کی نائو گرداب میں پھنس گئی ہے۔ 
حکومت کی طرف سے بھارت کو تجارت کے لیے پسندیدہ قوم کا درجہ (ایم ایف این) دینے کی خواہش کا برملا اظہار کیا گیا، لیکن اپنی پوری کوشش کے باوجود وہ اس اہم ترین مسئلے پر آگے نہ بڑھ سکی۔ بھارت میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے دوران پاکستانی حکومت نے دو بھارتی صحافیوںکا ویزا کسی وجہ کے بغیر منسوخ کر دیا تھا۔ اگرچہ ہمیں یہی بتایا گیا کہ یہ وزارت اطلاعات کا فیصلہ تھا لیکن شنید ہے کہ پس پردہ کسی اور کا ہاتھ متحرک تھا۔ اس احمقانہ فیصلے نے مجھے گزشتہ نگران حکومت کے اس غیر دانشمندانہ فیصلے کی یاد دلا دی جب اس نے نیویارک ٹائمز کے نمائندے ڈیکلن والش کو انتخابات سے قبل ملک چھوڑنے کے لیے کہا تھا۔ 
اب ایک اہم مسئلہ جس پر ہمارے وزیر اعظم پُرعزم ہیں، طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا ہے۔ یہاں وہ سیاسی قوتوں کے بھرپور تعاون سے فوجی جنرلوں، جو طالبان کے خلاف ایکشن لینا چاہتے ہیں، کو اپنی بات منواتے دکھائی دیتے ہیں؛ تاہم اب تک چونکہ یہ مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں اور طالبان ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پوزیشن مستحکم کر رہے ہیں، اس لیے تنائو کا بڑھنا ناگزیر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے اپنی غیر فعالیت کے ذریعے اپنے لیے بہت سے خطرات پیدا کر لیے ہیں۔ اسی وجہ سے آج یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ کمزوری دکھاتے ہوئے انہوں نے اپنے کمزور سیاسی حریفوں، جیسا کہ عمران خان اور علامہ قادری، کو بھی شیر کر دیا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ بھاری بھرکم اپوزیشن نواز حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کے لیے میدان میں ہے حالانکہ پی پی پی حکومت کو چیلنج کرنے کے موڈ میں نہیں، بلکہ اس کے اہم رہنما ایک سے زیادہ مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ وہ جمہوریت مخالف کسی اقدام کی اجازت نہیں دیں گے۔ 
جس دوران ہماری حکومت تذبذب کے عالم میں ہے، ہمارے خطے میں اہم واقعات پیش آرہے ہیں۔ بھارت اور افغانستان میں نئی حکومتیں آیا ہی چاہتی ہیں جبکہ افغانستان سے امریکی اور مغربی افواج جا رہی ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت قائم ہو رہی ہے اور مود ی کے نظریات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اس عالم میں ہمیں زیادہ چوکس حکومت کی ضرورت تھی۔ چاہے اسے سستی کہہ لیں یا نااہلی، حکومت کسی بھی محاذ پر پوائنٹ لیتے دکھائی نہیں دیتی۔ ان کی واحد کامیابی طالبان کو بات پر آمادہ کرنا تھا لیکن یہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔ یہ تمام صورت حال کسی جاندار حکومت کے ایک جملے سے درست ہو سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ ہے حکومت کی بے عملی کا عملی نتیجہ! بظاہر دیکھا جائے تو ان کو کسی سیاسی حریف، بلکہ معاشرے کے کسی طبقے سے کوئی خطرہ نہیں۔ کوئی بھی قوت ان کی حکومت کو گرانا نہیں چاہتی، لیکن اگر وہ اسی طرح کنفیوژن کا شکار رہے تو ان کی مخالف قوتوں کا ارتکاز ہوتا جائے گا اور وہ ان کے پیدا کردہ خلا میں قدم رکھتی جائیں گی۔ مذہبی طاقتیں پہلے ہی میدان میں آ چکی ہیں اور جب ایسا عالم ہو تو ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ سب اچھا نہیں ہوتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں