نظریہ اور عقیدہ

مجھے یقین ہے کہ جب ممبئی کے ہسپتال کے حالیہ دورے کے دوران بھارتی وزیر ِ ا عظم نے بیان دیا کہ بھارت کئی صدیاں پہلے پلاسٹک سرجر ی میںپیش رفت کرچکا تھا تو عام ہندوستانی ، خاص طور پر اُ س ہسپتال کے ڈاکٹرچکرا گئے ہوںگے۔ اپنے تازہ کالم میں جواد نقوی نے مسٹر مودی کے گنیش دیوتا(جس کا سرہاتھی کا ہے)کے حوالے سے دیے جانے والے بیان کا پرلطف جائزہ لیتے ہوئے مصر کے دیومالائی کرداروں کا ذکر کیا ہے۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ بھارتی وزیر ِ اعظم اپنے عقائدمیں سنجیدہ اور پر اعتماد ہیں۔ ایسا کہتے ہوئے وہ فکشن کے حوالے سے نہیں بلکہ مذہبی عقائد کی بات ہی کررہے تھے۔ گارڈین اخبار کے مطابق مسٹر مودی کو یقین ہے کہ یہ ہندو دیوتا رام تھے جنھوں نے پہلا جہاز اُڑایا تھا اور قدیم بھارت میں Stem Cell پر تحقیقاتی کام ہوا تھا۔ 
جب تک ایسے عقائد اور نظریات کسی کا ذاتی معاملہ رہیں تو اس سے دوسرے افرا دکو کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ ایک شخص کسی بھی بات پر انفرادی حیثیت میں یقین رکھنے کے لیے آزاد ہے، لیکن جب یہ عقائد کسی اہم سیاسی جماعت کانظریہ بن کر سامنے آتے ہیں۔۔۔ جیسا کہ بھارت میں آر ایس آیس کے نظریات۔۔۔تو پھر مسائل کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ ہم اکثر دیکھ چکے ہیں کہ عقائد اور نظریات پر مبنی سیاست غیر لچکدار اور کٹر ہوتی ہے۔ درحقیقت آج دنیا کے کامیاب ترین ممالک وہ ہیں جو کسی قسم کے بھی نظریات سے سرکاری طور پر آزاد ہیں۔ دنیا کے کامیاب، خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کی فہرست بنالیں، فرق سمجھ میں آجائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں جب سرد جنگ کے دوران سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم نے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی تو نظریاتی کشمکش دیکھنے میں آئی۔ آج بھی مغربی رہنما دنیا میں جمہوریت اور فری مارکیٹ کو پھیلانا چاہتے ہیں، تاہم ان کے نظریات کی کامیاب کی وجہ سے ان پر زیادہ بحث نہیں کی جاتی۔ 
جب کسی قومی نظریے کی بنیاد مذہب پر ہو تو پھر اس کے پیروکار فطری طور پر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کا خدا مخالف ریاست کے خدا سے زیادہ طاقتور ہے ، چنانچہ اسی پیمانے کے مطابق ، ان کا عقیدہ مخالفین کے عقیدے سے زیادہ قابل ِ قبول ہے۔ پھر ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مخالفت عقائد والوں کو ہلاک کرنے کا جواز بھی نکل ہی آتا ہے۔ یہ بات بچپن سے ہی ہمارے ذہنوں میں ڈالی گئی ہے‘ کئی صدیوںسے ہمارا عقیدہ ہی درست اور خداکے نزدیک قابل ِ قبول ہے۔ دنیا میں کسی اور وجہ سے اتنی خونریزی نہیںہوئی ہے جتنی اس ایک وجہ سے۔ 
بھارت کے حوالے سے یہ بات عجیب دکھائی دیتی ہے کہ ایک طرف یہ ملک سائنسی طاقت کا اظہار کرتے ہوئے مریخ کے مدار میں راکٹ پہنچانے میں کامیاب ہوچکاہے تو دوسری طرف اس کی اعلیٰ ترین شخصیات ایسے نظریات کی حامل ہوں۔ تاہم ایسے عجیب و غریب عقائد رکھنے میں بھارت ہی اکیلا نہیں، بعض عرب ممالک میں دی جانے والی سزائیں بھی کسی سے کم نہیں۔ امریکہ میں لاکھوں Evangelist عیسائی یقین رکھتے ہیں کہ اُس وقت تک قیامت برپا نہیں جب تک یہودی Promised Land کی طرف واپس نہیں آجاتے۔ جب یہودی ایسا کریں گے تو خداکی مقرب قوم، Evangelist، آسمان کی طرف اٹھا لیے جائیں گے اور زمین پر یہودی اور دیگر اقوام سزا بھگتنے کے لیے رہ جائیںگی۔ امریکہ کے زیادہ تر عیسائی ''دنیا کو قیامت سے بچانے کے لیے ‘‘ اسرائیل کی حمایت کرتے ہیںکہ وہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرتے ہوئے Promised Land کی طرف جانے کا خیال دل میں نہ لائیں۔ یہ بھی ایک طرح کی ''انسان دوستی‘‘ ہی قرار دی جاسکتی ہے۔ 
وائٹ ہائوس بھی توہم پرستی اور مافوق الفطرت طاقتوںکے اثر سے محفوظ نہیں ہے۔ 1981ء سے لے کر 1989ء تک امریکہ کی خاتون ِ اول، نینسی ریگن ایک نجومی سے تواتر سے مشاورت کرتی رہتی تھیں۔ ریگن کی کابینہ کے رکن کا کہناہے کہ صدر ریگن کے دوروںکی ''کلیئرنس‘‘ بھی نجومی بابا ہی دیا کرتے تھے۔سرکاری پالیسی میں بھی ان کی توجہ شامل ِحال رہتی تھی۔ دُور کیا جائیں، ہمارے اپنے سابق صدر، زرداری صاحب، اپنے دور میں ایوان ِ صدر میں ہرروز ایک بکرا ذبح کرتے تھے۔ واقف ِحال بتاتے ہیں کہ بکرے کا کالا ہونا لازمی تھا۔ اسلام آباد کے گرد ونواح میں بہت کم کالے بکرے زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دونوں ادوار میں بے نظیر بھٹو کو کسی پیر کی رہنمائی حاصل تھی۔ پہلے دو ادوار میں نواز شریف کے سر پر بھی کسی پیر کا سایہ تھا۔ سری لنکا کے صدر مہندرا راجپاکسی بدھ مذہب کے بھکشووںسے مشورہ کیے بغیر کوئی سیاسی اقدام نہیں اٹھاتے۔ انتخابا ت کی تاریخ اور غیر ملکی دورے بھی ستاروں کی حرکت اور پوزیشن کے مطابق طے پاتے ہیں۔ 
سچی بات یہ ہے کہ جنوبی ایشیائی باشندے توہم پرست ہیں۔ وہ مافوق الفطرت طاقتوں پر پکا یقین رکھتے ہیں۔ اسلامی کتب میں بھی جنات کے متعددحوالے ملتے ہیں۔ 1980ء کی دہائی میںاسلامی معجزات پر اسلام آباد میں ایک کانفرنس کا انعقاد بھی ہوچکا ہے۔ اس میںایک پاکستان ''سائنسدان ‘‘ نے دلیل دی کہ توانائی کمی ، جس کا ہمیں سدابہار سامنا رہتا ہے، دور کرنے کے لیے جنات کی آتشیں قوت استعمال کی جاسکتی ہے۔ یقینا ضیا کے جانشینوں نے توجہ نہیں دی ورنہ توانائی کی کمی دور کرنے کے لیے ہمارے ہاں اٹھایا جانے والے سب سے اہم اقدام یہی ہوتا۔ ہماری فزکس اسی کے گرد گھومتی۔۔۔ ایک کوارٹر جن سے کتنے میگاواٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے ؟یا اگر اسے کار کی ٹینکی میں ڈالیں تو کتنے کلو میٹر ایوریج آئے گی؟
سائنس اور حقائق کے میدان میں ہونے والی پیش رفت کے باوجود ایسی قوتوں پر ہمارے یقین میں کوئی خلل واقع نہیںہوا ۔ عام آدمی کے خیال میں اچھائی اور برائی کی طاقتوںکی جنگ جسمانی اور روحانی دنیا میں جاری ہے۔ اس حوالے سے ہم نے مطلق ترقی نہیں کی ہے۔ ہم ذہنی طور پر اڑن کھٹولے اور طلسمی عقاب کی دنیا میں رہتے ہیں۔ اس پس ِ منظر کو دیکھتے ہوئے بھارتی وزیر ِ اعظم مودی کے عوامی سطح پر یہ بیان دینے پر کم از کم ہمیںکوئی حیرت نہیںہوئی کہ گنیش دیوتا کے کندھوں پر ہاتھی کا سر نصب کرنا دراصل پلاسٹک سرجری کی دنیا کا پہلا کامیاب تجربہ تھا۔ ہمارے اپنے بھی بہت سے عقائد ایسے ہی ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں