برطانیہ میں انتخابی بھونچال

سات مئی کوبرطانیہ میں آنے والے انتخابی بھونچال نے اس کا سیاسی منظر نامہ تبدیل کرکے رکھ دیا۔کئی ہفتوںسے جاری سروے اور ان سے اکٹھا کیے جانے والے مواد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تجزیہ کار ببانگ دہل کہہ رہے تھے کہ لیبر پارٹی اور ٹوریز میں انتہائی کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔ الیکشن کے دن 'دی گارڈین‘ نے اپنے قارئین کو اطلاع دی کہ poll of polls(ہونے والے تمام پولز کا نکالا گیا اوسط) ظاہر کرتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان یکساں مسابقت اس قدر ہے کہ ان دونوں کا اوسط34 فیصد بنتا ہے۔
قانون کے مطابق ایگزٹ پول اور نتائج کی پیشین گوئیوںکو انتخابات کے دن پولنگ کا وقت ختم (رات کے دس بجے) ہونے سے پہلے زیر ِ بحث نہیں لایا جاسکتا۔ اُس دن کم وبیش تمام برطانیہ بی بی سی کی سپیشل الیکشن براڈکاسٹ دیکھ رہا تھا۔ Question Time کے مایۂ ناز میزبان ڈیوڈ ڈمبلبے(David Dimbleby) اور اُن کے ساتھ شریک ِگفتگو بہت سے تجزیہ کار ہمیںبتارہے تھے کہ ہوا کا رخ کیا ہے۔ مسٹر ڈمبلبے نے بی بی سی ایگزٹ پول کا حوالہ دیتے ہوئے سب کو حیران کردیا کہ کنزرویٹو پارٹی 316 کے قریب نشستیں حاصل کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے پینل میں شریک ماہرین اور سامعین حیرت سے سکتے میں آگئے۔ حیرت کی وجہ یہ تھی کہ صرف ایک دن پہلے یہ پارٹی بمشکل 280نشستیں حاصل کرتی دکھائی دیتی تھی اور حکومت سازی کے لیے ارکان کی مطلوبہ تعداد326حاصل کرنا اس کے لیے ممکن نہ تھا تاوقتیکہ یہ کسی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت سازی کی راہ اپنائے۔ ایگزٹ پول نے لیبر پارٹی کے بارے میں کیے گئے ابتدائی تجزیے بھی الٹا کررکھ دیے ۔ ایگزٹ پول میں بتایا گیا تھا کہ لیبر پارٹی 230کا ہدف بھی حاصل نہ کر پائے گی۔ لبرل ڈیموکریٹس کے پائوں تلے سے زمین اس وقت حقیقی معنوں میں سرک گئی جب وہ اٹھاون سے کم ہو کر صر ف دس نشستیں حاصل کرتے دکھائی دیے۔ سکاٹش نیشنل پارٹی کے بارے میں ابتدائی اندازہ تھا کہ وہ پچاس کے لگ بھگ نشستیں حاصل کرلے گی ، لیکن ایگزٹ پول کے مطابق اُس کا نمبر اٹھاون بن رہا تھا۔ سکاٹش نیشنل پارٹی کو زبردست کامیابی مل رہی تھی کیونکہ 2010ء کے انتخابات میںا س کی صرف چھ نشستیں تھی لیکن اب اُس کی جھولی میں پکے ہوئے پھل کی طرح گرنے والی نشستیں وہ تھیں جو اس سے پہلے لیبر پارٹی کو ملتی تھیں۔
ایگزٹ پول اتناحیرت انگیز تھاکہ لبرل ڈیموکریٹس کے ایک سینئر سیاست دان، پیڈی اشڈائون(Paddy Ashdown)کا کہنا تھا کہ اگر ایگزٹ پول کے نتائج حقیقی نتائج کے مطابق ہی برقراررہے تو وہ پتھر کا پانی پر تیرنا مان لے گا۔ حتمی نتائج صاف اعلان کررہے تھے کہ پنڈت ٹوریز کی حقیقی طاقت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے تھے۔ لبرل ڈیموکریٹس کی دس نشستوں کا خدشہ بھی غلط تھا۔ وہ صرف آٹھ تک محدود ہوچکے تھے۔ سوشل میڈیا پر بہت سی تصاویر میں اشڈائون کسی جھیل کے کنارے بیٹھے تھے جبکہ اُن کی پرسکون نگاہوں کے سامنے پانی پر پتھر بہت آرام سے تیر رہے تھے۔ سب سے دانا سیاسی پنڈت وہ شخص ثابت ہوا‘ جس نے مسٹر کیمرون کی کامیابی پر شرط لگاکر 88,000 پائونڈ جیت لیے تھے۔ اُس رات تمام پنڈت تجزیے کی بازی ہار چکے تھے۔ اور تو اور بک میکرز کے میدان میں انتخابات میں کوئی واضح کامیابی حاصل کرتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام سیاسی پنڈت اور پول سروے اتنے غلط ثابت کیوں ہوئے؟پیشہ ور بنیادوں پر سروے کرنے والی ایسوسی ایشن نے اس فاش، بلکہ شرمناک، غلطی کی تحقیقات شروع کرا دی ہیں۔ سیاسی پنڈت اور سروے کرنے والے ماہرین کا اب کہنا ہے کہ یا تو عوام کی بڑی تعداد نے آخری وقت پر ہی فیصلہ کیا تھا یا کیے ہوئے فیصلے کو عین وقت پر تبدیل کرلیا۔ ڈیوڈ کیمرون (جیسا کہ میں نے گزشتہ ایک کالم میں ذکر کیا تھا)لیبر پارٹی پر یہ کہتے ہوئے دبائو بڑھا رہے تھے کہ وہ (لیبرپارٹی والے) حکومت سازی کے لیے سکاٹش نیشنل پارٹی کی بلیک میلنگ کا شکار ہوجائیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسٹر کیمرون برطانوی ووٹروں کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب رہے۔ لیبرپارٹی کی ایک اور کمزوری اچھالی گئی کہ وہ ایک مرتبہ پھر اندھادھند اخراجات کرتے ہوئے اُس مالیاتی نظم کی دھجیاں اُڑا دیں گے جو ٹوریز نے بہت مشکل سے قائم کرکے ملکی معیشت کو سنبھالادیا۔ آخر میں، برطانوی رائے دہندگان نے مسٹر کیمرون کو ایک سنجیدہ سیاست دان کے طور پر لیا جبکہ مسٹر ملی بینڈ کے بارے میں یہ تاثر قائم ہوتادکھائی دیا کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کمزور سیاست دان ہیں جو لیبر یونینز کے اثر سے باہر نہیں آپائیں گے۔
پول سرویز کے خوفناک حدتک غلط نتائج کی جو بھی وجہ ہو، ایک بات طے ہے کہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی تجزیہ کار ان پر بہت حد تک تکیہ کررہے تھے، چنانچہ جب حتمی نتائج نے ٹوریز کی فقید المثال کامیابی کا اعلان کیا تو تمام سیاسی پنڈت سرپکڑ کر بیٹھ گئے۔ ان نتائج نے تین پارٹیوں کے سربراہوں ۔۔۔ ایڈ ملی بینڈ، نک کلیگ اور نیگل فاریج۔۔۔ کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔شکست تسلیم کرتے ہوئے عہدوں سے ہٹنے میں پاکستانی سیاسی رہنمائوں کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ مثال کے طور پر 2013ء کے انتخابات میں پی پی پی ایک قومی پارٹی کے درجے سے گر کر ایک علاقے کی محدود پارٹی بن کررہ گئی لیکن اس کے باوجود پارٹی قیادت کی طرف سے نہ تو استعفیٰ آیا اور نہ ہی کسی نے ندامت یا پشیمانی کا اظہار کیا۔ برطانوی انتخابات کے نتیجے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دے کر اس کا خیر مقدم اس طرح کیا گیا کہ نہ صرف سٹاک مارکیٹ میں اضافہ دیکھنے میں آیا بلکہ پائونڈ کی قدر بھی بڑھ گئی۔ مجھے یقین ہے کہ بہت سے بینکاروں کے دفاتر میں شمپین کی بوتلیںکھلنے کی آواز آئی ہوگی کیونکہ لیبر پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر مالیاتی مارکیٹس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین کو مزید سخت کرے گی۔
ڈیوڈ کیمرون کے سامنے اگلے پانچ سال کا کیا خاکہ ہونا چاہیے؟سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اب ایوان میں چھپن نشستوں کے ساتھ طاقتور ایس این پی موجود ہوگی اوروہ ایڈن برگ کے لیے مزید وسائل اور اختیارات کا مطالبہ کرے گی۔ اس کے ایک سابق رہنما کے الفاظ میں۔۔۔''سکاٹش شیر گرج رہا ہے۔‘‘ ہوسکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں سکاٹ کی علیحدگی کا سوال پھر کھڑا ہوجائے ، لیکن فی الحال ایس این پی ایوان میں (انگلش محاورے کے مطابق) کیک کا بڑا حصہ لینے کی خواہشمند ہو گی۔ 2017 ء میں مسٹر کیمرون کے سامنے ایک چیلنج اس وقت کھڑا ہوگا جب برطانیہ کے یورپی یونین کے ساتھ رہنے یا اس سے باہر نکلنے کا سوال پوچھا جائے گا۔ یورپی یونین سے باہر نکلنے کا مطالبہ صرف UKIPکا ہی نہیں بلکہ کچھ ٹوریز ارکان بھی اس کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اس کی رکنیت سے برطانیہ میں تارکین ِوطن کی تعداد بڑھ رہی ہے۔چنانچہ اگلے دوسالوں کے دوران یہ سوال ایک اہم ایشو بن کر سامنے آئے گا اور اس کے اثرات سٹاک مارکیٹ پر بھی دکھائی دیںگے۔ کئی ایک ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اعلان کردیا ہے کہ اگر لندن نے یورپی یونین سے اخراج کا رستہ چنا تو وہ اپنے ہیڈ کوارٹرز اور پیداواری یونٹس یورپی یونین کے دیگر دارالحکومتوں میں منتقل کردیں گی۔ استعفیٰ دیتے ہوئے مسٹر فاریج نے موجودہ انتخابی نظام پر تنقیدی سوالا ت اٹھائے۔ یقینانتائج نے اُنہیں صدمے سے دوچار کیا تھا کیونکہ وہ صرف ایک نشست حاصل کرپائے تھے حالانکہ اُنہیں 12.8 فیصد مقبولیت حاصل تھی۔ ان کے امیدوار 120حلقوں میں دوسرے اور 364 میں تیسرے نمبر پر رہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 2020ء تک ایک اہم سیاسی قوت بن سکتے ہیں۔ میں بھی اپنے پاکستانی قارئین سے معذرت خواہ ہوں کیونکہ انتخابات سے قبل کیے گئے میرے تجزیے غلط ثابت ہوئے، لیکن اس سے ایک بات ثابت ہوگئی کہ یہ پول سروے حقیقی سیاسی صورت ِحال کا تجزیہ کرنے میں ہربار کامیاب نہیں ہوتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں