زہر کی فصل

ایک پرانے محاورے کے مطابق‘ اگر آپ اپنے باغ میں سانپوں کو رہنے کی اجازت دیں‘ تو پھر اس بات پر حیران نہ ہوں کہ انھوں نے آپ کو کیوں کاٹا ہے؟۔ ہمارا حال قدرے مختلف ہے۔ کئی برسوں سے زہریلے سانپوں سے خود کو پیہم کٹوانے کے بعد ہم ان کے زہر کو برداشت کرنے کے قابل ہو چکے ہیں؛ تاہم کبھی کبھار کوئی بہت ہی زہریلا ناگ ہمیں انتہائی تکلیف دہ ڈنک مارتا ہے تو ہم بلبلا اٹھتے ہیں۔ اس کے بعد باغ کو ان سانپوں اور سنپولیوں سے پاک کرنے کے لیے چیخ پکار شروع ہو جاتی ہے‘ لیکن جیسے ہی ڈنک کی تکلیف ذرا کم ہوتی ہے تو ہماری روایتی تساہل پسندی اور غفلت شعاری ''امن‘‘ کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے سامنے آن موجود ہوتی ہے۔ ہم چلاّنے لگتے ہیں کہ یہ ہمارے اپنے سانپ ہیں اور ہم ان بھٹکے ہوئے بچوں کو بات چیت کے ذریعے راہ راست پر لا سکتے ہیں۔ ان کی شرارتوں... یہی کچھ پچاس ساٹھ ہزار افراد کو ہلاک کرنا... کی وجہ دراصل ڈرون حملے ہیں اور جب ایک مرتبہ یہ فتنہ پرور امریکی ہمارے پیارے ہمسائے کی سرزمین سے رخصت ہو جائیں گے‘ تو ان بگڑے ہوئے بچوں کی شرارتیں بھی تھم جائیں گی۔ اس کے علاوہ ہمیں اُن سانپوں کو مارنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں‘ جو ہمارے ہمسایوں کو کاٹتے ہیں۔ 
اگرچہ ہماری سیاسی جماعتوں نے پشاور کے ایک سکول میں معصوم بچوں کے قتل کی مذمت کی ہے، مجھے خدشہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر ماضی کو دہرایا جائے گا۔ اگرچہ ہم اپنے سفاک دشمن کی بربریت کو دیکھ چکے ہیں لیکن خاطر جمع رکھیں، بہت جلد سانپوں کے ہمدرد اپنی اپنی کمین گاہوں سے نکل آئیں گے۔ ایک صاحب نے ایک ٹی وی چینل پر بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پشاور میں ہونے والی خونریزی کا ذمہ دار بھارت ہے۔ ایسا کہتے ہوئے وہ یقیناً طالبان کا دفاع کر رہے تھے۔ 
کئی برسوں سے ہم مختلف قسم کے انتہا پسند گروہوں کو اپنی سرزمین پر پھلنے پھولنے اور ریاستی اداروں اور عام شہریوں پر حملے کرنے کے مواقع دے رہے ہیں۔ ان دہشت گرد تنظیموں کو نہ کوئی ڈر ہے اور نہ کوئی خوف۔ ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سات برسوں میں دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے دو ہزار کے لگ بھگ دہشت گردوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ایک اور موقع پر دو سو سات میں سے صرف دس دہشت گردوں کو سزا دی گئی۔ چلیں نہ ہونے سے کچھ تو ہوتا دکھائی دیا۔ ایک ایسے شخص کو بھی تین کیسوں میں بری کر دیا گیا‘ جس پر سو سے زائد مختلف مسالک کے افراد کے قتل اور 2010ء میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ 
دہشت گردوں کو رہا کرنے کی وجہ چاہے ان کا خوف ہو، ان سے ہمدردی ہو یا محض نااہلی، حقیقت یہ ہے کہ ایسے قاتل رہائی پانے کے بعد مزید دہشت پھیلاتے ہیں۔ غالباً ابھی تک اُن افراد کو بھی سزا نہیں دی جا سکی‘ جن پر 2008ء کے ممبئی حملوں کا الزام تھا۔ ایسے معاملات تقریباً ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے سیاسی طبقے میں طالبان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ کئی برسوں سے کئی سیاست دان طالبان کی دہشت گردی کا جواز پیش کرتے رہے ہیں۔ بعض ادارے اور افراد بھی بہت دیر تک اچھے طالبان اور برے طالبان کے درمیان فرق کی الجھن میں رہے۔ یہ سمجھا گیا کہ برے طالبان وہ ہیں جو پاکستانی شہریوں اور ریاست کو نشانہ بناتے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ہماری قیادت اس مخمصے سے نکل آئی ہے اور قبائلی علاقوں میں تمام انتہا پسندوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جا رہی ہے؛ تاہم فوج کو غیر متزلزل سیاسی پشت پناہی درکار ہے۔ ایسی جنگ عوام کے تعاون کے بغیر یعنی اکیلے نہیں لڑی جا سکتی۔ 
دنیا کے کچھ دوسرے ممالک بھی دہشت گردی کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں لیکن وہاں عوام اور سیاسی جماعتیں اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہیں۔ ان میں کم از کم اس مسئلے پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں، حالانکہ دنیا کے کسی اور ملک نے دہشت گردوںکے ہاتھوں اتنے زخم برداشت نہیں کیے‘ جتنے ہم نے کیے۔ ان کی وجہ سے ہماری سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں لیکن ہماری صفوں میں ان کے بارے میں شدید ابہام پایا جاتا ہے۔ یہ کوئی کنفیوژن کی بات نہیں کہ ہمارے ہاں ان گنت ادارے اور کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتیں ان جہادیوں کو رضاکار اور معاونت فراہم کرتی ہیں۔ ان کو ایک طرف رکھیں کیونکہ ان کے مقاصد کسی سے اوجھل نہیں، لیکن پاکستانی معاشرے کے لیے اس خطرے سے چشم پوشی کرنا خود کشی کے مترادف ہو گا۔ 
ہو سکتا ہے کہ فوج ان انتہا پسندوں کے قبائلی علاقوں میں موجود کیمپوں اور ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن یہ ان قاتلوں کے نظریاتی حامیوں، جو ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوںکی حمایت سے تیارکردہ ایک جامع پالیسی بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ مختلف طریقوں سے نفرت کا زہر اگلنے کا سلسلہ بند کیا جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں ضروری ہے کہ تعلیمی نصاب سے تعصب پر مبنی نفرت انگیز مواد کا خاتمہ کیا جائے اور مدرسوں کو مکمل طور پر تبدیل کیا جائے۔ اس کے لیے دینی جماعتوںسے مشاورت کی ضرورت نہیں، سیاسی قائدین کو دوٹوک اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے تھا کہ وہ پشاور میں سیاست دانوں کے سامنے یہ ایجنڈا رکھتے، نہ کہ ان سے مشاورت طلب کرتے، لیکن انہوں نے اپنے کندھوں سے ذمہ داری اتار پھینکتے ہوئے ایک کمیٹی قائم کر دی‘ جس نے کہیں سات دن بعد سفارشات مرتب کرنا ہیں۔ سات دن؟ ہم ایسا پچیس سال میں بھی نہیں کر پائے ہیں حالانکہ ہم نے اس مسئلے پر لامتناہی اجلاس اور کانفرنسیں بلا کر دیکھ لی ہیں۔ اس وقت بھی حکومت کے سامنے نیشنل انٹرنل سکیورٹی کی رپورٹ موجود ہے، اس لیے تاخیر کا کیا جواز ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پشاور میں ہونے والی دل خراش خونریزی کے بعد بھی سیاسی قیادت کو طالبان کے خلاف کھل کر کارروائی کرنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا؛ تاہم فیصلے کا وقت آن پہنچا ہے‘ شاید ہمارے پاس ریت میں سر دبا کے خود کو محفوظ سمجھنے کی عیاشی کے دن ختم ہو چکے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں