یرموک سے ایک تلخ پیغام

دمشق کے مضافات میں واقع یرموک کیمپ میں فلسطینی پناہ گزینوںکی حالت ِ زار سے عرب ریاستیں سنگدلی کی حد تک لاتعلق ہیں۔ گزشتہ دو برسوںسے شامی حکومت کی طرف سے کی جانے والی بمباری کی وجہ سے یرموک ناکہ بندی کا شکار تھا اور اس پر قہر یہ کہ گزشتہ دو ہفتوں سے یہ کیمپ داعش اور القاعدہ کی ایک مقامی شاخ، جبۃ النصرہ کے حملوں کی زد میں ہے۔ ان قاتل جہادیوں نے یہاں بہت سے افراد کے سرقلم کیے ہیں۔ ان پرتشدد کارروائیوں کے علاوہ کیمپ کو غذائی قلت کی وجہ سے قحط کا بھی سامنا ہے۔ 
اسرائیل کی طرف سے غزہ کے محاصرے اور فلسطینی آبادیوں پر حملوں کی عالمی سطح پر مذمت کی جاتی ہے۔ یواین او نے اسرائیل کی زیادتیوں کی تحقیقات کی اور اب توقع ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی درخواست پر آئی سی سی( انٹر نیشنل کریمنل کورٹ) بھی غزہ میں اسرائیلی زیادتیوں کا جائزہ لے گی۔ فلسطینی اتھارٹی کو حال ہی میں آئی سی سی کی رکنیت ملی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم غزہ میں فلسطینیوں پر ڈھائی جانے والی زیادتیوں پر بہت غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں تو یرموک میں موجود اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ مانا کہ یہ کیمپ جنگ زدہ علاقے میں ہے اور اس کے گردونواح میں مختلف گروہ ایک دوسرے سے جنگ لڑرہے ہیں لیکن یہاں فلسطینی یواین کی ایجنسی ''UNRWA‘‘ کی ذمہ داری پر ہیں، اس لیے یواین کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان کو درپیش مشکلات کو عالمی سطح پر اٹھائے۔ 
جہاں تک عر بوں کا تعلق ہے تو اُنھوں نے کئی عشروں سے زبانی جمع خرچ کے سوافلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ ان کی 
طرف سے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک تنکا تک دہرا نہیں کیاگیا۔مزید ستم یہ کہ مصر کی موجودہ حکومت غزہ کی ناکہ بندی کرنے میں عملی طور پر اسرائیل کی مدد کررہی ہے ۔ جنرل سیسی نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ مختلف خطرات، جیسا کہ یمن کی موجوہ صورت ِحال، سے نمٹنے کے لیے عرب ریاستوں کی مشترکہ فوج بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر 1948ء،1967ء اور1973ء میں اسرائیل کے خلاف جنگوں کے لیے بنائی گئی عربوں کی مشترکہ افواج کاحشر یاد رکھیں تو مصری آمر کی اس ''انقلابی پیش رفت‘‘ پر اُنہیں گڈ لک ہی کہا جاسکتا ہے۔تاہم یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ اگرچہ سعودی عرب اور اس کی حلیف عرب ریاستوں کی افواج یمن میں ہونے والی خانہ جنگی میں حوثی جنگجوئوں پر بمباری کر رہی ہیں لیکن تمام اسلامی دنیا یرموک میں فلسطینیوں کی حالت ِ زار سے بے خبر ہے۔ اگر اسرائیل نے فلسطینیوں سے ویسا سلوک کیا ہوتا جیسا اُنہیں یرموک میں دوسرے مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں برداشت کرنا پڑرہا ہے تو تمام مسلم دنیا غم وغصے سے کھول اٹھتی، لیکن یہاں چونکہ ایک مسلمان بھائی کے ہاتھوں دوسرے مسلمان کی گردن زنی ہورہی ہے اس لیے اس کی مذمت میں مسلم دنیا ایک لفظ بھی کہنے کی روادار نہیں۔ اسرائیلی اکثر ان دہرے رویوں پر تنقید کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ جب مسلمان دوسرے مسلمانوں 
کو ہلاک کرتے ہیں تووہ دنیا کو دکھائی کیوں نہیں دیتے؟ جب وہ (اسرائیل)غزہ میں موجود اُن گروہوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے جو اس پر راکٹ باری کرتے ہیں تو تمام دنیا تنقید کی توپوں کے دہانے وا کردیتی ہے۔ 
اس کا جواب یہ ہے کہ اسرائیل خطے میں ایک غاصب قوت ہے جس نے کئی عشروں سے فلسطینی علاقوں پر قبضہ جمارکھا ہے۔ اس کے علاوہ اسے غزہ میں موجودہ شہریوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہیب عسکری قوت سمجھا جاتا ہے۔ سب سے آخر میں یہ کہ عالمی قوانین کے تحت فلسطینیوں کو اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ جب بھی اسرائیل غزہ، جو کہ دنیا کے انتہائی گنجان آباد خطوں میں سے ایک ہے، پر وحشیانہ بمباری کرتے ہوئے آبادیوں کو تباہ کردیتا ہے تو عرب ریاستیں ان کی تعمیر کے لیے بھاری رقوم کے وعدے ضرور کرتی ہیں، تاہم بعض نامعلوم وجوہ کی بنا پر چیکوں پر دستخط کرنا بھول جاتی ہیں۔ چنانچہ یہ علاقہ مجموعی طور پر ملبے کا ڈھیر ہے اور یہاں کے شہری وعدہ کردہ امداد کے سدا منتظر رہتے ہیں۔ فی الحال جس واحد شخصیت نے وعدے کے مطابق رقم فراہم کی ، وہ ملالہ یوسفزئی ہے جس نے غزہ میں تباہ شدہ 65 سکول تعمیر کرنے کے لیے پچاس ہزار امریکی ڈالر دیے ہیں۔ خواہش ہے کہ پاکستان میں موجود اس کے ناقدبھی اس مثال کی کچھ پیروی کرکے دکھائیں۔ 
فلسطین کے ساتھ روارکھاجانے والا یہ سفاکانہ طرز ِعمل اپنی جگہ پر لیکن رات دن ہم ایک ہی نعرہ سنتے ہیں کہ اگر اسرائیل مغربی کنارے پر سے اپنا تسلط ختم کردے تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ گویا اگرغزہ کا محاصرہ ختم ہوجائے تو مسلمان نوجوان انتہاپسندی کی طرف مائل نہیں ہوںگے اور دنیا سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ کم از کم ہمارے ہاں پنپنے والی روایتی دانائی یہی کہتی ہے ، لیکن اس طرف کسی کا دھیان نہیںجاتا کہ خود مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟چنانچہ میرا نہیں خیال کہ اگر اسرائیل صرف غزہ کا محاصرہ ختم کردے یامغربی کنارے سے واپس آ جائے تو مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی ختم ہوجائے گی اور نہ ہی مسلم دنیا میں فرقہ واریت اور اسے جواز بناکر قتل وغارت گری کا بازار گرم کرنے کی کوئی ضرورت باقی رہے گی۔ 
یقینا غزہ کا محاصرہ ایک اہم مسئلہ ہے لیکن پھراُن خرابیوں کی طویل فہرست کا کیا بنے گا جن کا مسلم دنیا میں مغرب کو ذمہ دار سمجھا جاتا ہے؟کم و بیش ہر خرابی سینکڑوں سال پہلے ہونے والی صلیبی جنگوں اور بعض کیسز میں اس سے بھی پہلے تک اپنی جڑیں رکھتی ہے۔ تاریخ کے اس دھارے کو کیسے درست کیا جائے گا؟ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ بہت سے جہادی گروپ صرف اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کی طرف سے شہریوں کو ذبح کرنے کا عقیدے سے کوئی تعلق نہیں، اُنہیں صرف اقتدار اور اس کے ساتھ ملنے والے مادی وسائل پر بلاروک ٹوک تصرف کا حق درکار ہے۔ اسی طرح ان جہادی گروہوں‘ جن میں طالبان پیش پیش ہیں، نے اغوا برائے تاوان کو ایک منافع بخش پیشہ سمجھ کر اپنا رکھا ہے۔ اگر ان کا مطالبہ پورا نہ کیا جائے تو وہ مغوی کو انتہائی سفاک طریقے سے ہلاک کردیتے ہیں۔ ان رویوں کا فلسطین کی آزادی یا اسلام کی سربلندی سے کیا تعلق ہے؟
اگر فلسطینیوں پر ہونے والے جبر اور روارکھی جانے والی ناانصافی نے مسلمانوں کو فی الحقیقت غم زدہ کیا ہوتا تو وہ ان کے لیے کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے دکھائی دیتے۔ آج تک تیل برآمد کرنے والی دولت مندعرب ریاستوں نے اسرائیل کا ہاتھ روکنے کے لیے واشنگٹن پر دبائو ڈالنے کی مطلق کوشش نہیں کی کہ فلسطینی باشندوں کے لیے الگ ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ ان کے لیے کچھ آسانیاں پیدا کی جاسکیں۔ کچھ بے معنی مذاکرات ہوتے رہتے ہیں لیکن ان میں کسی عرب ریاست نے حصہ لیتے ہوئے اپنا دبائو ڈالنے کی کوشش نہیںکی۔ چنانچہ یہ بات کہنا غلط نہیں ہوگا کہ غزہ میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو اجاگر کرتے ہوئے مسلمان صرف مغرب پر تنقید کرتے ہیں لیکن اپنے ہاں، یرموک میں ہونے والی زیادتی کی طرف کسی کی نظر نہیں جاتی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں