اشتہارات کی زبان

گاہے بگاہے کوئی اشتہار میری توجہ اپنی طرف کھنچ لیتا ہے۔ اس میں کوئی نہ کوئی پُرمعنی بات ہوتی ہے‘ جس کی وجہ سے میں بے اختیار اُس کی طرف کشش محسوس کرتا ہوں۔ کراچی میں حالیہ دنوں ایک بل بورڈ پر ایک اشتہار دکھائی دیا جس پر پورا جملہ انگریزی زبان میں ہے‘ لیکن لکھنے والے نے hair کی بجائے اردو لفظ ''بال‘‘ استعمال کیا ہے۔ میں بھی نستعلیق زبان پر اصرار نہیں کرتا اور مجھے تحریر اور گفتگو میں مختلف زبانوں کے الفاظ استعمال کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا کیونکہ اردو بذات خود عربی، فارسی، ترکی اور ہندی الفاظ کا مرقع ہے۔ الفاظ کا یہ ملاپ مغل فوج کے کیمپس میں عمل میں آیا‘ جہاں مختلف خطوں سے آنے والے تاجر آپس میں ملتے اور باہم گفتگو کے لیے الفاظ کا ملاپ ہوتا دکھائی دیتا۔ درحقیقت لفظ ''اردو‘‘ ترکی زبان کے لفظ ''Ordu‘‘سے نکلا ہے۔ اس کا مطلب مسلح افراد کا لشکر ہے۔ 
چنانچہ ان افراد‘ جو اردو میں دیگر زبان کے الفاظ کی ملاوٹ پر ماتم کناں ہیں، کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس زبان کا وجود ہی ''ملاوٹ‘‘ پر مبنی ہے۔ اب واپس اشتہار میں استعمال ہونے والے الفاظ پر غور کریں کہ لکھنے والے نے hair کی بجائے ''بال‘‘ کیوں لکھا؟ کچھ تفکر کیا تو اندازہ ہوا کہ اگر اشتہار میں بال کی بجائے hair لکھا ہوتا تو یہ اشتہار مجھے اپنی طرف نہ کھینچتا۔ یقینا اشتہار کا مقصد نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے، چنانچہ یہ اشتہار اپنا مقصد پورا کر رہا تھا۔ 
افسوس، پاکستان میں بہت کم اشتہار طنز و مزاح کی چاشنی اور الفاظ کا برمحل اور برجستہ استعمال لیے ہوئے ہوتے ہیں؛ چنانچہ ان کی طرف عوام کو مطلق کشش محسوس نہیں ہوتی۔ درحقیقت وہ بے کیف اور بور کرنے والے ہوتے ہیں، اس لیے فوراً ہی حافظے سے اتر جاتے ہیں۔ حال ہی میں کراچی میں ہونے والی دفاعی ساز و سامان کی نمائش IDEAS (International Defence Exhibition and Seminar) کا ماٹو خاصا الجھا ہوا تھا۔۔۔ ''ہتھیار برائے امن‘‘۔ کیا اس ماٹو کے خالق نے جان بوجھ کر یہ تضاد اجاگر کر کے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی یا پھر اُس سے نادانستگی میں آگ اور پانی کا ملاپ ہو گیا تھا؟ ہمیں شاید کبھی بھی اس کا احساس نہ ہو سکے گا‘ لیکن اس میں جارج اورول کے ناول 1984ء کی طرح مستقبل کے امکانات کو ظاہر کیا گیا ہے۔ 
درحقیقت اشتہارات الفاظ، آوازیں اور اشکال استعمال کرتے ہوئے کسی خیال کو عوام تک پہنچاتے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے بھارتی انتخابات میں بی جے پی نے ایک مختصر مگر بہت معنی خیز اشتہار ٹی وی پر چلوایا۔ نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ کے لیے چلائے گئے اس اشتہار کی زبان سادہ اور انگریزی اور ہندی کا امتزاج یعنی ''Hinglish‘‘ تھی۔ سیاسی اشتہارات اُسی وقت مفید ثابت ہوتے ہیں جب لوگ کھلا ذہن رکھتے ہوں، لیکن جب اُن کا ذہن بند ہو، یا اُن کے سیاسی تصورات جامد ہوں‘ تو سیاسی تشہیر کا الٹا نقصان ہو جاتا ہے۔ 
موجودہ حکومت نے عمران خان کے خلاف اشتہار چلا کرکے تیس نومبر کو ہونے والا جلسہ روکنے کی کوشش کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ عمران کے حامیوں نے اس کا کوئی اثر نہ لیا بلکہ اس سے ایک منفی تاثر بھی ابھرا کہ اس کے لیے رقم ملکی خزانے سے لی جا رہی ہے۔ اس الزام نے حکومت کو دفاعی قدموں پر لا کھڑا کیا اور اُسے وضاحت کرنا پڑی کہ پی ایم ایل (ن) کے حامیوں کی طرف سے دیے جانے والے فنڈز سے مدد لی گئی ہے اور یہ کہ اس سے ملکی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں پڑا۔ 
کمرشل پیغامات کسی معاشرے کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اردو اخبارات اور رسائل میں ایسی کریموں کے بہت سے اشتہارات ہوتے ہیں جو راتوں رات رنگ گورا کر سکتی ہیں۔ افریقی ممالک کے جرائد اور اخبارات میں ایسے لوشنز کے اشتہارات ہوتے ہیں جو الجھے ہوئے گھنگھریالے بالوں کو راتوں رات سیدھا کر سکتے ہیں۔ یقینا لوگ اپنی شباہت کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ وہ ویسا دکھائی دینا چاہتے ہیں جس کا مثالی تصور اُن کے ذہن میں اجاگر کیا گیا ہو۔ جنوبی ایشیا میں سفید رنگ کو حسن کی علامت سمجھا جاتا ہے، اس لیے لڑکیاں اپنی جلد کا رنگ صاف کرنے کے لیے ہر ممکن جتن کرتی ہیں۔ کاروباری ادارے اس خواہش کا فائدہ اٹھا کر اپنی اشیا فروخت کر لیتے ہیں۔ مشرق بعید میں خواتین سرجری کے ذریعے خوبصورتی حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ وہ اپنی ناک کو سیدھا اور آنکھوں کو قدرے بڑا کرانے 
کے لیے جراحت کا سہارا لیتی ہیں۔ یہ بہت ہی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے، لیکن اشتہاری کمپنیاں اس کی اتنی موثر تشہیر کرتی ہیں کہ خواتیں کو اپنی ناک سیدھا کراتے ہی بنتی ہے۔ 
کراچی میں ایک اشتہار دیکھ کر ہنسی آجاتی ہے۔ یہ سرخ رنگ کے ایک مشروب کے بارے میں ہے۔ بچپن میں اس میٹھے اور پھولوںکی خوشبو رکھنے والے مشروب کو پی کر جوان ہونے کے بعد اب اس کے استعمال کا تصور بھی لب و دہن میں ضرورت سے زیادہ شیرینی بھر دیتا ہے؛ تاہم بچے آج بھی اس کا سرخ رنگ اور اس پر بنے ہوئے پھول اور پھل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور اسے پینے کی طلب رکھتے ہیں۔ ویسے دنیا میں اور سرخ مشروب بھی بہت اعلیٰ ہیں، اس لیے کسی ایک مشروب کو سرخ مشروبات کا بادشاہ قرار دینا زیادتی ہے۔ بہرحال اُن مشروبات کا پاکستان میں تذکرہ بھی نہیں ہو سکتا... استعمال ہوتا رہتا ہے۔ ایک مشروب کے اشتہار میں ایک آدمی ٹوٹی ہوئی بوتل کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ نے کبھی کسی جوان آدمی کو روتے ہوئے دیکھا ہے؟ برطانیہ میں اشتہارات طنزیہ لہجہ لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ امریکی اشتہارات میں جارحانہ پن نمایاں ہوتا ہے۔ اگر داعش کے اشتہارات ہوں تو اُس میں سیاہی اور سرخی نمایاں ہو گی لیکن یہ سرخی رنگوں کی نہیں ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں