جس دوران عمران خان کی عجیب و غریب سیاسی حکمت عملی اُنہیں حقائق آشنا کر رہی ہے، ان کی سیاسی جماعت ایک ایسی کوچ کی مانند ہے جسے ایک بدکا ہوا گھوڑا کھینچ رہا ہو۔ جب میں نے سوچا کہ خان صاحب کے لیے اب اس سے بڑھ کر کوئی اور حماقت کرنا ممکن نہیں اور ان کی حماقتوں کا طویل سفر یہاں ختم ہوتا ہے تو اُنہوں نے نہایت چابکدستی سے مجھے غلط ثابت کرتے ہوئے مبینہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل انکوائری میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کو شامل کرنے کی تجویز پیش کر دی۔ یہ بات دھیان میں رہے کہ اب تک پاکستان میں جتنے بھی انتخابات ہوئے، ان خفیہ ایجنسیوں پر ان کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے الزامات لگے ہیں۔ خان صاحب کی تجویز ویسی ہے ہی جیسے... ''میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب، اُسی...‘‘۔
بعض اداروں پر لگنے والے الزامات کو بے بنیاد کہہ کر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ 1990ء کی انتخابی دھاندلی پر سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اصغر خان کی درخواست پر عدالت نے بائیس سال بعد رولنگ دی کہ آئی ایس آئی نے درحقیقت پی پی پی مخالف سیاست دانوں کے الائنس، جن کی قیادت نواز شریف کر رہے تھے، میں رقم تقسیم کی تھی۔ اگرچہ جنرل (ر) اسلم بیگ اور جنرل (ر) اسد درانی کو عدالت نے قصوروار ٹھہرایا لیکن اُن دونوں سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔ اعلیٰ افسران کے اُس واقعے میں ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں‘ اس کے باوجود عمران خان 2013ء کے انتخابات کی دھاندلی کی تحقیقات میں ایجنسیوں کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔
میں 2002ء کے انتخابات کے دوران اس حقیقت سے آگاہ ہو گیا تھا کہ بعض ادارے انتخابات پر کس غیر محسوس طریقے سے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ میرا ایک بہت قریبی دوست لاہورکے ایک حلقے سے پی پی پی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہا تھا۔ میں انتخابی مہم کے دوران لاہور میں اُس کے پاس ٹھہرا‘ تاکہ اس کی مہم میں معاونت کر سکوں۔ اس دوران، ایک اور دوست، جو اُن دنوں مشرف کا اہم مشیر تھا، نے مجھے کہا کہ میں اپنے میزبان تک ایک پیغام پہنچا دوں۔ پیغام یہ تھا کہ وہ اس حلقے کی بجائے کہیں اور سے انتخابات میں حصہ لے کیونکہ اس سیٹ پر اس کے مخالف جیت جائیں گے۔ وجہ پوچھی تو بس یہی دلیل دی کہ اس کا ''فیصلہ ہو چکا ہے‘‘۔ جب ووٹوں کی گنتی ہوئی تو میرا دوست غیر سرکاری نتائج کے مطابق جیت گیا‘ لیکن سرکاری نتائج اس کے خلاف تھے۔ ان کے مطابق مخالف امیدوار فتح مند تھا۔ اُنہی انتخابات میں یہ باز گشت بھی سنائی دی کہ کچھ اداروں کے حکام امیدواروں پر دبائو ڈال کر ان کی وفاداری تبدیل کرا رہے ہیں۔ ان کو یہ دھمکی بھی ملی کہ ان کی ٹیکس کی عدم ادائیگی اور دیگر معاملات کو اچھالا جائے گا۔
جب عمران خان کی سیاست کا ستارہ عروج پر آیا‘ تو افواہیں تھیں کہ اُنہیں خفیہ اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ پی ٹی آئی کے سابق صدر جاوید ہاشمی کے مطابق عمران کی احتجاجی تحریک کے پیچھے ''تیسر ی قوت‘‘ موجود تھی۔ یقینا ان دھرنوں کے نتیجے میں نواز شریف حکومت کمزور ہوئی اور بعض حلقوں میں اس ''پیش رفت‘‘ کو ضرور مستحسن نظروں سے دیکھا گیا ہو گا۔ اس سے پہلے خان صاحب کی عالمی تعلقات پر سوجھ بوجھ بھی منکشف ہو چکی۔ وہ افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی لائن کو روکنے پر مصر تھے۔ سب جانتے ہیں کہ اس سپلائی لائن بارے پاکستان اور نیٹو کے درمیان معاہدہ تھا۔ اس کو روکنے سے حکومت کی شرمندگی کا سامان ہوا تھا۔ اُس وقت پی ٹی آئی کے مشتعل حامیوں نے ڈرائیوروں کو زدوکوب کیا اور ٹرکوںکو نقصان پہنچایا۔
موجودہ صورت حال پر نظر ڈالیں... جنوری سے لے کر اب تک‘ فاٹا میں دس امریکی ڈرون حملے ہو چکے ہیں‘ لیکن عمران خان نے لب کشائی کی زحمت تک نہیںکی۔ مزید ''سفارتی فہم و آداب‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے اسلام آباد دھرنوں نے چین اور سری لنکا کے رہنمائوں کی آمد میں خلل ڈالا اور دوست ممالک کے قائدین نے اپنے دورے ملتوی کر دیے۔ اس سے پہلے ہم نہایت مایوسی اور افسوس کے عالم میں عمران خان کو طالبان کا غیر مشروط دفاع کرتے دیکھ چکے ہیں۔ کسی بھی اور بات سے زیادہ شمالی وزیرستان میں کیا جانے والا ناگزیر فوجی آپریشن عمران خان کی وجہ سے التوا کا شکار ہوا۔ بنیاد پرست جماعتوں کا ساتھ دے کر اُنہوں نے ملک میں انتہا پسندی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا۔ ہم فی الحال عمران خان کی ''فروغِ علم‘‘ کے لیے کی جانے والی کاوشوں سے بے خبر تھے، لیکن مجھے موصول ہونے والی ایک ای میل کچھ کہتی ہے... ''بطور ایک ٹیچر میں عمران خان کے اعلان سے خائف ہوں کہ اگر ایک مرتبہ پی ٹی آئی حکومت میں آ گئی تو وہ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم رائج کرتے ہوئے مدرسوں، سرکاری سکولوں اور انگلش میڈیم سکولوں کو ایک نصاب کے تابع کر دیںگے۔ پاکستان کے اساتذہ کو
کھڑے ہو کر اُنہیں اس حرکت سے روکنا چاہیے‘ مبادا وہ سارے نظام، جو پہلے ہی خستہ حالی کا شکار ہے، کو مکمل طور پر تباہ کر دیں۔ اُنہیں چاہیے کہ ہمارے تعلیمی نظام پر ہاتھ صاف کرنے کی بجائے اپنے بچوں کی انگلینڈ میں تعلیم پر خرچ کی جانے والی رقم سے بنی گالا میں ایک سکول قائم کریں اور یہ تجربہ وہاں کرکے دیکھیں‘‘۔
تنہائی کا شکار، عمران خان مایوس ہیں کیونکہ ان کے پیروکار حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اُن کا ساتھ چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ اگرچہ یہ مہم ظاہر کرتی ہے کہ پاکستانی معاشرے کے بڑے طبقے اصلاحات چاہتے ہیں لیکن لوگ ایسے عطائیوں کے ہاتھوں اپنی قومی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ اس معاملے میں شکوک و شبہات کے سائے مزید گہرے ہو جاتے ہیں‘ جب ہم خان صاحب کو مشکوک قسم کے افراد، جو سسٹم کو تباہ کرکے اپنی چاندی کرنا چاہتے ہیں، میں گھرا ہوا دیکھتے ہیں۔ جب وہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے، اُس وقت بھی وہ غیر لچک دار رویے کے لیے مشہور تھے۔ اگرچہ کھیل کے میدان میں ایسا چل جاتا ہے لیکن سیاست میں یہ ایک نمایاں خامی ہے۔ سیاست لچک دکھانے اور کچھ لو اور کچھ دو کا نام ہے۔ اس کے بغیر یہ نظام نہیں چل سکتا۔ اگرچہ میں عمران خان کی انتخابی نظام میں اصلاح کی حمایت کرتا ہوں لیکن اس کے علاوہ اور کوئی میدان دکھائی نہیں دیتا جہاں میں چاہوں بھی تو ان کی حمایت کر سکوں۔