سات مئی کے بعد برطانیہ پر کس کی حکومت ہوگی؟

سری لنکا اور پاکستان میں موسمِ سرما گزار کرگزشتہ ہفتے انگلینڈ آنے کے بعد دیکھا کہ یہاں سات مئی کو ہونے والے عام انتخابات کی علامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ قریب الواقع انتخابات کی واحد نشانی ایک چھوٹا سا پلے کارڈ تھا جوDevizes کے رہائشی افراد کو بتارہا تھا کہ کنزر ویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ کلیر پیری(Claire Perry) جو وزیرِ ٹرانسپورٹ بھی ہیں، ایک مرتبہ پھر ہمارے حلقے سے میدان میںہیں۔ ابھی مرکزی جماعتوں نے لندن میں بل بورڈز پر اشتہارات نہیں لگائے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ بہت مہنگے ہیں؛ چنانچہ سیاسی جماعتیں آخری ایام میں ہی ان پر اپنے اشتہارات آوایزاں کریں گی۔ درحقیقت اگر آپ کو انتخابات کی تاریخ اور ان کی بابت کچھ اور معلومات کا حصول درکار ہو تو اس کے لیے میڈیا کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کیونکہ پبلک بارز اور ڈرائنگ رومز کی نسبت صرف میڈیا میں ہی انتخابات کو موضو ع ِ گفتگو بنایا جارہا ہے۔ 
یہاں انتخابات اتنے ڈرامائی اور رنگین نہیں ہوتے جتنے ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں۔ نہ کہیں جلوس ، نہ شامیانے، نہ ریلیاں۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں، کوئی ماحول ہی نہیں بنتا۔ انہیں فی الحقیقت بے کیف اور بے رنگ کہا جاسکتا ہے۔ اگر پاکستانی انتخابات تلی ہوئی مصالحے دار ران ہے تو برطانوی انتخابات ابلے ہوئے پھیکے چاول۔ یہاں سیاست دان اُن حلقوں میں جدوجہد کرتے اور عوام سے ملنے کی مشقت اٹھاتے ضرور دکھائی دیتے ہیں جہاں چند سو ووٹ کا فرق نتائج پر اثر انداز ہوتا ہے۔ باوجود اس حقیقت کے کہ آنے والے انتخابات کو برطانوی تاریخ کے سب سے غیر یقینی انتخابات قرار دیا جارہا ہے، یہاں کوئی ہلہ گلہ، کوئی شورشرابا، کوئی ڈی جے، کچھ بھی نہیں۔ گزشتہ روز ''گارڈین‘‘ نے اپنی لیڈ سٹوری میں رائے عامہ جاننے والے سرویزکا جائزہ لیتے ہوئے یہ نشاندہی کی کہ لیبر پارٹی کو کنزرویٹوز پر قدرے بالا دستی حاصل ہے؛ تاہم یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ گزشتہ چند ایک برسوںسے دونوں پارٹیوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ سیاسی پنڈت محسوس کرتے ہیں کہ شراکت ِ اقتدار کے امکانات زیادہ وسیع ہوتے جارہے ہیں۔ جائزے یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ منقسم مینڈیٹ سامنے آئے گا، اس لیے دو یا دو سے زیادہ کولیشن پارٹنر حکومت سازی کرتے دکھائی دیں گے۔ 
650 نشستوں کے ہائوس آف کامن میں فعال برتری کے لیے کم از کم 326 نشستیں درکار ہیں۔ 2010ء کے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے 302 نشستیں جیتیں اور لبرل ڈیموکریٹ، جس کی چھپن تھیں، کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنالی۔ اس مرتبہ کنزرویٹو کی حاصل کردہ نشستوں کی تعداد میں کمی کا خدشہ ہے اور پنڈت اسے281 کا ہندسہ عبور کرتے نہیں دیکھ رہے جبکہ لبرل ڈیموکریٹس اگراٹھائیس نشستیں بھی لے گئے تو اُن کی خوش قسمتی ہوگی۔ چنانچہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اگر یہ دونوں جماعتیں مل بھی جائیں تو بھی مطلوبہ اکثریت نہیں لے سکتیں۔ 
دوسری طرف لیبر پارٹی کے لیے بھی توقعات بہت روشن نہیں۔ ان کے بارے میں اندازہ لگایا جارہا ہے کہ وہ 256 سے لے کر 277 تک نشستیں لے جائیں گے؛ چنانچہ اُنہیں بھی حکومت سازی کے لیے کسی پارٹنر کی ضرورت ہوگی۔ ان کے لیے سب سے بڑا سردرد سکاٹ لینڈ ہے جہاں اس پارٹی کو تشکیل دیا گیا تھا۔ یہاںسکاٹش نیشنل پارٹی اکتالیس کے قریب نشستیں لے جائے گی۔ اس سے پہلے 2010ء کے انتخابات میں اس کے پاس یہاں سے صرف سے چھ نشستیں تھیں۔ سکاٹش نیشنل پارٹی کو ملنے والی اضافی نشستیں وہ ہوںگی جو وہ لیبر پارٹی سے چھینے گی۔ سکاٹش نیشنل پارٹی کے ڈرامائی انداز میں ابھرنے کی وجہ گزشتہ سال ہونے والا ریفرنڈم تھا جس میں سکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کا سوال پوچھا گیا تھا۔ اگرچہ سکاٹش نیشنل پارٹی ریفرنڈم ہار گئی لیکن اس کی طرف سے سکاٹش قوم پرستی کے جذبات کا بھڑکایا ہوا الائو ابھی مدھم نہیں پڑا۔ بہت سے لیبر کے حامی بھی اس کی صفوں میں شامل ہوچکے ہیں۔ سکاٹ قوم پرستی کے علاوہ سکاٹش نیشنل پارٹی انتخابات کے بعد کسی سیٹ اپ کا حصہ بنتے ہوئے اپنی قیمت ضرور سامنے رکھے گی۔ اس کے رہنما اور سکاٹ لینڈ کے پہلے وزیر نیکولا سٹرجین(Nicola Sturgeon)کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی لیبر کے ساتھ کسی طور پر مخلوط حکومت میں شریک نہ ہوگی۔ یہ کسی چھوٹی پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کو ترجیح دے گی۔ 
ایک اور اہم مسئلہ ایٹمی میزائلوں سے لیس برطانوی آبدوزوں کی موجودگی ہے۔ یہ برطانیہ کی سب سے اہم ڈیٹیرنس فورس ہے اور یہ سکاٹ لینڈ کے ایک نیول اڈے پر موجود ہیں۔ سکاٹ قوم پرست اس اڈے کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ ریفرنڈم کے دوران سکاٹش نیشنل پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ وہ Clyde سے اس بیس کا خاتمہ کردیں گے۔ اب ٹوریز نے الزام لگایا ہے کہ لیبر رہنما ایڈ ملی بینڈ محض سکاٹش نیشنل پارٹی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے برطانیہ کے اہم ترین دفاع کا سیاسی سودا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سیکرٹری برائے دفاع مائیکل فالن (Michael Fallon) نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مسٹر ملی بینڈ ملک کو ویسے ہی نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں جیسے انہوں نے اپنے بھائی کو پہنچایا تھا۔ دراصل پانچ سال پہلے ملی بینڈ نے اپنے بڑے بھائی ڈیوڈ کو پارٹی قیادت پر چیلنج کیا تھا۔ اس سرکس میں ایک اور جوکر، نیگل فرائج ہیں جن کی ''UKIP‘‘ (یونائیٹڈ کنگڈم انڈی پنڈنٹ پارٹی) سات مئی کو ہونے والے انتخابات میں پندرہ فیصد کے قریب ووٹ لینے کی پوزیشن میں ہے۔ چونکہ UKIP کا ووٹ بنک ملک میں کسی ایک جگہ ارتکاز نہیں رکھتا، اس لیے یہ ایک دو نشستوں سے زیادہ کچھ نہیں حاصل کرپائے گی۔ تاہم اس کی وجہ سے ایسے حلقے جہاں کانٹے کا مقابلہ ہے، وہاں یہ ٹوریز کا ووٹ بنک متاثر کرے گی اور یوں توازن لیبر کے حق میں جھک سکتا ہے ۔ 
ستم ظریفی یہ ہے کہ بائیں بازو کی گرین پارٹی بھی لیبر کے ساتھ یہی کچھ کرسکتی ہے جو UKIP ٹوریز کے ساتھ۔ حالیہ سرویز میں گرین پارٹی چھ فیصد ووٹ لیتی دکھائی دی۔ یقیناً اس کا کوئی نشست حاصل کرنا ایک معجزہ ہی ہوگا لیکن یہ کئی اہم حلقوں میں لیبر پارٹی کو نقصان پہنچا دے گی۔ شاید اس تمام کھیل میں سب سے زیادہ نقصان لبرل ڈیموکریٹس کا ہوگا ۔ وہ پانچ سال تک کنزر ویٹوز کے اقتدار میں جونیئر پارٹنر تھے اور اس دوران سوشل سیکٹر میں سرمایہ کاری کی شرح بہت کم رہی۔ اگرچہ پارٹی کے رہنما نک کلیگ کا کہنا ہے کہ اُس نے ٹوریز کی بہت سی پالیسیوں کی مخالفت کی تھی لیکن اُن کی طرف سے اپنی پارٹی کی اہم اقدار کی خلاف وزری بھی دیکھنے میں آئی۔ بہرحال سات مئی کوہونے والے انتخابات پر غیر یقینی پن کی فضا چھائی رہے گی ۔ اس کے باوجود بہت کم لوگ اس میں دلچسپی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں