گزشتہ دوہفتوںسے آپ سیاست دانوں ، سیاسی پنڈتوں اورمنصوبہ سازوں کو مزے سے چائے یا کسی اور مشروب کی چسکیاں لیتے ہوئے چینی سرمایہ کاری کی مد میں پاکستان آنے والے چھیالیس بلین ڈالر مالیت کے منصوبوں کے دل خوش کن تصور سے جی بہلاتے دیکھ رہے ہوں گے۔ پسندیدہ مشروب سامنے میز پر رکھ کر نیم وا آنکھوں سے سنہرے تصورات کی دنیا میں غوطہ لگانے میں کوئی حرج نہیں اور پھر پاکستان جیسے غریب ممالک تحفے میں ملنے والے گھوڑے کے دانت نہیں دیکھتے( انگریزی محاورے کے مطابق) اور اگر وہ مذکورہ گھوڑا چینی ہو اور اس کے سوا کوئی اور سواری بھی میسر آنے کا امکان نہ ہو تو پھر گھوڑے کے نقص کون تلاش کرسکتا ہے۔ دنیا کے ہمارے حصے میں زبانِ زدِ خاص و عام ایک ہی اصطلاح ہے۔۔۔''گیم چینجر‘‘، گویا اس سرمایہ کاری نے ہمارے لیے خوش بختی کے دروازے وا کر دیے۔ اگر ٹی وی کے پُرجوش اینکرز اور مزید پُرجوش مہمانوں کی چہکار سنیں تو لگتا ہے کہ ہم راتوں رات دولت میں کھیلنے لگے ہیں، چنانچہ ہمیں سب کام کاج چھوڑ کر دوبئی سدھارنا چاہیے تاکہ اس بے پناہ دولت کو کہیں تو خرچ کیا جاسکے۔
التباسات کی سنہری سرزمین اتنی خوشنما ہے کہ حقیقت کی سنگلاخ دنیا میں کھلنے والی کھڑکی بند ہی رہنے دیں‘ مبادا مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگانے کا مرتکب قرار پائوں، لیکن سری لنکا کے حالات پر ایک نگاہ ڈالنا ہمیں بہت کچھ سمجھا سکتا ہے۔صدر سری سیناکی قیادت میں اس کی نئی حکومت چینی سرمایہ کاری سے وجود میں آنے والے میگا پروجیکٹس، جو سابق صدر راجا پاکسی کے دور میں بنے، سے لگنے والے گھائو کو سہارنے کی کوشش میں ہے۔ ان منصوبوں میں سب سے متنازع 1.35 بلین ڈالر سے بننے والی کولمبو سٹی پورٹ ہے ۔اس کا ٹھیکہ ایک ایسی چینی کمپنی کے پاس ہے‘ جسے بڑی حد تک چینی حکومت ہی کنٹرول کرتی ہے۔ جب سے نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے، 575 ایکٹر پر محیط یہ عظیم منصوبہ التوا کا شکارہے۔ اس کے لیے زیادہ تر زمین سمند رسے حاصل کی جانی تھی۔رہائشی ، تفریحی اور کاروباری سہولیات رکھنے والے اس مقام کے بارے میں اندازہ لگایاگیا تھا کہ یہ دنیا بھر سے سیاحوں اورسرمایہ کاروں کو اپنی طرف کھینچے گا، لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ سرمایہ کار نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے ماحول پر اثرات کا جائزہ لینے کی زحمت نہیں کی۔ اس منصوبے کے ماحولیاتی پہلو کو اب دیکھا جارہا ہے، تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر سری لنکا اس موقع پر اس ڈیل کو منسو خ کرتا ہے تو اسے کئی ملین ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
اسی طرح پبلک سیکٹر میں بننے والے کئی ایک منصوبے ، جن پر چینی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی اور تعمیر بھی خود ہی کی، اب بے کار پڑے ہوئے ہیں۔ ان میں جنوب میں واقع Hambontota Port کا جائزہ لینا بے حد چشم کشاہوگا کہ بے کار انفراسٹرکچر میں کس طرح بھاری سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور کس طرح کمپنیاں فائدہ اٹھاتی ہیں جبکہ میزبان ملک کو اس کا حتمی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ جب چار سال پہلے اس نئی بندرگاہ کو کھولنے کا اعلان کیا گیا تو اچانک پتہ چلا کہ آبی گزرگاہ میں پانی کے نیچے ایک بھاری چٹان ہے جس کی وجہ سے جہازوں کی آمدورفت ممکن نہیں۔ کئی ماہ کی کوششوں کے بعد اُس چٹان کو ڈائنامائیٹس لگا کر تباہ کردیا گیا لیکن ابھی بھی کوئی جہاز ادھر کا رخ نہیں کرتا۔ اس پر حکومت نے کاریں لانے والے جہازوں کو یہاں لنگر انداز ہونے پر مجبور کیا تاکہ اس کے فعال ہونے کا تاثر مل سکے۔ تاہم کاروں کو یہاں اتارنے کے بعد بذریعہ سڑک 250 کلومیٹر دور کولمبو لے جایا جاتا ہے۔ علاقے میں موجود دیگر چینی منصوبوں میں ایک انٹر نیشنل ایئرپورٹ اور ایک کرکٹ اسٹیڈیم دکھائی دیتے ہیں، تاہم یہ دونوں تاحال استعمال میں نہیں۔ جنوبی کوریا کے تعاون سے بننے والے ایک عظیم الشان کانفرنس سنٹر میں الوبولتے ہیں۔ Hambantota کے گرد بننے والی موٹر وے البتہ ویران نہیں ، اُس پربڑی تعداد میں کیچڑ میں لت پت بھینسیں مٹر گشت کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔ ان کے گزرنے کے نشانات وہاں تادیر ثبت رہتے ہیں یہاں تک کہ بارش اُنہیں بہا کر لے جاتی ہے۔ اتنی دیر میں ایک اور غول وہاںسے گزرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں اتنی مہنگی موٹر وے بنانے کی واحد وجہ یہ تھی کہ علاقہ سابق صدر کے حلقہ ٔ انتخاب میں آتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سری لنکا کے سابق صدر کو سڑکیں بنانے کا جنون تھا۔ یقینا یہاں بہت شاندار سڑکیں تعمیر کی گئیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض وجوہ (ہم پاکستانیوں کے لیے ان وجوہ کی تفہیم مشکل نہیں) کی بنا پران کی تعمیراتی لاگت بہت زیادہ ہے۔ ان میں زیادہ ترسڑکیں وہ ہیں جو چینی کمپنیوں اور ٹھیکیداروںنے تعمیر کیں۔۔۔مثال کے طور پرکولمبو کو گیل سے ملانے والی سادرن ایکسپریس پر ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور جاپان نے سرمایہ کاری کی اور اس پر سات ملین ڈالر فی کلومیٹر لاگت آئی ۔ دوسری طرف گیل ایکسپریس پر چینی کمپنی نے سرمایہ کاری کی مگر یہاں فی کلومیٹر 72 ملین ڈالر لاگت آئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ چینی کمپنی کو یہ ٹھیکہ بغیر کسی مسابقت کے مل گیا تھا۔ یقیناکوئی دو سڑکیں ایک جیسی نہیں ہوتیں اور ان کی تعمیر اور اخراجات بھی یکساں نہیںہوتے‘ تاہم کولمبو کے اخبار ''Sunday Times‘‘ میں شائع ہونے والے مضمون میں ایک تجربہ کار سول انجینئر ، پروفیسر کماراج ان منصوبوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔۔۔''ان تمام منصوبوں میں قدر ِ مشترک یہ تھی کہ ان میں سرمایہ کاری چین نے کی اور ان کے ٹھیکے بھی چینی فرموں کو دیے گئے۔ ایسا کرتے ہوئے کوئی اشتہار دیا گیا نہ کسی کو مسابقت کی دعوت دی گئی۔ ان منصوبوںسے ہونے والا نقصان 1.5 بلین ڈالر کے قریب ہے۔ ‘‘
خوش قسمتی سے پاکستان میں ہونے والی مجوزہ چینی سرمایہ کاری میں تیس بلین ڈالر سرمایہ کاری قرضہ نہ ہوگی۔ یہ سرمایہ کاری پاک چین اقتصادی راہداری پر ہوگی؛ تاہم تاثر ہے کہ اس منصوبے کا پاکستان کی نسبت چین کو زیادہ فائدہ ہوگا۔ گوادر پورٹ کو مغربی چین کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے چین ہر سال کئی ملین ڈالر کی بچت کرلے گا۔ ابھی یہ بات واضح نہیں کہ کیا ہم بھی چین کی طرف رواں دواں ٹرکوںسے کوئی فیس، جیسے ہم نیٹو ٹرکوںسے لیا کرتے تھے، وصول کریںگے یا نہیں؟باقی 16 بلین ڈالر توانائی پیدا کرنے والے شعبے پر خرچ ہوںگے۔ ان میں سولر، ونڈ اور کول پاور پروجیکٹس شامل ہیںجن سے 10,400 میگا واٹ بجلی پیدا ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ ہمیں اس پیش رفت کو خوش آمدید کہنا چاہیے کیونکہ ہمیں بجلی کی شدید قلت کا سامنا ہے؛ تاہم اس سرمایہ کاری کے لیے بیس فیصد سرمایہ کاری پاکستان کے نجی شعبے نے کرنی ہے۔یقینا منافع کی بھاری شرح دیکھتے ہوئے پاکستانی سرمایہ کار قطاریں باندھے سرمایہ کاری کرتے دکھائی دیں گے۔ لیکن ٹھہریں، واپسی کی شرح (IRR) اٹھارہ فیصد ہے اور یہ واپسی ڈالروںمیںہوگی۔ اس کامطلب ہے کہ چینی سرمایہ کاربہت جلد اپنی رقم واپس لے لیں گے۔ ویسے یہ کس نے کہا تھا کہ چینی لنچ فری ہوتا ہے؟