انتہا پسندی اور زوال

ایک لبنانی سکالر فواد عجمی (Fouad Ajami) نے ایک مرتبہ مسلمانوںکی عمومی حالت کو ''خود ترحمی اور ہٹ دھرمی کی سیاسی روایت‘‘ قرار دیا تھا۔ جب ہم خود کو مظلوم قرار دیتے ہوئے اپنے مصائب پر دنیا کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں‘ تو فواد عجمی کی رائے درست محسوس ہوتی ہے۔ مسلم تہذیب کے زوال کی ذمہ داری مغرب کے کندھوں پر ڈالی جاتی ہے۔ ہم آج بھی اپنی پسماندگی اور جہالت کا ذمہ دار نوآبادیاتی نظام کو قرار دیتے ہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کا زیادہ تر حصہ ترکی کے عثمانی خلیفہ کے زیر نگیں تھا۔ انیسویں صدی میں شروع ہونے والے نوآبادیاتی نظام کے عروج سے بہت پہلے ہم مایوسی کے عالم میں باقی دنیا سے بہت پیچھے اندھیری راہوں میں بھٹک رہے تھے۔ جب ہم مسلم دنیا میں بڑھتے ہوئے تشدد اور افراتفری کو دیکھتے ہیں تو ہم میں سے بہت سے حیران ہو کر سوچنے لگتے ہیں کہ تباہی کا سفر کب اور کیونکر شروع ہوا۔ درحقیقت ایک ہزار سال پہلے تک مسلم تہذیب دنیا میں سائنسی اور عمرانی علوم کی نقیب تھی۔ جس وقت یورپ انتہا پسندی اور ذہنی پسماندگی کا شکار تھا، مسلمان روشن خیال اور دیگر مذاہب کے لیے روادار تھے۔ اُنہوں نے یونانی علوم کو ترقی دیتے ہوئے دنیا تک پہنچایا‘ لیکن یہ ایک ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی گل ہونا شروع ہوئی۔ آج ہمارے سامنے داعش ہے یا طالبان یا بوکو حرام۔ 
ہلاکو خان کے عہد (1258ء) میں منگول لشکر کی طرف سے
بغداد کے محاصرے اور تباہی نے ہمارے زوال کو صرف تیز تر کر دیا‘ ورنہ اس تباہی سے پہلے ہی خلافت کو زوال آنا شروع ہو چکا تھا۔ درحقیقت اردو لفظ ''ہلاک‘‘ مسلم دنیا کی اُسی تباہی کی یاد دلاتا ہے؛ تاہم ہلاکو خان کی لشکر کشی سے پہلے مسلمان حکمران اور عالم عقل و استدلال سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اندھے یقین پر تکیہ کرنے کی عادت اپنا چکے تھے۔ اسلامی تاریخ کے اُس فیصلہ کن دور سے پہلے، معتزلہ (Mu'tazilah) تحریک آٹھویں سے دسویں صدی تک عقل اور دانائی پر زور دیتی تھی۔ اُس شاندار دور میں اسلامی دنیا میں فلسفہ، سائنس اور دیگر علوم کو ترقی ملی۔ اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد، جو بصرہ اور بغداد میں اپنی موجودگی رکھتے تھے، کا موقف تھا کہ کسی چیز کے موثر معانی جاننے کے لیے الہامی مثال کافی نہیں، بلکہ مذہب کے فرائض کی بھی عقل کی کسوٹی پر پرکھ ہونی چاہیے۔
رفتہ رفتہ اس نظریے کو روایتی مذہب نے چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ دسویں صد ی کے عالم ابوالحسن العشری کے مکتبہ فکر کا موقف تھا... ''انسانی عقل بذات خود اخلاقیات، ما بعدالطبعیات اور طبعیات کی دنیا کے بارے میں حتمی سچائی تک پہنچنے کی اہلیت نہیں رکھتی‘‘۔ ان کا یہ بھی اصرار تھا... ''فطرت کی کوئی چیز بھی خود بخود، خدا کی مرضی کے خلاف، کام نہیں کر سکتی‘‘۔ اپنی کتاب ''The Closing Of The Muslim Mind‘‘ میں رابرٹ ریلی نے لکھا... ''ابتلا کی سب سے بڑی وجہ خالق اور مخلوق کے درمیان پایا جانے والا ذہنی تفاوت ہے‘‘۔ بہت جلد یہ سوچ تمام اسلامی دنیا پر حاوی ہو گئی، یہاں تک کہ تعلیم اور عمرانی علوم اس کے رنگ میں رنگے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی دنیا نے ہر نئی دریافت یا پیش رفت کو بدعت کہہ کر رد کر دینے کی عادت اپنا لی اور اس سوچ کے حامل افراد کو سزا دینا شروع کر دی۔ یہ وہ دور تھا جب اجتہاد، استدلال اور معقولیت کے دروازے اسلامی دنیا پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے۔ صورتحال آج بھی جوں کی توں ہے، بلکہ یوں کہہ لیں قفل مزید بھاری ہو چکے ہیں۔ 
یورپ میں 1460ء میں چھاپہ خانہ استعمال میں آ چکا تھا لیکن مسلم دنیا میں اس کی آمد 1727ء میں دیکھنے میں آئی۔ اس کی وجہ سے مسلم دنیا تادیر کتابوںسے محروم رہی۔ ''Muslims and Science‘‘ کے مصنف پرویز ہودبھائی اسلامی دنیا میں سائنس کے زوال کی بہت گہری تحقیق کرتے ہوئے کچھ بہت ہی پریشان کن حقائق سامنے لاتے ہیں... ''ڈیڑھ ارب کی آبادی رکھنے والی اسلامی دنیا میں سائنس پر صرف دو افراد کو نوبل انعام مل پایا ہے۔ مسلمانوںکے چھیالیس ممالک کا شائع ہونے والے سائنسی لٹریچر میں صرف ایک فیصد حصہ ہے۔ سپین، جو علمی اعتبار سے کبھی اہم ملک نہیں رہا، میں ایک سال میں اُس سے زیادہ کتابوں کا ترجمہ ہوتا ہے جو پوری عرب دنیا گزشتہ ایک ہزار سال میں کر پائی ہے۔ یہ سوچ انتہائی دل دکھانے والی ہے کہ یہ عرب تھے جنھوں نے یونانی علوم کا ترجمہ کرکے دنیا کے سامنے پیش کیاتھا‘‘۔ 
جب مسلم دنیا کو زوال آنا شروع ہوا تو اس کا طاقتور حریف بن کر یورپ اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اسلام میں آزاد تعلیمی ادارے قائم نہیں ہو پائے تھے اور نہ ہی ان کی کوئی روایت موجود تھی۔ اسلامی دنیا میں تعلیمی ادارے ''وقف‘‘ یعنی چندے پر چلائے جاتے تھے اور ان میں زیادہ تر دینی علوم سکھائے جاتے تھے۔ اس دوران یورپ میں سائنسی علوم کی ترویج شروع ہو گئی اور آکسفورڈ، کیمبرج، پیرس اور دیگر شہروں میں یونیورسٹیاں کھل گئیں۔ چھاپہ خانے کی ایجاد نے کتابوں کا حصول سہل اور سستا کر دیا۔ سائنسی نظریات نے ذہنوں کو جلا بخشی، یورپ میں علم کی تحریک پیدا ہوئی اور تنگ نظری اور ذہنی پسماندگی کی جگہ تحقیق اور سوچ بچار نے لے لی۔ 
دوسری طرف مسلمانوں نے دین اور سیاسی مقاصد کو جدا نہیں کیا۔ اپنے مضمون ''عرب دنیا سائنس سے دور کیوں ہوئی‘‘ میں ہیلل اوفک (Hillel Ofek) دلیل دیتے ہیں کہ عباسی دور میں سائنس کے پروان چڑھنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ یونانی علوم سیکھنے اور سکھانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی تھی، لیکن معتزلہ تحریک کو رد کر دینے سے وہ شاندار روایت دم توڑ گئی اور اسلامی دنیا میں عقل اور استدلال سے کنارہ کشی اختیار کر لی گئی۔ یہ باتیں نئی نہیں، ہم بہت دیر سے جانتے ہیں کہ ہم کیا تھے اور کیا ہیں۔ نائیجیریا، عراق اور ہمارے قبائلی علاقوں میں پروان چڑھنے والی انتہا پسندی دراصل جدید سوچ اور ترقی کو عملی طور پر، ہتھیاروںکی مدد سے، رد کرنے کا ہی ایک طریقہ ہے۔ کبھی یورپ کا بھی یہی حال تھا؛ تاہم علم کی تحریک اُنہیں اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئی، لیکن ہم ابھی تک دسویں صدی کے عالم العشری کے نظریے کے اسیر ہیں۔ جب تک ہم عقل اور استدلال کی راہ نہیں اپنائیںگے، ہم اسی طرح در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔ اس ذہنیت کے ساتھ جدید دنیا میں ہمارا نہ کوئی حصہ ہے اور نہ کردار۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں