1977ء کی یادیں

یہ تو ممکن ہے کہ ایک شخص مکان یا فارم ہائوس کرائے پر لے مگر وہاں رہائش اختیار نہ کرے، لیکن اگر ایک وزیر اعظم اسمبلی یا سیاسی عمل سے دور رہے گا تو وہ اپنے نقصان کا خود ذمہ دار ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف اسلام آباد میں آ کر بیٹھ جائیں گے‘ تو ان کی حکومت کی کارکردگی بہت اچھی ہو جائے گی لیکن ان کی موجودگی سے ان کے حامیوں کے اعتماد میں اضافہ ضرور ہو گا۔ وہ ہر حوالے سے عوام، بلکہ اپنی کابینہ کے ارکان سے دور رہتے ہیں؛ چنانچہ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ وہ اپنے حریفوں، عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرے کے ضمن میں یہ بیان دیتے ہیں۔۔۔ ''میں حیران ہوں کہ آخر ان کا ایجنڈا کس نے طے کیا ہے؟‘‘
حالیہ سیاسی بحران میں وزیر اعظم کے امتیازی رویے کی بہترین ترجمانی کرنے والا لفظ ''کنفیوژن‘‘ ہے اور مجھے خوشی ہوئی کہ اس مرتبہ یہ لفظ میاں صاحب نے خود استعمال کرتے ہوئے صحافیوں کو اس کے پیہم اعادے سے بچا لیا۔ انسانی آبادیوں سے دور کسی صحرا میں رہنے والا ایک نیم برہنہ جوگی بھی اس حقیقت سے آگاہ ہو گا (جس کی تفہیم سربراہ حکومت پر گراں ہے) کہ ان کو ایجنڈا کس نے دیا ہے۔ اگر ملک کی تاریخ پر، جس کا موجودہ وزیر اعظم خود بھی ایک حصہ رہے ہیں، نظر دوڑائی جائے تو توقع کی جانی چاہیے تھی کہ وہ بعض قوتوں کے ساتھ الجھنے سے پہلے سوچتے۔ اُنہیں علم ہونا چاہیے تھا کہ جب مکالمہ دھکم پیل کی صورت اختیار کرتا ہے تو بعض کندھوں کا دھکا سب سے شدید ہوتا ہے۔ 
وزیر اعظم نے سوچا ہو گا کہ جنرل راحیل شریف کو کیانی صاحب کا جانشین بناتے ہوئے اُنہوں نے خود کو محفوظ کر لیا ہے۔ ممکن ہے اُن کا یہ بھی خیال ہو کہ موجودہ آرمی چیف کے ساتھ ان کے خاندانی روابط بھی ہیں، اس لیے ان کی حکومت کے خلاف کوئی علانیہ یا پوشیدہ اقدام نہیں ہو گا۔ اب تک انہیں پتہ چل جانا چاہیے کہ کسی بھی ادارے کے سربراہ کے لیے اپنے ادارے کا مفاد باقی تمام معاملات پر غالب آ جاتا ہے۔ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ نے بظاہر خود کو موجودہ سیاسی تنائو سے الگ رکھا ہوا ہے لیکن آیا ممکنہ پوشیدہ کردار کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت کو مذاکرات کا بہانہ بنا کر ٹالنے اور ایک صحافی پر حملے کے معاملے میں جانب داری کا مظاہرہ کر کے یقیناً ملک کے ایک اہم ادارے کو ناراض کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مشرف ٹرائل کا بھی حالات کی خرابی میں کچھ کردار ہو سکتا ہے۔
اگر چہ اس وقت آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے احتجاج کرنے والوں اور حکمران پارٹی میں غیر لچک دار موقف رکھنے والوں نے مل کر پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کی حمایت کی تھی لیکن اس پر جی ایچ کیو کا مزاج برہم تھا۔ آج کے پاکستان میں سیاسی حقائق آئین اور قانون کو بائی پاس کر دیتے ہیں۔ آج کے دور میں حق اور سچ کی بات کرنے پر آپ کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں کئی ایک حلقوں میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف تحقیقات کرنے سے الیکشن کمیشن اور پی ایم ایل (ن) گزشتہ ایک سال سے حیل و حجت سے کام لے رہے ہیں؛ تاہم آج حکمران جماعت اس معاملے کی وجہ سے شدید دبائو میں ہے۔ اپنی حالیہ تقریر میں وزیر اعظم نے عمران خان کی شکایت کا جائزہ لینے کے لیے جوڈیشل ٹربیونل قائم کرنے کی بات کی، لیکن لگتا ہے کہ اُنہوں نے بہت دیر کر دی۔ اپوزیشن کو دی جانے والی اس رعایت سے مجھے یاد آتا ہے کہ 1977ء میں بعض جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن کو رام کرنے کے لیے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی جوئے خانوں، نائٹ کلبوں اور الکوحل پر پابندی لگائی تھی۔ یہ اقدامات اُن کی حکومت کو تو نہ بچا سکے لیکن ملک نے ان کی بھاری قیمت چکائی۔ اس پابندی سے ہم زیادہ پارسا یا متقی نہیں ہوئے اور نہ ہی سرگرمیاں رک گئیں، صرف اتنا فرق پڑا کہ ان سرگرمیوںکی قیمت بڑھ گئی اور ہم نے منافقت سیکھ لی۔ اس حوالے سے ایک مثال اور بھی ہے۔ اُس وقت اصغر خان نے نہ صرف فوج کو مداخلت کی دعوت دی بلکہ بھٹو کی طرف سے چند ایک حلقوں میں دوبارہ انتخابات کرانے کی تجویز بھی مسترد کر دی۔ انتخابات سے پہلے ہی وہ اعلان کر چکے تھے کہ اگر حکمران جماعت پی پی پی جیتی تو اپوزیشن نتائج کو ماننے سے انکار کر دے گی۔ اُنہوں نے بھٹو کو کہوٹہ پل پر پھانسی دینے کی دھمکی بھی دی۔ کیا آج بھی انہی باتوں کی بازگشت سنائی نہیں دے رہی؟
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے کیونکہ ہمارا نظام ناقص ہے۔ ہم جرمنی یا فرانس نہیں، پاکستان ہیں اور یہاں معاملات مکمل طور پر درست ہونے میں ابھی بہت دیر ہے۔ کوئی تاریخی شہادت موجود نہیں کہ کسی انقلاب کے نتیجے میں لوگ راتوں رات ایمان دار ہو جائیں۔ ہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دھاندلی کے الزامات کے باوجود انتخابات اپنی ساکھ رکھتے ہیں یا نہیں۔ انتخابات کا جائزہ لینے والی تمام مقامی یا عالمی تنظیموں کے مطابق 2013ء کے انتخابات اس ملک میں ہونے والے منصفانہ ترین الیکشن تھے۔ مجھے یقین ہے کہ بہت سے حلقوںکے نتائج تبدیل کر دیے گئے ہوںگے، بعض اور سرکاری افسران نے بھی مداخلت کی ہو گی یا طاقتور امیدواروں کی مرضی سے بہت کچھ ہوا ہو گا‘ لیکن ہم کوئی بہت اصول پسند قوم نہیں ہیں، اس لیے اسے معمول کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ تیسری دنیا میں ہونے والے انتخابات مکمل طور پر شفاف نہیں ہوتے۔ ہم اس عمل کے ذریعے مکمل شفاف نتائج نہیں بلکہ بظاہر ممکنہ شفاف نتائج کی توقع کرتے ہیں۔ 2000ء میں امریکہ میں صدارتی انتخابات میں میامی ڈیڈلاک پیدا ہو گیا تھا کیونکہ الگور نے جارج ڈبلیو بش پر دھاندلی کے الزامات لگائے تھے۔ یہ تنازع سپریم کورٹ کے سپرد کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں دائیں بازو کے جج حضرات نے مسٹر بش کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ الگور کو ان کی لیگل ٹیم نے مشورہ دیا کہ وہ اپنی قانونی جدوجہد جاری رکھیں کیونکہ ان کا کیس بہت مضبوط ہے لیکن مسٹر الگور نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ سیاسی افراتفری امریکہ کو نقصان پہنچائے گی۔ وہ اپنے کیس سے ملک کے وسیع تر مفاد میں دستبردار ہو گئے۔ 
موجودہ صورت حال کی 1977ء کے واقعات سے ایک اور مماثلت یہ ہو سکتی ہے کہ جب مسٹر بھٹو نے صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج طلب کی تو آرمی چیف جنرل ضیاالحق نے شب خون مارتے ہوئے جمہوریت کا بستر گول کر دیا۔ ان تمام واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں موجودہ سیٹ اپ کو برداشت کرنا چاہیے۔ ہمارے نوخیز اور کمزور جمہوری نظام کو کچھ لوگوں کے عزائم کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں