پوپی کے پھولوںکا سمندر

پہلی جنگِ عظیم میںبرطانیہ اور کامن ویلتھ اور نوآبادیاتی کالونیوں سے تعلق رکھنے والے8,88, 246 فوجی ہلاک ہوئے۔ ان کی یاد میں لندن ٹاور کے اردگرد کھدی ہوئی خندق کے چاروں طرف پوپی کے اتنے ہی پھول رکھے گئے ہیں۔ ہر سال برطانیہ میںاُن بہت سے بری،بحری اور فضائی افواج سے تعلق رکھنے والے فوجیوں، جو برطانیہ کی لڑی جانے والی مختلف جنگوں میں ہلاک ہوئے، کی یاد میں Remembrance Day منایا جاتا ہے۔ ملک بھر میںپوپی کے سرخ پھولوں سے سجے ہوئے لباس دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست دان،ٹی وی اینکرز اور عام شہری اُنہیں دکھ کے اظہار کے لیے پہنتے ہیں۔ قصبوں اور شہروں کی گلیوں کے کونوں پرRoyal British Legion کے رضا کار کھڑے ہوکر راہ گیروں میںپلاسٹک اور کاغذکے پوپی کے پھول تقسیم کرتے ہیں۔ دوسری طرف راہ گیر بھی Legion کے فنڈ کے لیے رکھے گئے چھوٹے گول ڈبوں میں اپنے عطیات ڈالتے ہیں۔اس رقم سے جنگ میں حصہ لینے والے افراد اور ان کے اہل ِ خانہ کی مدد کی جاتی ہے۔ 
لندن ٹاورز کے گرد رکھے گئے 888, 246 سرخ پوپی کے پھولوں کو دیکھنے کے لیے روزانہ ہزاروں افراد آتے ہیں۔ ملکہ نے بھی اس جگہ پر آکر وطن کے لیے جان دینے والوں کو خراج ِ تحسین پیش کیا۔ حکومت نے بھی لوگوں کی تعداد کے پیشِ نظر اس جگہ سے پھول ہٹانے کی تاریخ میں اضافہ کردیا۔ اس مقصد کے لیے پوپی کے پھولوں کا انتخاب فلنڈرس، بلجیم کے پوپی کے پھولوں سے لدے ہوئے میدانوں کی علامت کے طور پر کیا گیا ہے۔ فلنڈرس کے میدانوں میں دشمن کی توپوں، ٹینکوں اور مشین گنوں کا سامنا کرتے ہوئے ہزاروں سپاہیوں نے اپنی جان قربان کی تھی۔ 
Remembrance Sundayاس دن کی یاد دلاتا ہے کہ جب برطانیہ سو سال پہلے اُس خوفناک واقعہ کا حصہ بنا، جو بعد میں پہلی جنگ ِعظیم کہلایا۔آج جب اُس وقت کو یاد کریں تو یہ بات ناقابل ِ یقین لگتی ہے کہ ایک جنگ، جس کی کوئی ٹھوس وجہ نہ تھی، میں اتنی انسانی جانیں قربان کردی گئیں۔ یہ چیز ہمیں اس بات کی یقین دہانی کراتی ہے کہ جب طبل ِ جنگ بج اُٹھتا ہے تو پھر حالات و واقعات سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔اس جنگ کے موقع پر اگرچہ جرمن Kaiserاپنی فوج کو آگے نہیں بڑھاناچاہتا تھا لیکن اس کے جنرلوں نے کہا کہ پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ہے کیونکہ Schlieffen Plan حرکت میں آچکا ہے۔ 
2014ء میں جبکہ برطانیہ کی لڑی جانے والی ''چوتھی افغان جنگ ‘‘ بھی خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے، ٹی وی اور اخبارات پر طویل بحث جاری ہے کہ اس جنگ میں کیا حاصل کیا گیا۔ اتفاق ِ رائے اس بات پر ہے کہ دور ِ جدید میں ملک کی طویل ترین جنگ میں اگر شکست نہیںہوئی تو فتح بھی حاصل نہیںہوئی۔دو حصوں پر مشتمل ایک ڈاکو منٹری، Afghanistan: The Lion's Last Roar? میںجنرلوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی افواج اس طویل اور خونریز جنگ کے لیے تیار نہیں تھیں۔ ایک امریکی ماہر کا کہنا تھا کہ افغان جنگ برطانیہ کی سمندر پار آخری اہم جنگ ثابت ہوگی۔ برطانیہ کے دوتہائی شہریوں کے مطابق یہ جنگ اس قابل نہیں تھی کہ اس میں اتنے انسانی اور مالی وسائل صرف کر دیے جاتے۔شام میں کارروائی کرنے کے ایشو پر پارلیمنٹ میں ڈیوڈ کیمرون کو ہونے والی شکست سے اس حقیقت کی غمازی ہوتی ہے کہ برطانیہ میں بیرونی ممالک میںجنگ کے لیے فوجی دستے بھجوانے کی حمایت موجود نہیں۔ 
