سو دن چور کے اور ایک دن…

اگرچہ یوم ِ پاکستان پر ہونے والی پریڈ کے موقع پر جنرل راحیل شریف صدر ِمملکت اور وزیر ِ اعظم نوازشریف کے پیچھے کھڑے تھے لیکن کسی کو ذرّہ برابر شک نہیں تھا کہ ہونے والے ایکشن کا اصل انچارج کون ہے۔ جب سے وہ آرمی چیف بنے ہیں، نہایت پراعتماد طریقے سے مقبول ِعام سکیورٹی ایجنڈاآگے بڑھا رہے ہیں۔ اگرچہ شروع میں موجودہ حکومت طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے ان سے مذاکرا ت پر مُصر تھی اور ایک اے پی سی میں پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کو شہید کرنے والے دہشت گردوں کو ''قبائلی علاقوں میں موجود اپنے آدمی‘‘ قراردیا گیا، لیکن جنرل راحیل شریف کو ان کے بارے میں شروع سے ہی کوئی ابہام نہ تھا۔
میں نے ہمیشہ سیاست میں فوجی مداخلت کی مخالفت کی ، تاہم گزشتہ کئی سالوں سے جاری انتہائی ناقص گورننس اور بدترین نااہلی کو دیکھتے ہوئے میں بہت خوشی سے فوج کے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر ان جہادی عناصر اور سیاست کے بھید میں ہماری زندگی کو اجیرن کرنے والے عناصر کا قلع قمع کرنے کی حمایت کرتاہوں۔ کراچی میں ایک مرتبہ پھر پی پی پی حکومت کی نااہلی ، بلکہ ''ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘‘ کا تاثر اُس وقت گہرا ہوگیا جب پیرا ملٹری فورسز نے آپریشن شروع کیا اور اس آپریشن کی زد میں ایم کیو ایم کا ایک حصہ بھی آگیا۔ نہ تو پی پی پی اور نہ ہی ایم کیو ایم جانتی ہیںکہ اگلا قدم کیا ہوگا۔ کراچی میں ہونے والی حالیہ میٹنگ میں سندھ کے وزیر ِ اعلیٰ شامل نہیں تھے۔ میں نہیں سمجھ سکتا ہے کہ اب تک اُنھوں نے استعفیٰ کیوں نہیں دیا۔ شاید اُن کے لیے اتناہی کافی ہے کہ وہ سیاسی پریشانی اٹھانے کی بجائے پرسکون طریقے سے گالف کھیلتے ہوئے وقت گزار لیں۔
دہشت گردوں کے خلاف دوٹوک کارروائیوں کی وجہ سے ملک بھر میں فوج کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے۔ دہشت گردوںکے خلاف آپریشن پر دائیں بازو کی جماعتوں، جیسا کہ پی ٹی آئی، پی ایم ایل (ن) اور دیگر مذہبی جماعتوں کو جو بھی اعتراضات تھے، آرمی پبلک سکول پشاور پر سفاکانہ حملے میں شہید ہونے والے ایک سو سے زائد معصوم بچوں کے خون سے ملک بھر میں رنج و الم کے اٹھنے والے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے۔ گوکچھ مذہبی جماعتوںنے کچھ دیر بعد دھیمے سروں میں واویلا شروع کردیا لیکن اب ان کی کوئی شنوائی نہیں اور نہ ہی عوام ان پر کان دھرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس حملے نے جنرل شریف کو ایک طرح سے کھلا اخلاقی اور عسکری جواز فراہم کردیا کہ بہت ہوگئی، اب انتہا پسندوں کا خاتمہ ہوگا اور پوری قوت سے ہوگا۔ اب اُنہیں بھاگنے ، چھپنے یا نئے ناموں کے ساتھ ابھرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا، بلکہ ان کے سہولت کاروں کو بھی ختم کیا جائے گا۔ چونکہ اس آپریشن میں عوام پوری استقامت سے فوج کے ساتھ کھڑے ہیں، اس لیے سیاست دانوں کو بھی چاروناچار یہی موقف اختیار کرنا پڑا ۔
چونکہ قبائلی علاقوں میں طالبان اورکراچی میں بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز،کے خلاف آپریشن کو عوام کی بھرپورحمایت حاصل ہے،اس لیے ایم کیو ایم کی ناراضی کے سوا اس کی کوئی سیاسی قیمت نہیں چکانی پڑی، لیکن جب پی پی پی کے خلاف سندھ میں اورطالبان کے خلاف جنوبی پنجاب میں ایکشن ہوگا تو ہمیںشاید زیادہ مزاحمت دیکھنے کو ملے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیان بازی کے سواسیاست دانوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے کینسر کے پھیلائو کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ جب بھی ایکشن کی ضرورت محسوس ہوتی تھی، قومی اتفاق ِ رائے کا ڈول ڈالا جاتا تھا اور نشستند، گفتند ، برخاستندنامی عمل کے ذریعے ٹارگٹ کلرز ، خود کش بمباروں اور ان کے ماسٹر مائنڈز کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ چنانچہ عوام کا خون بہتا رہا اور سیاسی حلقوں کی جانب سے لامتناہی کل جماعتی کانفرنسوں اور ان کے اختتام پر دلکش الفاظ میں اعلامیے سنائی دیتے رہے۔ سیاست دانوں(... اور میں ان میں جنرل مشرف کو بھی شامل کرتاہوں...) کے سامنے ایکشن کے سلسلے میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ وہ مذہبی جماعتوں اور ایم کیو ایم کی حمایت کے طالب ہوتے تھے۔ اس گھٹیا سیاسی مفاہمت کی وجہ سے قاتلوں اور دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے مل جاتے ۔ قانون کا ہاتھ اُن تک نہ پہنچ پاتا اور وہ سزا کے خوف کے بغیر ملک بھر میں خون کی ہولی کھیلتے رہتے۔ اُس وقت پاکستان ایک ایسی کمزور ریاست دکھائی دیتی تھی جو اپنے شہریوں کو جان کا تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو۔ یہی وجہ ہے جب کراچی اور فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو عوام نے سکون کا سانس لیا۔ اُن کا ریاست اور اس کے اداروں پر اعتماد بحال ہونا شروع ہوگیا۔
اس پُرامید اور حوصلہ افزا ماحول میں شکوک و شبہات کے کچھ پہلو ضرور موجود ہیں۔بعض کالعدم جماعتوں کے سربراہ ملک میں کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں حالانکہ ان پر دہشت گردی کی بہت سی کارروائیوں کا الزام ہے۔ اسی طرح ذکی الرحمن لکھوی، جن پر ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے، کی ضمانت منظور کرلی گئی۔ تاہم ان دونوں کیسز کا تعلق پنجاب سے ہے اور ہم جانتے ہیں کہ حکمران بعض مذہبی جماعتوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔
فوج اور رینجرز کی طرف سے کی گئی کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر سیاسی عزم ہو تو ہم اپنے سکیورٹی کے مسائل پر قابو پاسکتے ہیں۔ تاہم موجودہ عسکری قیادت کے حوصلے اور عزم کو دیکھتے ہوئے ہمیں زرداری، نواز شریف، مشرف اور جنرل کیانی کی بے ہمتی بھی یاد آتی ہے۔ کہا جاتا تھا کہ شمالی وزیرستان میں قدم رکھنا بچوں کا کھیل نہیں ، یا اگر ان انتہا پسندوں کو چھیڑا گیا تو ملک میں خون کی ندیاں بہہ نکلیں گی۔ آج یہ دانش کہاں ہے؟آج بھی جبکہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان طے کرلیا ہے، اس کے بہت سے مندرجات کھوکھلے الفاظ ثابت ہوئے ہیں۔ جس آفس نے صوبائی ایکشن کو انٹیلی جنس ایجنسیوں سے مربوط کرنا تھا، اُس میں ابھی تک کوئی سٹاف موجود نہیں۔ چوہدری نثار کی ایک صلاحیت البتہ قابلِ تعریف ہے کہ وہ باتیں بہت اچھی کرتے ہیں۔۔۔ افسوس وہ وزیر ِ داخلہ بھی ہیں۔ تاہم وہ پی پی پی کے رحمان ملک سے بہت بہتر ہیں۔ ملک صاحب کو وزیر ِ داخلہ بنا ناپی پی پی حکومت کی طرف سے برملا اظہار تھا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کچھ نہیں کرنا چاہتی۔ ملک صاحب اپنے نہایت چمکدار بالوں اور چرب دار الفاظ کے ساتھ ٹی وی کی سدا بہار زینت تھے،اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ان کی یہی ''فعالیت ‘‘ پی پی پی کو لے ڈوبی۔
یہ بات قابلِ تشویش ہے کہ جب ملک میں دہشت گردوں اور جہادیوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن ہورہا ہے، ہماری پولیس مناسب ہتھیاروں اور تربیت سے محروم ہے۔ ہمارا تھانہ مقامی سطح پر انتہا پسندوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا، اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ تھانے دار ہے جو اپنے علاقے میں موجود ایسے تمام عناصر کو جانتا ہے۔ ہمارے خفیہ ادارے بمشکل ہی ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ، ہمارا میڈیا مذہبی انتہا پسندوں اور قاتلوں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے قوم کو متواتر کنفیوژن کا شکار رکھتا ہے۔ اس دوران ہم اپنے فوجی جوانوں اور رینجرز کے شکر گزار ہیں جو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے قوم کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے کوشاں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں