مظلوم کو مورد ِ الزام ٹھہرانا

ذرا تصور کریں کہ کسی شخص کو ایک طاقتور پہلوان نے جکڑا ہوا ہو جبکہ اس کا معاون اُس لاچار شخص کو ٹھوکریں مار رہا ہو۔ اگر وہ اس زدوکوب کی شکایت کرے اور پولیس کے پاس رپورٹ درج کرانے کی دھمکی دے تو اُسے بتایا جائے کہ پھر اُس کا حشر مزیدخراب کیا جائے گا۔ فلسطینیوں کو اسی صورت ِحال کا سامنا ہے۔ کئی عشروں سے جبر سہنے کے بعد جب اُنھوں نے یواین سکیورٹی کونسل کے پاس درخواست دی تاکہ ان کی سرزمین سے اسرائیلی غاصبانہ قبضے کا خاتمہ کرنے کے لیے ڈیڈلائن دی جائے تو اُنہیں اسرائیل کے سرپرست ِ اعلیٰ ،امریکہ ، کی طرف سے دھمکی ملی کہ وہ ایسی جسارت کرنے سے باز رہیں۔ جب فلسطینی حکام نے قدم آگے بڑھایا تو واشنگٹن نے اپنی تمام تر سفارتی طاقت استعمال کرتے ہوئے سکیورٹی کونسل کے ارکان پر دبائو ڈالا کہ وہ یا تو اس تحریک کی مخالفت کریں یا رائے دینے سے گریز کریں۔ آخری نتائج کے مطابق فلسطین ایک ووٹ کے فرق سے ناکام رہا ۔ 
اس شکست کے بعد فلسطینی حکام نے انٹر نیشنل کریمنل کورٹ اور دیگر بہت سے عالمی اداروں میں درخواستیں دیں۔ اس پیش رفت نے بھی اوباما انتظامیہ اور نتن یاہو حکومت کو ناراض کردیا ۔ اُنہیں خدشہ ہے کہ فلسطینی حکام مغربی کنارے پر غیرقانونی آباد کاری اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جبرکی، جو عالمی عدالت انصاف کی رولنگ کی کھلی خلاف ورزی ہے، شکایت درج کرا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ حالیہ فوجی کارروائی میں اسرائیل کے ہاتھوں دوہزار کے قریب شہریوں کی ہلاکت کی شکایت بھی درخواست میں شامل کرلی جائے۔ 
اگر چہ اسرائیل انٹر نیشنل کریمنل کورٹ کی رولنگ کو نظر انداز کردے گا، لیکن جب اس کے افسران اور سیاست دان بیرونی ممالک کے دورے پر جائیں گے تو ان کی گرفتاری کے لیے جاری کردہ انٹر نیشنل وارنٹ ان کے لیے گمبھیرمسئلہ ہوں گے۔ فلسطینیوں کے بارے میں روا رکھی جانے والی پالیسیوں کی وجہ سے اسرائیل کو پہلے ہی عالمی تنہائی کا سامنا ہے۔ کئی ایک یورپی ممالک نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے ووٹ دیا ۔ اگرچہ یہ پارلیمانی ووٹ بڑی حد تک ''بے ضرر‘‘ ہوتے ہیں لیکن ان سے ظاہرہوتا ہے کہ اسرائیل کو عالمی سطح پر اخلاقی اور نفسیاتی دبائو کا سامنا ہے۔ اسرائیل کے لیے حالیہ دھچکا یورپی یونین کا وہ فیصلہ ہے ،جس کے مطابق حماس کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا جائے گا۔ 
اگر یکے بعد دیگرے مختلف اسرائیلی حکومتوں کو امریکہ کی طرف سے وافر مقدار میں ہتھیار، رقم اور غیر مشروط سفارتی مدد نہ ملتی تو عین ممکن ہے کہ اب تک اسرائیل حقائق کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ پرامن معاہدہ کرنے پر مجبور ہوچکا ہوتا۔ تاہم امریکی ''بلینک چیک‘‘ نے تل ابیب کو جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے جبر کرنے کے قابل بنادیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ابھی تک، جبکہ وہ عالمی تنہائی کاشکار ہے، وہ اپنا غاصبانہ قبضہ چھوڑنے اورغیر قانونی تعمیرات روکنے کے لیے تیار نہیں۔ اور تو اور، معتدل مزاج اسرائیلی بھی شکایتی انداز میں کہتے ہیں کہ امریکی حمایت اور تعاون کی وجہ سے نتین یاہو اور دائیں بازو کو تقویت ملی ہے۔ اس بات کو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ملک کے جارحانہ رویے کی ایک بڑی وجہ یہی امریکی حمایت ہے۔ 
اس دوران محمود عباس بھی ایک الجھن کا شکار ہیں۔ اُنھوں نے اپنی کمزور ہوتی ہوئی سیاسی پوزیشن کا زیادہ تروقت بے مقصد بیانات میں گزار دیاجبکہ اس دوران اسرائیل کو مغربی کنارے پر مزید آبادیاں تعمیر کرنے کا موقع مل گیا۔ آخر میں محمود عباس جس نتیجے پر پہنچ پائے ہیں، وہ یہ ہے کہ امریکہ تل ابیب پر کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے دبائو نہیں ڈالے گا۔ اسرا ئیل کو امن اور زمین، دونوں کی ضرورت ہے اور اسرائیلی سیاست دانوں نے کئی برسوں سے یہ فن سیکھ لیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ بے معنی پرامن مذاکرات جاری رکھتے ہوئے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرتے رہیں جبکہ اس دوران وہ زمین پر قبضے کی مہم جاری رکھیں۔ 
اس وقت مغربی کنارے پر پانچ لاکھ کے قریب آباد کار ہیں۔ وہ اب کہیں نہیں جائیں گے۔ اگر زمین کے تبادلے پر راضی ہوبھی جائیں تو بھی اس فلسطینی ریاست کا منصوبہ اپنی موت مرچکا ہے۔ اس لیے دونوں طرف سے حقیقت پسند افراد کا کہنا ہے کہ ایک ایسی ریاست قائم کرلی جائے جس میں یہودی، مسلمان اور عیسائی مل کر رہ سکیں۔ تاہم جب اسرائیل میں عرب نسل کے اسرائیلی شہریوں سے دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک کیا جاتا ہو تویہ بات سوچنا حماقت ہوگی کہ اسرائیلی فلسطینیوںسے اچھا سلوک کریں گے۔ اس کے علاوہ ایک ریاست میں آباد ہونے سے یہودیوں کو بھی خطرے کا سامنا ہوگا کیونکہ بہت جلد فلسطینیوں کی تعداد اُن سے زیادہ ہوجائے گی۔ اس لیے یہ حل کم از کم اسرائیلیوں کے لیے قابل ِ قبول نہیںہوگا۔اس کے علاوہ اگر فلسطینیوں کو اسرائیل کے اندر نسلی امتیاز کا سامنا کرتے ہوئے رہنا پڑا تو دنیا کو جنوبی افریقہ کی کہانی دہراتے ہوئے دکھائی دے گی۔ یقینا عالمی ضمیر ایک اور ''جنوبی افریقہ ‘‘ کے لیے تیار نہیں ہے۔ 
اس طرح اسرائیل کے سامنے مسلہ یہ ہے کہ وہ مغربی کنارے پر موجودبھی رہے اور ایسا تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے پرامن مذاکرات کرنے میں دلچسپی لیتا ہے۔ جہاں تک نتین یاہو اور ان کے پیش رو حکمرانوں کا تعلق ہے، تو اُنھوں نے مزید آبادیاں قائم کرنے کے مقصد کو مقدم رکھا ہے تاکہ فلسطینی کسی سمجھوتے پر تیار ہونے کے قابل ہی نہ رہیںاور وہ (اسرائیلی) شکایت کرسکیں کہ فلسطینی امن کے لیے تیار ہی نہیں۔ اب تک مغربی کنارے پر اسرائیلی سڑکوں اور آبادیوں کا گھنا جال بچھ چکا ہے۔ یہاں ہونیو الی ہر حرکت کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔ 
جس دوران اسرائیل کو امریکہ اور دیگر مغربی ریاستوں کی حمایت حاصل رہی ہے، فلسطینیوں کی معاونت کے لیے کوئی اسلامی ریاست آگے بڑھتی دکھائی نہیں دی۔ زیادہ مسلمان ممالک نے صرف زبانی جمع خرچ کو ہی حمایت کا متبادل سمجھا ۔ مزید یہ کہ جنرل سیسی کی حکومت میں مصر ،فلسطین کے ساتھ دشمنی پر اتر آیا اور اُس سرنگ کو بند کردیا جس سے غزہ کی پٹی کے لیے رسد پہنچا ئی جاتی تھی۔ کچھ دولت مند عرب ریاستوں نے تباہ شدہ بستیوں کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ اس کی پاسدار ی کرنے میں ناکام ہوئیں۔ نائیجریا جیسے ممالک نے، جن کے پاس سکیورٹی کونسل کی عارضی رکنیت ہے، خود کو ملنے والی امداد کے وعدے پر ووٹ دینے سے گریز کیا۔ اس طرح فلسطین کی ابتلا و آزمائش ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں