مگر مچھ اور دلدل

آج کل برطانیہ میںکٹر مذہبی نظریات رکھنے والے مسلمانوں کو انتہاپسندجنگجوئوںسے زیادہ مختلف نہیںسمجھا جاتا۔ جب بھی اہل ِ برطانیہ کسی لمبی داڑھی والے شخص کودیکھتے ہیں تو اُنہیں شبہ ہونے لگتا ہے کہ ہو نہ ہو‘ یہ شریعت کا حامی اور خلافت کے قیا م کا متمنی ہے۔ ان تصورات میں زیادہ شدت اُس وقت دیکھنے میں آئی جب ٹروجن ہارس نامی ایک منصوبے کا انکشاف ہوا کہ ایک اسلامی انتہاپسند گروہ برمنگھم کے کئی ایک ریاستی سکولوںپر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔اگرچہ ٹروجن ہارس منصوبے کی چنگاری بھڑکانے والا ایک گمنام خط تھا لیکن اس کے نتیجے میں مشتعل ہونے والے جذبات حقیقی ہیں۔ 
سیکرٹری تعلیم مائیکل کوونے سات جولائی کو لندن میں ہونے والے حملوں کے بعد لکھا کہ حکومت کو مگرمچھوں (مذہبی انتہاپسندوں) کو پیچھے دھکیلنے کی بجائے دلدل( انتہاپسندی) کی صفائی کرنی چاہیے۔ جب گزشتہ سال ٹروجن ہارس خط ان کے پاس پہنچا تو اُنھوں نے وقت ضائع کیے بغیر برمنگھم کے اکیس سکولوں، جن کے بارے میں کہاجارہا تھا کہ وہ انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں جانے والے ہیں، کے معاملات کی چار مختلف قسم کی تحقیقات کرائیں۔ انسداد ِ دہشت گردی کے لیے کام کرنے والے ایک سابق پولیس افسر نے بھی اس معاملے کی تحقیق کی۔ 
گزشتہ ہفتے سکولوں کا معائنہ کرنے والی اتھارٹی (Ofsted) نے ایک رپورٹ جاری کی۔ اس میں کہا گیا کہ برمنگھم کے ان سکولوں میں انتہا پسندی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ تاہم کچھ سکولوں پر الزام لگایا کہ ان میں جنسی امتیاز کا مظاہرہ کرتے ہوئے لڑکیوں کو کلاس میں پیچھے اور لڑکوںکو آگے بٹھایا جاتا ہے۔ ایک سکول پر یہ الزام بھی لگا کہ اس نے ایسے مسلمان عالم کو خطاب کی دعوت دی جو اپنے انتہا پسندانہ نظریات کی وجہ سے مشہور ہیں۔ گیارہ سکولوں پر تنقید کی گئی کہ ان میں ''بچوں کو انتہاپسندی کے خطرات سے آگاہ نہیںکیا جاتا۔‘‘چار سکولوں کے بارے میں سفارش کی گئی کہ انہیںکسی اور بورڈ کے سپرد کردیا جائے جبکہ پانچ کو''خصوصی اقدامات‘‘ کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ 
بہت سے والدین، ٹیچرز اور بورڈ ممبران نے ان تحقیقات اور لگائے جانے والے الزامات پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وہ غریب مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم د ے کر ان کا معیار ِ زندگی بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہاں زیرِ تعلیم زیادہ تر طلبہ کا تعلق برمنگھم کے غریب ترین علاقوںسے ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ گزشتہ چند برسوںسے ان سکولوں میں دی جانے والی تعلیم کا معیار بہت بہتر ہوگیا ہے( اس بات کا اعتراف Ofsted نے اپنی رپورٹ میں کیا) لیکن ان سکولوں کے خلاف کارروائی سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور اسلام فوبیا کا حصہ ہے۔ تاہم مذکورہ رپورٹ سے زیادہ جس چیز نے اس معاملے کو اچھالا، وہ حالیہ دنوں مسٹر کوو اورطاقتور اور مقبول ہوم سیکرٹری ٹریسا مے کے درمیان ہونے والی بیان بازی تھی۔ مسٹر کوو‘ کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے رکن ِ پارلیمنٹ منتخب ہونے سے پہلے مشہور اخبار''دی ٹائمز‘‘ میں کام کرتے تھے۔ اُنھوں نے اخبار سے گفتگومیں مس مے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹروجن ہارس ایشو سے پیدا ہونے والے کسی ممکنہ خطرے کا بروقت تدار ک کرنے میں ناکام رہیں۔ اگلے دن جب'' دی ٹائمز ‘‘نے یہ کہانی شائع کی تو مس مے کی قریبی مشیر فیونا کننگم (Fiona Cunningham) ہوم سیکرٹر ی کی طر ف سے مسٹر کوو‘ کو دوماہ پہلے لکھا گیا ایک خط سامنے لے آئیں جس میں ان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ ٹروجن ہارس ایشو کوحل کرنے کے لیے فوری قدم اٹھائیں۔ کابینہ کے دو طاقتور ترین ارکان کے درمیان ہونے والی بیان بازی نے اپوزیشن کی عید کردی۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ یہ کہانی ٹھیک اس دن منظر ِ عام پر آئی جب ملکہ نے سالانہ خطاب کرنا تھا۔ اس پر ڈیوڈ کیمرون انتہائی برہم ہوئے کہ کابینہ کے داخلی اختلافات منظر ِ عام پر آنے سے عوام کی توجہ ان کی حکومت کی ان اچھی پالیسیوں سے ہٹ گئی جن کا ذکر ملکہ صاحبہ نے اپنی تقریر میں کیا۔ 
بہرحال مسٹر کیمرون نے دونوں سیکرٹریوں کی سرزنش کی۔ مسٹر کوو نے معذرت طلب کی۔ کننگم نے مس مے کا خط منظر عام پر لانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ اگرچہ اس مسئلے پر شروع ہونے والی سیاسی ہنگامہ آرائی دب گئی لیکن اسلام اور انتہا پسندی پر شروع ہونے والا طوفان ابھی تھمنا باقی ہے۔ برمنگھم کے ان سکولوں کے حوالے سے میڈیا میں اندھا دھند رپورٹس شائع کی جارہی ہیں۔ ان سکولوں میں کسی کی طرف سے مغربی عورتوںکو ''سفید طوائفیں‘‘(White Prostitutes) کہے جانے پر بہت اشتعال پایا جاتا ہے۔ دی ڈیلی میل نے لکھا۔۔۔''اگر کسی کوحیرت تھی کہ برطانوی لڑکے اپنے پرسکون ماحول کو چھوڑ کر شام میں دشمنوں کے خلاف لڑنے کیوں جارہے ہیںتو ان سکولوں میں دی جانے والی تعلیم نے ان کی حیرانی دور کردی ہوگی‘‘۔ 
تاہم معاشرے کی لبرل آوازوں کا کہنا تھا کہ Ofsted رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کو مقامی مذہبی معروضات ، نہ کہ عالمی جہاد‘ کے پس ِ منظر میں دیکھنا چاہیے۔ جب ایک ٹی وی نے کسی والد سے پوچھا کہ کیا وہ لڑکوں اور لڑکیوں کی الگ جگہ بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کی حمایت کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اسے بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔ تاہم ایک اور مسلمان والد کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ اب برطانیہ کے شہری ہیں، اس لیے اُنہیں مقامی رہن سہن سے اجتناب نہیں کرناچاہیے اور نہ ہی اپنے بچوںکو اس معاشرے سے کٹ کر رہنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ 
ڈیوڈ کیمرون نے اپنا وزن سکولوں کی انتظامیہ کے حق میں ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ سکول برطانوی اقدار کے مطابق ہی تعلیم دے رہے ہیں۔ جب بی بی سی ریڈیو 4 نے مجھ سے فون پر رائے لی کہ پاکستانیوں کے نزدیک یہ اقدار کیا ہیں تو میں نے جواب دیا کہ زیادہ تر پاکستانی برطانوی اقتدار اور مغربی اقتدار میںکوئی فرق نہیں کرتے۔ ان کے ہاں پایا جانے والا عام تاثر یہ ہے کہ مغربی معاشرہ الکوحل اور شادی کے بغیر جنسی تعلقات کو روا سمجھتا ہے جبکہ اسلام ان کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔دی گارڈین میں شائع ہونے والے اپنے حالیہ کالم میں شیمس ملن (Seumas Milne) لکھتے ہیں۔۔۔''برمنگھم کے سکولو ں کے معاملے کو اچھالتے ہوئے مسلم آبادی پر دبائو بڑھانا ایک ایسے ملک میں خطرناک سرگرمی ہوگی جہاں پہلے ہی اسلام فوبیا کے جذبات پنپ رہے ہیں۔ یہ دراصل ''یونائیٹڈ کنگ ڈم انڈی پینڈنٹ پارٹی‘‘ کی طرف سے ایک سیاسی حربہ تھا۔ تاہم مسلمانوں کے بچوںسے معاشرے میں امتیازی سلوک کرنا اور انہیں ریاستی سکولوں سے نکال دینا وہ انتہا پسندانہ اقدامات ہیں‘ جن کے خاتمے کے لیے حکومت کوشش کررہی ہے۔مسٹر کوو نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے برطانوی اقدار کو لاحق خطرات کا نعرہ لگایا جبکہ خود ان کی مہم کو امتیازی سلوک اور معاشر ے کے ایک طبقے کوخائف کرنے کی زہریلی سرگرمی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔‘‘
اس میںکوئی شک نہیں کہ برطانوی سیاست دان اور عوام کے کچھ حلقے اپنے ملک میں رہنے والے مسلمان نوجوانوں کے اندر انتہا پسندی کے ابھرتے ہوئے جذبات دیکھ کر پریشان ہیں، لیکن اس سے پہلے کہ پاکستانی قارئین برطانوی مسلمانوں سے برتے جانے والے ناروا رویے پر چراغ پا ہو جائیں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں