فارن ہائیٹ451

یہ ہے وہ درجہ حرارت جس پر کاغذ خودبخود جل اٹھتا ہے۔ یہ رے براڈ بری (Ray Bradbury) کے سائنس فکشن ناول کا ٹائیٹل ہے۔ اس ناول میں مصنف بتاتا ہے کہ امریکہ میں مستقبل میں ریاست خود کتابوں کو جلا دے گی۔ ہمارے ہاں موجود جہادی دستے بھی کتابوں کو نذر آتش کر دیتے ہیں‘ لیکن مجھے شک بلکہ یقین ہے کہ اس ناول کی کہانی نے ان سخت جان جنگجوئوں کو کتابیںجلانے کی ترغیب نہیں دی‘ کیونکہ یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ پارسا دستے جدید فکشن کا شغف رکھتے ہوں گے۔ ان کے پاس کتابیں جلانے کی اپنی وجوہ موجود ہیں۔
داعش سے تعلق رکھنے والے جنگجوئوں نے موصل پبلک لائبریری، جس میں آٹھ ہزار سے زائد نایاب کتابوں کے قلمی نسخے موجود تھے، دھماکے سے اُڑا دی۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا‘ تو عرض ہے کہ اسی جہادی گروہ نے موصل یونیورسٹی کے مرکزی کتب خانے کو بھی جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ اُس آگ میں ہزاروں اہم کتابیں اور قیمتی قلمی نسخے تباہ ہو گئے۔ یونیسکو نے ان گھنائونے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ''cultural cleansing‘‘ اور معلوم انسانی تاریخ میں کتب خانوں کو تباہ کرنے کا سب سے بھیانک واقعہ قرار دیا۔ شاید داعش والے مالی میں فعال اپنے جہادی بھائیوں سے کتابیں جلانے کے عمل میں سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔ مالی کے جہادی دستوں نے دو سال پہلے ٹمبکٹو میں پندرہویں صدی عیسوی کے عربی مسودوں کو جلا کر
راکھ کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے اس تاریخی شہر میں کئی ایک قدیم مزارات کو بھی تباہ کر دیا تھا۔ وہ بھی علم کے فروغ کو ہر ممکن طریقے سے روکنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔
نائیجیریا کی بوکوحرام نے بھی علم سے نفرت کو اپنے ایجنڈے میں سرِ فہرست رکھا ہوا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں اس نے درجنوں سکولوں کو تباہ کیا، بے شمار اساتذہ اور طلبہ کو سفاکی سے ہلاک کیا اور یوں اپنی علم دشمنی کا ثبوت دیا۔ اس ثبوت کو مزید تقویت دینے کے لیے اُنھوں نے سکول کی سینکڑوں طالبات کو اغوا کر لیا۔ افغانستان میں طالبان نے اپنے دور میں لڑکیوں کو سکول جانے سے روک دیا تھا اور لڑکوں کو بھی صرف دینی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی۔ اگر طالبان کابل پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ تو لڑکیوں کو ایک مرتبہ پھر سکول چھوڑنا پڑیں گے۔ پتھر کے دور سے تعلق رکھنے والے ان سفاک قاتلوں نے 2001ء میں اپنی ''پرہیزگاری‘‘ کے ثبوت کے طور پر بدھا کے مجسموں کو تباہ کر دیا تھا۔ اسی علم دشمنی کا تسلسل اپنے ہاں بھی پایا جاتا ہے۔ پاکستانی طالبان اور ان سے تعلق رکھنے والی دیگر تنظیمیں اب تک پاکستان میں سینکڑوں سکولوں کو دھماکے سے تباہ کر چکی ہیں۔ اُنھوں نے ملالہ کو صرف اس لیے گولی کا نشانہ بنایا کہ وہ بچیوں کو سکول جانے سے روکنا
چاہتے تھے جبکہ ملالہ تعلیم کے لیے پُرعزم تھی۔ اسی طرح اپنے افغان طالبان بھائیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے‘ اُنھوں نے شمالی علاقہ جات میں بدھا کی مورتیوں کو تباہ کر دیا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان انتہا پسند جنونیوں کو کتابوں، علم، کلچر اور عقل سے نفرت کیوں ہے؟ وہ علم کے ذکر سے مشتعل کیوں ہو جاتے ہیں؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ وہ اپنی جہالت سے آگاہ ہیں، اس لیے نہیں چاہتے کہ دیگر افراد علم کی روشنی دیکھیں۔ ان کے احساس کمتری نے اُنہیں جنونی بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ کلچر کو تباہ کر کے تہذیب کے اُس راستے کو مٹا دینا چاہتے ہیں‘ جس پر چل کر انسانیت یہاں تک پہنچی ہے۔ اس کے بعد وہ تہذیب کو اپنے من پسند دقیانوسی طریقوں میں ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔ ان کی دنیا میں ہر قسم کی لطافت، لطف، فن، موسیقی، ادب الغرض خوشی فراہم کرنے والی ہر چیز ممنوع ٹھہری۔ ان کے ہاں نہ قہقہہ لگانا جائز‘ نہ محبت کے اظہار کی اجازت۔ اُنھوں نے اپنے تشریح کردہ عقیدے کی روشنی میں بتانا ہے کہ کیا جائز ہے اور کیا جائز نہیں۔ یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہاں جائز چیزوں کی تعداد کم اور ناجائز چیزوںکی فہرست بہت طویل ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی دنیا میں آپ ایک سانس بھی ''ان کی شریعت‘‘ سے باہر نہیں لے سکیں گے۔ سزائے موت عام ہو گی؛ البتہ قیدیوں کو ہلاک کرنے کے طریقے مختلف ہوں گے، لیکن یہ بات طے ہے کہ جج صرف وہی ہوں گے۔ نہ کوئی قانون ہو گا اور نہ کوئی وکیل۔ قیدی کی قسمت کا فیصلہ قاضی کی مرضی کرے گی۔
اس وحشت ناک ماحول میں انصاف کو مسلط کیا جائے گا۔ ہر نوجوان، جس کے ہاتھ میں بندوق ہو گی، وہ کسی بھی گناہگار، جسے وہ گناہگار سمجھے، کو گولی مارنا فرض سمجھے گا۔ فتووں کی بارش ہو گی اور انسانی خون کی ندیاں بہہ نکلیں گی۔ سنومین سے لے کر یوگاتک، ہر حرکت فتووں کی زد میں آئے گی اور اس کا ارتکاب کرنے والے لائقِ تعزیر ہوں گے۔ مسلم دنیا کے علاوہ دیگر ممالک میں فعال ان جہادیوں میں ایک چیز کی مماثلت ہے کہ وہ ہر اُس شخص سے شدید نفرت کرتے ہیں جو اُن کے تنگ نظر عقیدے کو نہیں مانتا۔ مسلم ممالک میں رہنے والے عیسائیوں سے شدید نفرت کی جاتی ہے۔ اُنہیں صلیبی قرار دے کر نفرت اور شدت پسندی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر وہ سوچیں تو کیا پنجاب کے دیہات میں رہنے والے کرسچئن یا مصر میں مقیم قطبی عیسائی صلیبی ہیں؟ کیا ان مظلوم افراد کو ہزاروں سال پہلے کے یورپی عیسائیوں کے مظالم کا ذمہ دار سمجھا جا سکتا ہے؟ تاہم انتہا پسند ذہنیت کو کسی منطق یا عقل سے کیا کام؟ اور پھر اگر لبلبی دبانے سے کام چل رہا ہو تو عقل سے معاملے کے فہم کی کیا ضرورت؟
یقینا کمزور اور مظلوم طبقے آسانی سے شکار بن جاتے ہیں۔ یہ بہادر جہادی اُنہیں دہشت زدہ کر کے اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ کمزور اور نازک اہداف کو تلاش کرتے ہیں۔ یقینا پشاور سکول کے ایک سو اڑتالیس بچوں کو گولی مار کر شہید کر دینا پاک فوج کا سامنا کرنے کی نسبت کہیں آسان ہے۔ اسی طرح موصل کی لائبریری کو تباہ کرنا کرد فوج سے لڑنے کی نسبت سہل ہے؛ چنانچہ معصوم شہریوں پر یہ گھنائونے مظالم اس لیے ڈھائے جاتے ہیں کہ وہ اپنے ہم خیال افراد کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے انہیں اپنی صفوں میں شامل کر سکیں۔ ہم جانتے ہیں کہ قیدیوں کے سر قلم کرنے کی ویڈیوز سے ان کے ہم خیال بہت سے نوجوانوں کو داعش کی صفوں میں شامل ہونے کی تحریک ملی۔ درحقیقت وہ علم اور تحقیق کی جگہ انسانی فطرت میں پوشیدہ اذیت پسندی کو ابھار کر نوجوانوں کو اپنے لشکر میں شامل کر رہے ہیں۔ علم کا مقصد اس اذیت پسندی کو مثبت فعالیت (لگن، محنت، جستجو، مشقت، بہادری وغیرہ) میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ اگر تعلیم سے حاصل ہونے والا تعلم نہ ہو تو یہی اذیت پسندی اور تنگ نظر ی مل کر جہادی دستے تشکیل دیتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں