آزادی یا مادر پدر آزادی؟

حال ہی میں، مَیں نے بی بی سی کے ایک مقبول کوئز شو (Quiz Show) میں برطانیہ کی یونیورسٹیوں کے انڈر گریجوایٹ طلبہ کے مابین مقابلہ دیکھا۔ شام آٹھ بجے دکھائے جانے والے اس پروگرام کے میزبان نیوز نائٹ سے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے اینکر جرمی پاکس مین ہیں، جنہیں ''Rottweiler of TV journalism‘‘ کہا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے آکسفورڈ یونیورسٹی کے بی اے لیول کالج اور کیمبرج میگڈالین کی ٹیموں کے درمیان مقابلہ تھا۔
پاکس مین نے لاطینی گرائمر سے لے کر فزکس کے قوانین تک مختلف سوالات پوچھے جبکہ ہر سوال کا جواب دینے کے لیے طلبہ کے پاس تیس سیکنڈ تھے۔ کبھی ایک ٹیم سبقت لے جاتی تو کبھی دوسری، لیکن جب آدھے گھنٹے کے بعد اختتامی گھنٹی بجی تو بی اے لیول کالج کی ٹیم فتح یاب ہو کر اگلے رائونڈ میں داخل ہو گئی۔ جس چیز نے مجھے بہت متاثر کیا وہ نوجوان طلبہ کی ذہانت اور تیزی سے جواب دینے کی صلاحیت نہیں بلکہ بی بی سی کا اس پروگرام کو اُس وقت ( شام آٹھ بجے، پرائم ٹائم) پیش کرنا، جب ناظرین کی کثیر تعداد ٹی وی کے سامنے ہوتی ہے اور اس کے لیے جرمی پاکس مین جیسے مہنگے اینکر کی خدمات حاصل کرنا تھا۔ 
دوسری طرف پاکستان میں ٹی وی چینل اُس وقت سیاسی مباحثے کے پروگراموں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ درحقیقت ہمارے ہاں ریٹنگ اور تشہیر 
بازی سے ہونے والی آمدنی کے لیے نہ ختم ہونے والی دوڑ میں الجھ کر میڈیا کے کرتا دھرتا بھول گئے ہیں کہ ٹی وی کا کام صرف معلومات ہی نہیں بلکہ تعلیم اور تفریح کی فراہمی بھی ہے۔ ٹی وی سوئچ آن کریں تو لگتا ہے کہ سیاست، جان کی بازی لگا دینے والا ایک ہنگامہ خیز کھیل بن چکی ہے‘ جس میں مدِمقابل، جنگجو شمشیر بازوںکی طرح حریف کو مار گرانے کے لیے ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر وار کر رہے ہوتے ہیں‘ جبکہ فضا (عقل اور منطق کے) خُون کی بُو سے بوجھل اور کان کے پردے پھاڑ دینے والا شور سماعت کی سکت کو چیلنج کر رہا ہوتا ہے۔ اینکر حضرات اپنے مہمانوں کو ایک دوسرے پر جھپٹنے کی اجازت اس لیے دیتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں‘ ناظرین اس ہنگامہ آرائی کے''شوقین‘‘ ہیں۔ اگر ٹی وی پروگراموں کی ریٹنگ پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اُن کا اندازہ غلط نہیں۔ مہمانوں کے غیر مہذب اندازِ گفتگو اور بد کلامی کے علاوہ مقبول میزبانوں کی لاعلمی، جس کا اظہار کرنے میں وہ کنجوسی سے کام لینے کے عادی نہیں، دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ 
ہمیں اکثر بتایا جاتا ہے کہ ہمارا حال بہت سی اقوام سے بہتر ہے کیونکہ ہمارا میڈیا آزاد ہے۔ سچ پوچھیں تو میں اکثر اُس بے کیف وقت کو یاد کرتا ہوں جب نشریات پر صرف ایک چینل کی اجارہ داری تھی۔ ہم جانتے تھے کہ سرکاری ٹی وی صرف حکومت کی ترجمانی کرتا ہے، اس لیے ہم سچ جاننے کے لیے ریڈیو پر بی بی سی ورلڈ سروس سنتے تھے۔ اس کے باوجود اُس وقت کے اس واحد چینل کو یہ کریڈٹ جاتا تھا کہ یہ اپنے پرائم ٹائم میں بہت معلوماتی اور تفریحی پروگرام پیش کرتا تھا۔ پی ٹی وی کے اُس دور کے شاندار ڈرامے اور کوئز پروگرام کون بھلا سکتا ہے؟ وہ ریٹنگ کی کسی مسابقت میں شریک نہ تھا اور اسے احساس تھا کہ بطور ایک نشریاتی ادارہ، اس کا معاشرے میں کیا کردار ہے۔ اس پر ایک مرتبہ محترم پرویز ہود بھائی نے بہت شاندار تعلیمی سیریز پیش کی تھی۔ پی ٹی وی نے ملک میں فن کاروں کی سرپرستی کی اور نئے فن کاروںکو دریافت کیا۔
دراصل پاکستان میں آزادی کا مطلب کچھ بھی کر گزرنے کا لائسنس سمجھا جاتا ہے۔ ہمار ی آنکھوں کے سامنے میڈیا کے بعض حصوں کی جانب سے سیاست دانوں اور اہم اداروں پر ناروا حملے کیے گئے۔ ایسا کرتے ہوئے اُنہوں نے جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں کی، بلکہ کہنا پڑے گا کہ ان کی وجہ سے جمہوریت کمزور ہوئی۔ کیے گئے موجودہ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ آج پاکستانیوں کی اکثریت سیاست دانوں سے نفرت کرتے ہوئے سمجھتی ہے کہ کچھ طاقتور ادارے ہی ملک کو بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں۔ 
آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھانے میں صرف میڈیا ہی اکیلا نہیں، وکلا اور معاشرے کے دوسرے حلقوں کا رویہ بھی سب کے سامنے ہے۔ زیادہ تر اپنی بات منوانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ چاہے اس کے لیے طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ سابق چیف جسٹس کے دور میں بات بات پر سوئوموٹو نوٹس لیے گئے تو دوسری طرف عدلیہ کی فعالیت پر تنقید کا راستہ روکنے کے لیے قوانین کا سہارا لیا گیا۔ مختلف مفادات رکھنے والے گروہ اب ایگزیکٹو کی اتھارٹی کو کمزور کر رہے ہیں۔ ماضی میں تو منتخب حکومتوںکو صرف فوج کے طاقت ور ادارے کے ساتھ پاور شیئر کرنا پڑتی تھی‘ لیکن اب حکومتوں کو ان گروہوں سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔ اس چکر میں فعالیت پر زد پڑتی ہے اور یہی گروہ اس کی جان کو آ جاتے ہیں۔
آزادی اور مادر پدر آزادی کے درمیان ختم ہونے والی تمیز کا تعلق ہمارے ہاں پائی جانے والی عمومی ذہنیت سے ہے۔ ہم بطور قوم اتھارٹی کی توہین کرتے ہوئے قوانین کو ہوا میں اُڑانا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ کئی سال پہلے مجھے کراچی میں ایک دوست نے بتایا کہ جب وہ موٹر سائیکل پر سوار ایک ٹریفک کے سرخ سگنل پر رکا تو اُس کے پیچھے آنے والی کار میں سوار افراد مشتعل ہو گئے اور اُنہوں نے اُسے حکومت کا ''چمچہ‘‘ قرار دیا۔ اس ذہنی تنزلی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ قانون کی خلاف ورزی کرتے کرتے معاشرہ حیوانیت کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرتا ہے۔ قطار بنانا ہمارے لیے ناممکن، ٹریفک سگنل پر کھڑا ہونا بزدلی اور قانون کا احترام کمزوری ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے توقع تھی کہ تعلیم خود پر ضبط اور قانون کا احترام کرنا سکھاتی ہے، لیکن جج حضرات اور وکلا سے بہتر تعلیم یافتہ کون ہو گا؟ اگر وہ ہی ان اقدار کی پاسداری نہیںکرتے تو پھر جیسا کہ مشہور شاعر جیفری چوسر کہتا ہے "If gold rusts what shall iron do" (اگر سونے کو زنگ لگ جائے تو لوہے کا کیا بنے گا؟)
قوانین اور قواعد و ضوابط وہ فولادی ڈھانچے ہوتے ہیں جو کسی معاشرے کو قائم رکھتے ہیں۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان تعلق پیدا کرنے والا آئین ان سب کو آپس میں جوڑے رکھتا ہے۔ اس تعلق کا احساس صرف لکھی ہوئی دستاویز نہیں بلکہ اس کی روح کی تفہیم اور اس پر عمل کرنے میں مضمر ہے۔ اگر دنیا کے بہترین لوگ متفقہ طور پر بنائے گئے عمرانی معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں تو پھر نظام کو تباہی سے کون بچا سکتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں