پاکستان میں کیا مسئلہ ہے؟

اہلِ یورپ۔۔۔ یا کم از کم یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے۔۔۔ جوکچھ کہہ رہے ہیں اور اگر ان کے برسلز کے لیے اظہار کردہ جذبات کی مقامی زبان میں ترجمانی کی جائے تو وہ نازبیا ، بلکہ فحش قرار پائے گی۔ ایک اور پیش رفت بھی اہم ہے کہ کئی ممالک میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی مختلف پارٹیوں نے مرکزی جماعتوں سے بھی زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ اگرچہ یورپی پارلیمنٹ میں ایک ایسا کولیشن اکثریت میں ہے جس پر جرمنی کی بالا دستی ہے لیکن دائیں بازو کی جماعتوں اور سوشلسٹ گروپس روایتی سیاست دانوں کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ 
برطانیہ میں نیگل فاریج نے چند دن پہلے ہونے والے مقامی کونسلز کے انتخابات میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔ اس کی ''یونائیٹڈ کنگڈم انڈی پنڈنٹ ‘‘ پارٹی نے ستائیس فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے لیبر اور کنزر ویٹو ز کو پیچھے چھوڑ دیا۔ لبرل ڈیمو کریٹس کا حال سب سے برا تھا۔ ان کا اس دوڑ میں پانچواں نمبر تھا۔ اس طرح وہ گرین پارٹی سے بھی پیچھے رہ گئے۔اگلی جمعرات کو نیوآرک میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے بارے میں سوچ سوچ کراب تک کنزرویٹو ہلکان ہوچکے ہیں۔ اگرچہ اُنھوںنے عام انتخابات میں یہاںسے سیٹ سولہ ہزار ووٹوںکے فرق سے جیتی تھی لیکن اب اُنہیں وہاں نیگل فاریج کی جماعت UKIPکا سونامی آتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس متوقع سونامی کو ٹالنے کے لیے کئی ایک وزیر اور دیگر پارٹی کے بڑے اس حلقے میں متواتر آتے جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کی صفوں میں پھیلی ہوئی ہلچل سے دکھائی دیتا ہے کہ ان کے نزدیک اب سب ٹھیک نہیںہے۔ اگر یہاں سے کنزرویٹو ہار جاتے ہیں تو یہ ان کے لیے 2015 ء کے عام انتخابات کے حوالے سے بہت برا شگون ہوگا۔ اسے ایک طرح کا نوشتہ ٔ دیوار قرار دیا جارہا ہے۔ فاریج نے حسب ِ معمول نہایت پر اعتماد طریقے سے کہا۔۔۔''یہ ایک سیاسی بھونچال ہوگا۔ ابUKIP کے انقلابی دستے مارچ کررہے ہیں۔ آج رات آنے والے نتائج کے بعد کچھ بھی ممکن ہے۔‘‘
فرانس میں نتائج اس سے زیادہ ہنگامہ خیز ہیں۔ میرین لی پن(Marine Le Pen) کی جماعت، نیشنل فرنٹ نے ڈالے گئے ووٹوں میںسے پچیس فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے یورپی پارلیمنٹ میں سب سے بڑا گروپ ہونا ثابت کردیا۔ نتائج کے ساتھ ہی پارٹی کی لیڈر مس لی پن نے کہا۔۔۔ ''آزاد اور خود مختار عوام نے اپنے دل کی بات برملا کہہ دی۔ یہ تاریخ کا عظیم لمحہ ہے۔ آج یہ بات ثابت ہوگئی کہ لوگ صرف ایک طرح کی ہی سیاست چاہتے ہیں۔۔۔ فرانس کی سیاست فرانسیسی عوام کے لیے ہی ہو۔‘‘اگرچہ دائیں بازو والی جماعتوں نے برطانیہ، فرانس، سپین اور یونان میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی ، لیکن یہ بایاں بازو تھا جس نے اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کیا۔ سوشلسٹ جماعتوںکے اتحاد نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یورپی یونین ان کو معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے مدد دیتی ہے۔ 
اگرچہ پورے یورپ میں واضح تبدیلی کا نعرہ لگایا جارہا ہے لیکن اینجلا مارکل اور ان کے اتحادی یورپی پارلیمنٹ اور اس کے اداروں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ بہت سے رہنمائوں، جن میں فرانس کے صدر فرانکو ہولینڈ اور برطانوی وزیر ِ اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی شامل ہیں، کا مطالبہ ہے کہ یورپی یونین کی صدارت کے خدوخال تبدیل کیے جائیں، لیکن مسز مارکل نے اپنا تمام وزن جین کلاڈ جنکر(Jean Claude Juncker) کی حمایت کے پلڑے میں ڈال دیا۔ Luxembourg کے اٹھارہ سال تک وزیرِ اعظم رہنے کے بعد جنکریوروگروپ کے صدر منتخب ہوئے ۔ اب وہ یورپی کمیشن کے صدر بننے کے قریب ہیں۔ وہ کنزرویٹو نظریات رکھنے والے سیاست دان ہیں۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ ایسی اصلاحات لانے کے اہل نہیں جو عوام کا مطالبہ ہے۔ درحقیقت جرمنی یورپی یونین کا سب سے طاقتور ممبر ہے۔ اس نے معاشی بحران کے دوران یورو کو مکمل تباہی سے بچا لیا تھا۔ جنکر کو جرمنی کی پشت پناہی حاصل ہے لیکن وہ آج کے سب سے بڑے سوال کا جواب دینے کے اہل دکھائی نہیںدیتے کہ جب تک یورو رکن ممالک کے بجٹ پر کنٹرول نہیں رکھے گا، اس کی صحت قائم نہیں رہ سکے گی۔ موجودہ یورپی ذہنیت یہ ہے کہ فرانس اور برطانیہ کے رائے دہندگان برسلز یا برلن سے احکامات سننے کے موڈ میں نہیں۔ 
یورپی یونین کے قوانین کی حالیہ دنوں ایک حماقت سامنے آئی جب یہ کہا گیاکہ کچھ خوشبوئوں میں استعمال ہونے والے اجزا کو تبدیل کرکے ایک معیار ی خوشبو بنائی جائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک سے تین فیصد صارفین کو ان اجزاء سے الرجی تھی۔درحقیقت چینل 5 نامی خوشبو گزشتہ ترانوے برسوںسے تیار کی جارہی ہے اور اس سے کوئی خطرناک بیماری نہیں پھوٹی اور نہ ہی ایسا کوئی خطرہ موجود ہے۔ تاہم برسلز کی بھاری بھرکم بیوروکریسی نت نئے قوانین بنانے کی حماقت دکھاتی رہتی ہے۔ اسی طرح وضع کیے گئے حفاظتی قوانین بھی یورپ بھر کے ریستورانوں، ہوٹلوں، دکانوں اور فیکٹریوں پر لاگو ہو کران کے اخراجات میں بلاجواز اضافہ کرچکے ہیں۔ اس سے نہ صرف صارفین کو زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی بلکہ وقت بھی ضائع ہوگا۔ ایسے قوانین یورپی یونین اور اس کے اداروں کے خلا ف غصے کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ 
دوسرا اہم ایشو،جس نے دائیں بازوکی جماعتوںکو تقویت دی، وہ تارکین ِ وطن کا مسلۂ تھا۔ UKIP نے اس مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے لیے سیاسی طور پر بہت فائدہ حاصل کرلیا ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین کے ان قوانین پر تنقید کررہی ہے جن کی رو سے یورپ کے باشندے ایک ملک سے دوسرے ملک میں سفر کرنے کی آزادی رکھتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری کی وجہ سے بہت سے برطانوی شہری یہ محسوس کرتے ہیںکہ مشرقی یورپ سے آنے والے تارکین ِ وطن کی وجہ سے ان کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ فرانس میں تقریباً ساڑھے چھ ملین مسلمان ہیں جو آبادی کادس فیصد بنتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے کے مرکزی دھاروںسے دور رہتے ہیں۔ اس کے باوجود کوئی شخص جو یورپی یونین کے کسی بھی ملک کا شہری ہو، وہ کسی بھی ملک کا سفر اختیار کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اٹلی میں مقیم شمالی افریقہ کے باشندے بھی فرانس میں آسکتے ہیں۔ 
بڑھتی ہوئی عدم برداشت کو دیکھتے ہوئے یہ مشکل لگتا ہے کہ یورپی یونین کس طرح ان افراد کے لیے یورپی ممالک میں رہنا ممکن بنائے گی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان سیاسی نظام کو مانتے تو ہیں لیکن عملی طور پر اس کا حصہ بننے سے انکار کردیتے ہیں۔ یورپ کے مختلف ممالک میں ہونے والے ان انتخابات میں دھاندلی کی کوئی شکایت نہیں ملی۔ اسی طرح بھارتی انتخابات بھی شفاف ہوئے ۔ پاکستان میں کیا مسئلہ ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں