فلسطینی توقع کررہے ہیں کہ اس سال کے اختتام تک اقوام متحدہ اُن کی آزاد ریاست کی حیثیت کو تسلیم کرلے گی لیکن ان کے راستے کی سب سے پہلی رکاوٹ سکیورٹی کونسل ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یواین سکیورٹی کونسل میں ان کے سات حامی موجود ہیںتاہم قوانین کے مطابق اُنہیں دو مزید ووٹ درکار ہیں۔ اس سے بھی اہم یہ کہ اُنہیں کسی طریقے سے امریکہ کو قائل کرنا ہوگا کہ وہ اس پیش رفت کو ویٹو نہ کردے۔ اب تک فلسطین کے حق میں اور اسرائیل مخالف پیش کی گئی کسی بھی قرار داد کو ویٹو کرتے ہوئے امریکہ نے اسرائیلی مفادات کا تحفظ کیا ۔
اگر فلسطینی سکیورٹی کونسل سے منظوری لینے میں ناکام رہے، تو اُن کا کہنا ہے کہ وہ آئی سی سی( انٹر نیشنل کریمینل کورٹ) کی رکنیت حاصل کرنے کے درخواست دیںگے۔ اس دھمکی پر ماضی میں تل ابیب نے احتجاج کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرفلسطینی اس کی رکنیت حاصل کرلیتے ہیں تو آئی سی سی کو اختیار مل جائے گا کہ وہ فلسطینی مقبوضہ علاقوں میںروا رکھی جانے والی عالمی قوانین کی پامالی کی تحقیقات کر سکے۔ پانچ سال پہلے فلسطینی صدر محمود عباس نے آئی سی سی کی ایک ایسی رپورٹ منظر عام پر نہیں آنے دی تھی جس میں ماضی میں غزہ پر کیے گئے اسرائیلی حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کو چھپانے کی وجہ امریکہ ، جو اسرائیل کا سب سے بڑا سرپرست ہے، کی طرف سے ڈالا گیا شدید دبائو تھا۔ اس کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے محمود عباس نے اس معاملے کومزید اچھالنے سے گریز کیا۔
تاہم تازہ ترین لڑائی ، جس میں اکیس سو فلسطینی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے اور بہت زیادہ تباہی ہوئی، کے بعد اب محمودعباس زیادہ پُرعزم ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری کی ثالثی میں شروع ہونے والے مذاکرات میں تعطل کے بعد اب فلسطینیوں کے پاس اور کوئی آپشن نہیں بچا۔ دوسری طرف اسرائیل یک طرفہ طور پر قائم کی جانے والی فلسطینی ریاست کی مخالفت کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ ایسا دوطرفہ مذاکرات کے بعد ہو۔ تاہم وہ مذاکرات کرتے ہوئے مزید بستیاں بھی تعمیر کرتارہاہے۔
اس پس ِ منظر میںیہ حیرانی کی بات نہیں کہ برطانیہ کے ہائوس آف کامن میں فلسطینی ریاست کے مسئلے پر ہونے والی غیر اہم اور بے نتیجہ بحث بھی بہت اہم واقعہ دکھائی دی۔ اسرائیل کے حامی ارکان ِ پارلیمنٹ نے بہت شدومد سے اپنے موقف کی وکالت تھی جبکہ حکومت نے اس بحث کو عوامی سطح بہت زیادہ اُجاگر نہیں کیا۔ ایسلنگٹن (Easlington) سے تعلق رکھنے والے لیبر پارٹی کے رکن ِ پارلیمنٹ گراہم موریز کی وجہ سے یہ بحث عالمی توجہ کا مرکز بن گئی۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے مسٹر موریز نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنااسرائیل کے لیے سود مند ثابت ہوگا اور ایوان پُرامن فلسطینیوں کی حوصلہ افزائی کرے گا۔
سابق سیکرٹری خارجہ سرمیلکم رفکنڈ(Sir Malcolm Rifkind)کا خیال تھا کہ یہ قرار داد قبل ازوقت ہے کیونکہ ابھی فلسطین کے پاس ایسے ادارے بھی نہیں ہیں جو ایک ریاست کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم ٹونی بلیئر کی حکومت کے سیکرٹری خارجہ جیک سٹرانے ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے پرزو ر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیلی عزائم کے آگے قانونی طور پر بند باندھا جائے کیونکہ اس نے فلسطین کا بہت سا علاقہ اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ اُنھوں نے اس خیال کو بھی سختی سے رد کردیا کہ اسرائیل کو فلسطینی ریاست پر ویٹو کا حق دے دیا جائے۔ شاید سب سے جذباتی تقریرکنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن، سر رچرڈ اٹووے (Sir Richard Ottoway)، جو ہائوس کی فارن افیئر کمیٹی کے چیئرمین ہیں، کی طرف سے کی گئی۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر چہ کنزرویٹو پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے بھی وہ اسرائیل کے دوست تھے لیکن اسرائیل کی طرف سے حالیہ کارروائی کے دوران فلسطین کی تقریباً ایک ہزار ایکٹر زمین پر قبضہ کرنے سے اُنہیں سخت صدمہ پہنچا ہے، اس لیے وہ فلسطین کی آزاد ریاست کو تسلیم کرنے کے حق میں ہیں۔
ایک لبرل ڈیموکریٹ رکن، ڈیوڈ وارڈ نے اسرائیلی سکیورٹی کو لاحق خطرات کی بات کی۔ اُنھوں نے ہائوس کو یاددہانی کرائی کہ 1948ء میں، اسرائیل کے قیام سے قبل،امن فوج میں خدمات سرانجام دینے والے سات سو برطانوی اہل کار صہیونی جنگجوئوں کا نشانہ بنے تھے۔ اہم بات یہ بھی کہ سرجیرالڈ کف مین (Sir Gerald Kaufman)، جو خود بھی ایک یہودی ہیں ، نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ حماس کو ایک ''آلہ کار ‘‘ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کے حق سے محروم کررہا ہے۔ فائنل رائے شماری میں فلسطین کو تسلیم کرنے کے حق میں 274 جبکہ اس کی مخالفت میں بارہ ووٹ آئے۔ اگرچہ یہ نتائج قطعی طور پر یک طرفہ دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ نصف سے زائد ارکان نے اس رائے شماری میں بوجوہ حصہ ہی نہیں لیا تھا۔
اگلی صبح اسرائیلی اخبارات میں ادارتی نوٹ اور مضامین میں برطانوی ہائوس میں ہونے والی بحث کے مضمرات پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ دائیں بازو کے مبصرین نے قرار دادکے حق میں پڑنے والے ووٹوں کو مستر دکرتے ہوئے کہا کہ ان سے برطانوی پالیسی میںکوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ تاہم کچھ فہم رکھنے والے سیاسی پنڈتوںنے اس بات کی نشاندہی کی کہ حالیہ قرارداد اسرائیل کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تنہائی کی ایک طرف ایک اور قد م ہے۔ اس سے پہلے اقوام ِ متحدہ کے 135 رکن ممالک نے فلسطین کو تسلیم کرلیا ہے۔ سویڈن نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ حمایت کرنے والوں کی صف میں شامل ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودی آبادیوں میں بننے والی مصنوعات، جن پر'' میڈاِن اسرائیل‘‘ کا لیبل لگایا ہوتا ہے، پر پابندی لگانے پر غور کررہی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بزنس ہائوسز بھی اسرائیل میں سرمایہ کاری نہ کرنے اور اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ کچھ سیاحوں کی طرف سے کہا گیا کہ وہ احتجاجاً اسرائیل نہیں جائیں گے جبکہ یورپ کی کچھ یونیورسٹیوں نے اسرائیلی سکالرز کو کانفرنسوں میں شرکت کرنے سے روک دیا ۔ اگرچہ یہ بہت بڑے اقدامات نہیںہیں، لیکن ان کی وجہ سے اسرائیل کے اعصاب پر دبائو میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اسرائیلی جارحیت اور عالمی قوانین کی پامالی پر یورپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔ اسرائیل کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسے ایک ''مغربی ملک ‘‘ سمجھ کر توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھی عالمی قوانین کا اُسی طرح احترام کرے جس طرح دیگر ممالک کرتے ہیں۔ جب اسرائیلی بمباری سے بہت سے بچے اور خواتین ہلاک ہوجاتے ہیں تو میرے یورپی دوست اسرائیلی جارحیت پر چلااُٹھتے ہیں۔ اگرچہ فلسطین کے پاس ایسی طاقت نہیں کہ وہ اسرائیل پر دبائو ڈال کر اپنے لیے کچھ رعایت حاصل کرسکے، لیکن تبدیل ہوتی ہوئی عالمی رائے شاید تل ابیب کو معقول رویہ اپنانے پر مجبو رکردے۔