جب میں افغانستان میں ہونے والی ہلاکتوں کا پہلی جنگ ِ عظیم میں ہونے والی بہت زیادہ ہلاکتوںسے موازنہ کرتا ہوں تو میرے دل کو عجیب سا احساس گھیر لیتا ہے کہ ایک صدی کے دوران رویوں میں کتنی تبدیلی آگئی ہے ۔ اب ہلاک ہونے والے ہر سپاہی کے تابوت کو بہت سنجیدہ فضا میں لے جایا جاتا ہے جبکہ سینکڑوں افراد سوگوار انداز میں گلیوںمیں قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ قومی ٹی وی پرہلاک ہونے والے سپاہی کے اہل ِ خانہ کو دکھایا جاتا ہے جبکہ تمام میڈیا اُس کے جنازے کو کور کرتا ہے۔ ہلاک ہونے والے افراد میںسے ہر ایک کی ذاتی حیثیت کو اجاگر کیے جانے کے عمل نے اہل ِ برطانیہ کو اس بات کا شدت سے احساس دلادیا ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے دوردراز خطوں میں لڑی جانے والی جنگوں میں اُنہیں جان دینے کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ عراق جنگ کے بار ے میں اپنے ہم وطنوں سے ٹونی بلیئر کے جھوٹ نے بھی عوام کا سیاست دانوں پر سے اعتماد متزلزل کردیا ۔ اُنہیں احساس ہوچکا ہے کہ نہ تو عراق اور نہ ہی افغانستان سے برطانیہ کو براہ ِراست خطرہ تھا۔ اس کے باوجود ان کے سیاست دانوں نے اُنہیں بے مقصد جنگوں میں جھونک دیا۔ چنانچہ اب بیرونی ممالک میں لڑی جانے والی جنگوں کے لیے برطانوی فورسز کی شمولیت کے لیے عوام کی حمایت کا ملنا مشکل امرہوگا۔ اس لیے اب برطانوی سیاست دانوں کو کسی مقصد لیے کسی مہم جوئی میں کودنے سے پہلے سو مرتبہ سوچنا پڑے گا۔ 
گزشتہ تیرہ برس کے دوران افغان جنگ کی ہولناکی سے جو کچھ بھی حاصل کیا گیا ہے وہ نقصان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ اس کے علاوہ حاصل کردہ مقاصد بہت مبہم اور کمزور ہیں۔ جنگ زدہ افغانستان سے آنے والی خبریں ظاہر کرتی ہیں کہ طالبان ہلمند اور دیگر صوبوں میں اپنی گرفت مضبوط کررہے ہیں۔ ان علاقوں میں طالبان جنگجووں اور ایساف کے دستوں میں بہت خونریز جھڑپیں ہوئی ہیں۔ افغانستان پر حملے کے فوراً بعد ٹونی بلیئر وہاں تعینات برطانوی دستوںسے ملنے گئے اور افغان رہنمائوں کو یقین دلایا کہ ماضی کی طرح وہ اُن کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ تاہم آج ہم دیکھتے ہیںکہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ 2001 سے لے کر اب تک اس جنگ میں ہزاروں جانیںاور اربوں ڈالرصرف کردینے کے بعد ہم سن رہے ہیں کہ طالبان واپس آرہے ہیں اور یہ کہ ملک کے بہت سے حصے طالبان کے قبضے میں آبھی چکے ہیں۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ ملک میں جمہوری عمل شروع ہوچکا ہے جبکہ کچھ مقامات پر لڑکیوں کی تعلیمی سرگرمیاںبھی دکھائی دے رہی ہیں لیکن اس کام کے لیے اربوں ڈالر استعمال ہوئے ہیں اور اس دوران بہت سے مواقع بھی ضائع ہوئے۔ 
برطانوی فوج کولگنے والا ایک دھچکا یہ ہے کہ اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا کیونکہ بصرہ اور ہلمند ، دونوں مقامات پر تعینات برطانوی دستوں کے بچائو کے لیے امریکی افواج کو آنا پڑا۔ ان دونوں جنگوںسے پہلے برطانوی افواج کو دورداز کے مقامات، جیسا کہ ملائیشیا، نائیجریا، کینیا اور آئرلینڈ میں کارروائیاں کرنے کے تجربے اور جنگی مہارت پر بہت ناز تھا لیکن مختلف ماحول میں مختلف قسم کے دشمن کا سامنا کرنے نے اُن کی جنگی صلاحیت کا بھرم چاک کردیا۔ 
اب تک امریکیوںکا بھی جنگ سے دل بھر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں ممالک شام اور عراق میں داعش کے خلاف زمینی دستے اتارنے کے حق میں نہیں۔ اس وقت صرف امریکی طیارے داعش پر بمباری کررہے ہیں، برطانیہ نے ابھی تک اس مہم میں حصہ نہیں لیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں حالات اُنہیں مجبور کردیں کہ فوجی دستے اتارے بغیر کوئی چارہ نہیں۔اگر ایسا ہوا توعوام کو قائل کرنے کے لیے سیاست دانوں کو بہت ہی مضبوط جواز پیش کرنا ہوگا۔ اگر اب تک سیاست دان یہ سیکھ چکے ہیں کہ طاقت کا استعمال پہلا آپشن نہیں ہوتا، تو اس کا مطلب ہے کہ ان تیرہ سالوں کی خونی جنگ نے اُنہیں کچھ تو سکھایا اور اب تک یہی واحد مثبت پیش رفت دکھائی دیتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں