الفاظ کی طاقت

میں بچپن کا ایک گیت اکثر یاد کرتا ہوں۔۔۔'' چھڑیاںاور پتھر میری ہڈیاں توڑ سکتے ہیں مگر الفاظ مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔‘‘ تاہم سچی بات یہ ہے کہ الفاظ کہیں زیادہ نقصان کرسکتے ہیں۔ ذر ا لفظ 'دہشت گردی‘پر غور کریں۔ یہ پہلے پہل ہماری لغات میں انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں داخل ہوا جب بہت سے تشدد پسند یورپی گروہوں نے اپنی من پسند ریاست تشکیل دینے کے لیے اُس وقت کے نظام کو گرانے کی کوشش کی۔اُن گروہوں کے کارکن دہشت پھیلانے کے لیے یورپ کے شہروں میں بم نصب کرتے ، تاہم اُ ن کی طرف سے پھیلائی گئی افراتفری کا اگر موجودہ دہشت گردی سے موازنا کیا جائے تو وہ محض پھلجھڑی تھی۔ اس کے باوجود وہ اُس وقت لاکھوں افراد کو دہشت زدہ کرنے میں کامیاب رہے۔ 
دہشت گردی کا مطلب اس طرح واضح کیا گیا کہ یہ ایک ایسی کارروائی ہے جس میں سیاسی مقاصد کے لیے نہتے شہریوں کو ہدف بنایا جائے۔ ماضی میں تشدد کی لہر کا نقطہ ٔ عروج اُس وقت دیکھنے میں آیا جب سراجیو میں آسٹریا کے شہزادے آرچ ڈیوک فرڈیننڈ (Archduke Ferdinand ) کوگولی مار کر قتل کردیا گیا۔ یہ قتل پہلی جنگ ِ عظیم کا محرک بنا۔ اس کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جاپانی اور یورپی زیرِ زمین گروہوں نے بھی ایسی ہی کارروائیاں کیں۔۔۔ یعنی اپنے اہداف کو اغوا کرکے قتل کردیا جاتا ۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی قبضے کے خلاف لڑنے والے فلسطینی گروہوں نے بھی یہی راہ اپنائی۔ آئرلینڈ میں آئی آر اے نے آئرش ریاست کے حصول کی جدوجہد میں شہری آبادیوں میں بم دھماکے کیے۔ اسّی کی دہائی کے آغاز میںتامل ٹائیگرز دنیا کے سب سے خطرناک غیر ریاستی جنگجو بن کر ابھرے۔ فلپائن میں ایک مسلمان گروہ نے آزادی کے لیے لڑنا شروع کردیا جبکہ سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد چیچن باشندوںنے روس کے تسلط سے نکلنے کے لیے ہتھیار اُٹھا لیے۔دنیا کے ہمارے حصے میں افغان مجاہدین نے سوویت یونین جبکہ کشمیری مجاہدین نے بھار ت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی مدد سے گوریلا جنگ کی۔ 
یہ تمام گروہ بہت واضح اور مخصوص سیاسی مقاصد رکھتے تھے اور وہ اُن ریاستوں کے خلاف خفیہ کارروائیاں کرتے جنہیں و ہ اپنا دشمن سمجھتے۔ تاہم یہ القاعدہ تھی جس کی صورت میں ایک حقیقی کثیر الاقوامی، زیر ِ زمین تحریک منظر ِعام پر آئی۔ آج داعش عالمی جہاد کی توسیع شدہ شکل ہے۔ نائن الیون کے بعد تمام مزاحمتی تحریکیں، چاہے وہ کسی بھی مقصد کے لیے کیوں نہ لڑرہی ہوں، اُنہیں دہشت گرد سمجھا گیا بشرطیکہ لڑنے والے مسلمان ہوں۔ اس سے ان ممالک، جن کو ایسی تحریکوں کا سامنا تھا ، کو اچانک ایک موقع مل گیا کہ ان تحریکوں کو دہشت گردی کی جنگ کی آڑ میں کچل دیں۔ تاہم ، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، ریاستوںکی طرف سے اپنائی جانے والے پرتشدد پالیسی کا بہت خوفناک ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ گلین گرین ووڈ، وہ صحافی جو سب سے پہلے سنوڈن کی کہانی دی گارڈین میں لے کر گئے، نے حال ہی میں دی انٹرسپٹ (The Intercept) 
میں لکھا ۔۔۔''شہری آزادیوں کو کچلنے کے لیے ریاستوں کی طرف سے کی جانے والی عسکری کارروائیاں نہ ختم ہونے والے تشدد کی آگ پر تیل گراتی ہیں۔‘‘
کینیڈا میں حال ہی میں اسلام قبول کرنے افراد کے فوجیوں پر کیے جانے والے دو حملوں کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ''دہشت گردی‘‘ بذات ِخودخوف و ہراس پھیلانے کا باعث بنا ہے۔ دوافراد کے قتل سے کسی ملک میں زندگی مفلوج نہیں ہوجاتی لیکن اوٹاوا(Ottawa) میں ہونے والے دوسرے حملے کے بعد شہر کئی گھنٹوں تک بند رہا اور اس خدشے کو ہوا ملتی رہی کہ اور کچھ اور دہشت گرد بھی وہاں چھپے ہوسکتے ہیں۔ دراصل لفظ ''دہشت گردی‘‘ سے خوف کا تاثر ابھرتا ہے کہ جہادیوں کے دستے آپ کے دروازے پر کھڑے ہیں اور وہ خون کی ندیاں بہادیںگے۔ کینیڈ ا میں باوردی فوجی حملے کا نشانہ بنے تھے ، لیکن اسے دہشت گردی کہا گیا حالانکہ دہشت گردی کی قابل ِ قبول تعریف ہے کہ اس میں نہتے افراد کو سیاسی مقاصد کے لیے نشانہ بنایا جائے۔ مغربی ممالک کے افراد ایک حقیقت فراموش کر جاتے ہیں کہ وہ حالت ِ جنگ میں ہیںاوران کے دشمن بھی ان تک پہنچنے کے مواقع تلاش کررہے ہیں۔ اس بحث کا مقصد کینیڈا میں ہونے والے حملوں کی حمایت نہیں بلکہ یہ وضاحت مقصود ہے کہ حالات کیا رخ اختیار کرنے جارہے ہیں۔ دہشت گردی کی اصطلاح میں پائے جانے والے ابہام کو دور کرنے کی کوشش میںفلسفے کے ایک پروفیسر ، مسٹر ٹامس کپتان(Tomis Kapitan) نے نیویارک ٹائمز میں لکھا۔۔۔''تاریخی طور پر دہشت کا بیان وہ افراد استعمال کرتے ہیں جو اقتدار میں ہوتے ہوئے عوام کی رائے کو کنٹرول کرنا چاہتے ہوں۔اس کا مقصد ان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردی سے توجہ ہٹانا ہوتا ہے۔اسی طرح دہشت گردی سے نمٹنے کے بہانے شہری آبادیوں ، سکولوں اور ہسپتالوں پر بمباری کھلی منافقت ہے۔ سرکاری فورسز کی طرف سے متعدد بار شہریوںکے خلاف محض سیاسی وجوہ کی بنا پر طاقت کا استعمال دیکھنے میں آیا ہے۔ بھاری ہتھیار استعمال کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرنا مضحکہ خیز ہے کہ شہری اس کا نشانہ نہیں بنتے حالانکہ اس بات کا سب کو علم ہوتا ہے کہ جہاں بمباری کی گئی اُس عمارت یا آبادی میں عام شہری بھی مقیم تھے۔ درحقیقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہری جانوں سے سفاکی کی حد تک لاپروائی برتی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریاستی دہشت گردی کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی جاتی اور صرف ان افراد( روایتی دہشت گردوں) کے خلاف زہر اگلاجاتا ہے جن کی تباہی پھیلانے کی صلاحیت ریاست، جس کے پاس ٹینک ،توپ خانہ اور جنگی طیارے ہوتے ہیں، کے مقابلے میں کچھ بھی نہیںہوتی؟دراصل جنگ کے دوران روا رکھی جانے والی لاپروائی، جو نہایت سنگین ہوتی ہے، سے اغماض برتا جاتا ہے۔ آخر میں یہ لفظ کا استعمال ہے جو افعال کی سنگینی پر نہایت مہارت سے پردہ ڈال دیتا ہے۔‘‘ کپتان اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔''یہ صرف امریکہ کی ہی پالیسی نہیں بلکہ کئی عشروںسے اسرائیلی رہنما بھی الفاظ کے استعمال سے فلسطینیوں کی ان کی سرزمین سے محبت اور قوم پرستی کو منفی رنگ دے کران کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی اپنی پالیسی کو دنیا کی نگاہ سے اوجھل رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘‘
اس طرح بنیادی طور پر دہشت گردی کے لیے ریاست اپنے لیے ''طاقت کے ضروری استعمال‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتی ہے جبکہ خون خرابہ کرنے کی ذمہ داری جنگجوگروہوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ جنرل یحییٰ خان کی قیادت میں پاکستان کے ادارے بھی بنگالی گروہوں کو ''شورش پسند ‘‘ قرار دے کر ان کو ختم کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اس کے بعد ، اسّی کی دہائی میں،ضیا دور میں ،سندھ میں ایم آرڈی کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کرنے والوں پر بھی یہی الزام لگایا گیا۔ جارج اورل ، اپنے ناول 1984ء میں الفاظ کے دہرے تاثر پر روشنی ڈالتے ہیں کہ ان کی مدد سے عوام کے نظریات کو کس طرح نئے انداز میں ڈھالا جاتا ہے۔ جدید حکومتیں اسی طرح خوف وہراس اور غیر یقینی صورت ِحال پیدا کرتے ہوئے عوام کی سوچ کو کنفیوژن کا شکار کرتی ہیں اور پھر اُسے من پسند انداز میں ڈھال لیا جاتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں