سپرمین کا انتظار

بہت سی ذی فہم آوازوں نے دہشت گردوں پر مقدمات چلانے کے لیے آئینی ترمیم کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو درکار کور (Cover) فراہم کرنے کی مخالفت کی۔تاہم جب ہم کسی قانون یا کسی پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں تو ہمارے پاس تجویز کرنے کے لیے اس کا متبادل بھی ہونا چاہیے۔ اب دیکھیں کہ ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کو خون میںنہلانے والے جہادی گروپوں سے نمٹنے کے لیے یہ کیا تجویز پیش کرتے ہیں؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی موجودہ عدالتی نظام کو توانا ، پولیس کو مستعداور مجرموں کو سزا دینے کے عمل کو بہتر بنانا ہوگا۔واقعی؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟حقائق کی یاددہانی کے لیے کچھ اعدادوشمار پیشِ خدمت ہیں: اس وقت پاکستانی عدالتوں میں تیس لاکھ سے زائد کیسز التوا کا شکار ہیں۔ صرف سپریم کورٹ میں ہی بیس ہزار سے زائد کیس موجود ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں زیر ِ التوا کیسز کی تعداد ساڑھے بارہ ہزار کے قریب ہے جبکہ پنجاب بھر کی عدالتوں میں نولاکھ کے قریب کیسز التوا میں ہیں۔ کیا محترم جج صاحبان سے اوورٹائم لگوانے کا ارادہ ہے؟
دہشت گردی، بھتہ خوری اورا غوابرائے تاوان سے متعلق کیسز کا فیصلہ کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔ اصل قانون کے مطابق یہ طے کیا گیا تھا کہ ان عدالتوں میں روزانہ کی بنیادپر سماعت کرتے ہوئے سات دن کے اندر اندر مقدمے کو نمٹایا جائے گا۔ سندھ میںقائم شدہ 
انسدادِ دہشت گردی کی 33عدالتوں نے گزشتہ سال 255 مجرموں کو سز ا سنائی جبکہ 543 کو بری کر دیا۔ ان میں سے آٹھ عدالتوں نے پیش ہونے والے ہر ملز م کو بری کردیا۔ اس وقت ان خصوصی عدالتوں میں بھی 2,697 کیسز التوا میں ہیں۔ 
پاکستان میں عدلیہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور اس کا دائرہ کار بڑھانے کے لیے ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے350 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا لیکن اس کی افسوس ناک کارکردگی میں ذرہ برابر اضافہ نہ ہوا۔ میں جانتا ہوں کہ اس کا م کے لیے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں ،جج حضرات اور وزارت ِ قانون کے افسران کو بیرونی ممالک کے ''سٹڈی ٹورز‘‘ کرائے گئے لیکن میں نہیں جانتا کہ یہ اقدامات ہمارے عدالتی نظام میں بہتری لانے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں۔ جس دوران ان پر کام کا دبائو بڑھتا رہا، ہماری اعلیٰ عدلیہ نے بات بات پر سووموٹو ایکشن لینے، توہین کے نوٹس بھیجنے اور سیاسی کیسز کے حوالے سے میڈیا میں بلاناغہ بیانات دینے کی پالیسی اپنائے رکھی۔ کسی بھی چیف جسٹس کے امور میں شامل ہے کہ وہ ماتحت عدلیہ کی کارکردگی بڑھانے کی طرف توجہ دے، تاہم سابقہ چیف جسٹس نسبتاً غیر اہم معاملات پر ایگزیکٹو کو الجھائے رکھنے میں اپنی پوری توانائی صرف کرتے دکھائی دیئے۔ 
سوات کے شہریوں کی طرف سے ابتدائی ایام میں ، جب تک ان کا اصل چہرہ عیاں نہیں ہوا تھا، طالبان کا خیر قدم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ فوری انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے تھے۔ تاہم جب فضل اﷲ کی سربراہی میں طالبان نے اپنے دشمنوں کے سرقلم کرنااورحکومت کے اہل کاروںکو ہلاک کرنا شروع کردیا اور جب ایک نوجوان لڑکی کو سڑک پر لٹا کر کوڑے مارنے کی مبینہ ویڈیو منظرِ عام پر آئی تو رائے عامہ ان کے خلاف ہوگئی اور فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ تاہم اُس وقت بھی بہت سے طالبان کو رہا کردیا گیا حالانکہ اُنہیں رنگے ہاتھوں حملے کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ 
میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ ہماری عدلیہ بے لاگ اور جاندار ہو، لیکن اگر کھل کر بات کریں تو کہنا پڑے گا مستقبل قریب میں ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اس دوران ہم نے ایسے جہادیوں سے نمٹنا ہے جن کے نزدیک ہر سفاکی روا ہے ۔ ان کے پاس شہریوں ، بلکہ معصوم بچوں کا خون بہانے کا بھی ایک سے ایک بڑھ کر جواز موجود ہے۔ عدالتوں میں ہونے والی روایتی تاخیر کے علاوہ، جن دہشت گردوں کو سکیورٹی فورسز گرفتار کرتی ہیں، ان کی طرف سے جج حضرات اوران کے خلاف پیش ہونے والے وکلا کو حقیقی خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اکثر اوقات گواہوں کو عدالت میں پیش ہونے سے روک دیا جاتا ہے اور دھمکی دے کر ججوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مشتبہ افراد کو چھوڑ دیں۔ اس کے علاوہ جیل کے نظام میں بھی بہت سی خامیاں ہیں۔ ہم نے ماضی قریب میں دیکھا ہے کہ دہشت گرد جیل توڑ کر اپنے ساتھیوں کو چھڑوا کرلے گئے۔ کچھ دہشت گرد عدالتوںسے بھی فرار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ایسے کیسز کے لیے آئوٹ آف باکس حل تلاش کرنے کی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ 
ایک تشویش یہ ہے کہ فوجی عدالتیں ہوسکتا ہے کہ بے گناہ شہریوں کو سزا سنادیں کیونکہ ایسی عدالتوں میں بے گناہی ثابت کرنے کا بوجھ ملزم پر ہوتا ہے۔ سویلین کورٹس میں ریاست جرم ثابت کرتی ہے،لیکن ناقص نظام کی وجہ سے تاخیر بھی ہوجاتی اور بہت سے دہشت گرد اور مجرم رہا بھی ہوجاتے ہیں کیونکہ سول عدالتیں بہت اعلیٰ معیار کی گواہی کو ہی قبول کرتی ہیں۔ تاہم جب ہمیں ایک ایسے وحشی دشمن سے واسطہ ہے جو ہماری جان کے درپے ہے تو ہمارے پاس اتنا موقع نہیں کہ آئین اور قانون کی نزاکتوں کو ملحوظ ِخاطر رکھنے کے لیے اپنے ہاتھ باندھ لیں تا کہ وہ ہمارے سر قلم کر ڈالے۔
یقینا ہم سفاکیت میں طالبان کے ہم پلہ نہیں ہوسکتے، لیکن پھر بھی ہمیں اپنے دفاعی حصار کو توانا کرناہے۔ اگر اس کے لیے کچھ دیر کے لیے انسانی حقوق کو نظر انداز کرنا پڑے، تو اس سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ دہشت گردوں کے خوف کے علاوہ گواہ اس لیے بھی عدالتوں میں پیش ہونے سے گریزاں رہتے ہیں کیونکہ وہاں تاریخوں پر تاریخیں دے کر کیس کو لٹکا دیا جاتا ہے۔ وکلا بھی فیس لے کر کیس آگے کراتے رہتے ہیں۔ اس کے لیے جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرنا معمول کی بات ہے۔ معمولی سی بات پر سٹے آرڈر دیے جاتے ہیں، اس طرح اگرکسی نے کسی کی جگہ پر قبضہ کیا ہوا ہے تو وہ کئی عشروں تک سٹے آرڈر کے ذریعے اس پر اپنا قبضہ برقرار رکھتے ہوئے جائیداد کے اصل مالک کو خوار کرتا رہتا ہے۔ پولیس بھی کرائے کے گواہ پیش کرتے ہوئے جس کو چاہتی ہے سزا دلوا دیتی ہے۔ ان حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ بات برملاکہی جاسکتی ہے کہ ہمارا موجودہ قانونی نظام دہشت گردی سے لڑنے کے لیے ابھی تیار نہیں ہے۔ اس سے یہ توقع کرنا زیادتی ہوگی کہ راتوں رات سپرمین بن کر یہ جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ کردے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں