بلیٹر کی جیت، فٹ بال کی ہار

ٹیکساس میں ہلاکت خیز سیلاب، جنوبی ایشیا کے سمندر میں روہن گیاس(برمی مسلمان) کی دل دہلا دینے والی ابتلا، داعش کی یلغار، کنزرویٹو حکومت کے آئینی مقاصد کے لیے ملکہ کی رہنما تقریر۔۔۔۔ یہ سب کہانیاں اہمیت کی حامل ، لیکن فٹ با ل کا جنون رکھنے والے برطانیہ کے اہم اخبارات کے پہلے صفحے اور ریڈیو اور ٹی وی کی ہیڈلائنزپرجو خبر سب سے نمایاں ہے اورجس نے باقی تمام کہانیوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے ، وہ فیفا(FIFA)کا سامنے آنے والا سکینڈل ہے۔ 
سوئٹزرلینڈ میں فٹ بال کی عالمی ایسوسی ایشن کے اہم عہدیداروںکی گرفتاری اور اُن سے ایف بی آئی کی تحقیقات اور سیپ بلیٹر کے پانچویں مرتبہ فیفا کی صدارت پر فائزہونے نے دنیا میں فٹ بال کے کروڑوں شائقین کو شدید صدمے سے دوچار کیا۔ یورپ کی فٹ بال کھیلنے والی اقوام بلیٹرسے بڑی حد تک نفرت کرتے ہوئے اُنہیں سخت تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ فیفا میں بدعنوانی کو تجارتی پیمانے تک فروغ پانے کی اجازت دینے(اور بہت سوں کے نزدیک خود اس میں حصہ دار بھی ہونے)کی وجہ سے بلیٹر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جارہا تھا لیکن استعفا دینے کی بجائے وہ فٹ بال کی اس عالمی ایسوسی ایشن کا صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے جو غیر معمولی پیش رفت ہے۔ بلیٹر کی کامیابی کا دارومدارفیفا کے افریقی اراکین کی حمایت پر ہے۔ سوئٹرزلینڈ سے تعلق رکھنے والے فیفا کے آٹھویں صدر، بلیٹر نے 1998ء میں پہلی مرتبہ صدر بننے کے بعد سے اب تک فٹ بال کے لیے سات سو کے قریب سٹیڈیمز اور انتظامی سہولیات تعمیرکرائی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افریقی ممالک میں تعمیر کی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیپ فلیٹر کو افریقی بلاک سے غیر مشروط حمایت مل جاتی ہے اورا س ایسوسی ایشن میں افریقی بلاک کے ووٹ سب سے زیادہ ہیں۔ 
اس دوران فیفا بدعنوانی اور رشوت کے ہوشربا سکینڈلز کی زد میں آیا لیکن اس مہارت سے بچ نکلا کہ جس پر ایک پاکستانی سیاست دان بھی دنگ رہ جائے۔ورلڈکپ میچوں کی ٹی وی کوریج سے لے کر ورلڈکپ لوگوز کو مصنوعات پر آویزاں کرنا اربوں ڈالر کا کھیل ہوتا ہے۔ گزشتہ عالمی کپ کو مارکیٹ کرنے کے حقوق ''International Sports Leisure‘‘ نے فیفا افسران کو سو ملین ڈالر رشوت دے کر حاصل کیے۔ اس کیس میں بہت سے افراد کا نام آیا، تاہم اُنہیں سوئس عدالت نے بری کردیا۔ اس کے علاوہ2018ء کا ورلڈکپ روس اور2022ء کا کپ قطر کو دینے پر بدعنوانی کے بھاری الزامات لگائے گئے ۔ زیورخ میں فیفا کے ہیڈکوارٹر کودوسو پچاس ملین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا لیکن اس دولت مند تنظیم کے لیے یہ معمولی رقم ہے۔ اُس وقت بلیٹر کا کہنا تھا۔۔۔''ہم فیفا کے جہاز کو مشکل پانیوںسے نکال کر پرسکون سمندر تک پہنچائیں گے‘‘، لیکن اُس وقت سے لے کراب تک، اس جہاز میں سوراخ پھیلتا جا رہا ہے۔ اب تواس کے ڈوبنے کا خدشہ لاحق ہوچلا ہے۔ 
بلیٹر کی صدارت میں فیفا کے لیے سب سے بڑا خطرہ Uefa(یورپین فٹ بال ایسوسی ایشن ) کی طرف سے ہے۔اس کی طرف سے بلیٹر کے استعفے کا پیہم مطالبہ جاری ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی صورت اپنے عہدے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ جارحانہ اقدام کے طور پر بلیٹر مخالف گروہ 2018ء ورلڈکپ، جو روس میں منعقد ہوگا، کا بائیکاٹ کرنے کا سوچ رہا ہے۔ تاہم اس میںخطرہ یہ ہے کہ اگرایسا کیا گیا تو اسے عالمی سیاست میں بلیٹر مخالف نہیں بلکہ مغرب کاماسکو مخالف اقدام تصور کیا جائے گا۔اس کپ کے لیے درکار انفراسٹرکچر کی تعمیر پر روس بھاری سرمایہ کاری کرچکا ہے۔ صدر پیوٹن نے پہلے ہی ایف بی آئی کی طرف سے شمالی اور وسطی امریکن فٹ بال ایسوسی ایشنز میں ہونے والی ایک سوپچاس ملین کی مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات پر بہت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔صدر پیوٹن کے مطابق یہ اقدام دیگر ممالک میں امریکی مداخلت کی راہ ہموار کرنے کے مترادف تصور ہوگا۔ اس عالم میں واشنگٹن کا 2018ء کے ورلڈکپ کا بائیکاٹ دو عالمی طاقتوں کے درمیان تنائو کو بڑھا سکتا ہے۔ 
ہمیں اب پتہ چل رہا ہے کہ 2010ء کا جنوبی کوریا میں ہونے والا عالمی کپ بھی بدعنوانی کے داغوں سے مبّرا نہیں تھا۔ تحقیقاتی رپورٹر اینڈریو جینگز(Andrew Jennings) کے مطابق جنوبی کوریا نے کم از کم دس ملین ڈالر کی رشوت کے عوض ورلڈ کپ حاصل کیا۔ فیفا کی بدعنوانی کا ایک کیس ابھی خبروں کی زینت نہیں بنا۔ اس کا تعلق ورلڈکپ کے لیے کی جانی والی سپورٹس اور دیگر سہولیات کی تعمیر سے ہے۔ فیفا کے نمائندوں کا اصرار ہوتا ہے کہ وہ تعمیراتی عمل کی سختی سے نگرانی کریں گے تاکہ عالمی کپ کے لیے طے شدہ معیار کو یقینی بنایا جا سکے ، لیکن ایسا کرتے ہوئے اس کے افسران تعمیراتی کنٹریکٹس دینے اور اس کے عمل کاجائزہ لینے میں''شراکت دار‘‘ بن جاتے ہیں۔ یہ بھی کئی ملین ڈالر کا کھیل ہے اور اسے عام فہم زبان ، جس سے ہم پاکستانی بخوبی آگاہ ہیں، کک بیک کہا جاتا ہے۔ 
کئی برسوں سے فیفا پر بھاری بدعنوانی کے لگنے والے بہت سے الزامات کی وجہ اس کا خود مختار ہونا ہے۔ یہ ایسوسی ایشن کسی کو جواب دہ نہیں ۔ اس کے علاوہ اس کی تجوریاں بھرنے والی کثیر ملکی کارپوریشنز اور نشریاتی حقوق حاصل کرنے والے ٹی وی چینلز کو چند ملین ڈالر ادھر اُدھر کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی وہ اس عمل کی شکایت کرتے ہیں۔ قطرجیسی ریاستیں بھی اس پر خوش ہیں کہ اُنہوں نے بھی بہر طور اپنی چھوٹی سی صحرائی ریاست میں دنیا کے عظیم ترین کھیل کا سب سے بڑا ایونٹ منعقد کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔۔۔ اور ''معمول‘‘ کے حالات میں ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ جب 2011ء میں قطر کو ورلڈ کپ دینے کا فیصلہ کیا گیا تو عالمی برادری دم بخود رہ گئی۔ اُس وقت بھی بدعنوانی کے الزامات کی باز گشت سنائی دی تھی۔ جب اہل یورپ کی طر ف سے کہا گیا کہ موسمِ گرما میں قطر میں اوسط درجہ حرات پچاس تک پہنچ جاتا ہے تو قطراور فیفا کے حکام نے سینہ تان کر یقین دلایا کہ فٹ بال کے لیے ائیر کنڈیشنڈ سٹیڈیم تعمیرکیے جائیں گے۔ بعد میں بلیٹر کا بیان آیا کہ فٹ بال سٹیڈیم کو ائیرکنڈیشنڈ کرنا ممکن نہیں ، اس لیے عالمی کپ کو قطرکے موسم ِسرما میں منتقل کیا جائے گا۔ جبکہ انہی مہینوں میں یورپی لیگ ٹورنامنٹ ہوتے ہیں ۔ فٹ بال کے شائقین اور اس کے معاملات پر نگاہ رکھنے والے افراد یورپی لیگ میچز کی اہمیت جانتے ہیں۔ 
کئی ایک اہم میڈیا ہائوسز نے قطر میں فٹ بال انفراسٹرکچر کی تعمیرات کے لیے بلائی جانے والی افرادی قوت ، جن کا بنیادی طور پر نیپال، سری لنکا، انڈیا اور پاکستان سے تعلق ہے، کے ساتھ کیے جانے والے نارواسلوک پر بھی رپورٹس شائع کی ہیں۔ اس دوران عرب ریاستوں میں جاری کفالہ نظام(جس کے تحت ایک غیر ملکی شہری کو کام کرنے کے لیے کسی مقامی عرب کو اپنا کفیل مقرر کرنا پڑتا ہے)کے تحت مزدوروںسے کیے جانے والے غیر انسانی سلوک پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ عرب ممالک میں کام کرنے والے ایشیائی باشندوں کے لیے یہ سلوک اجنبی نہیں اور خدشہ ہے کہ انفراسٹرکچر پر کام کرنے والوں میں سے اکثر ورلڈکپ کے انعقادتک زندہ نہیں رہیں گے، تاہم مغربی باشندوں کے لیے یہ غیر انسانی قبائلی نظام یقینا صدمے کا باعث ہے۔ فیفا نے وعدہ کیا تھا کہ قطر اپنے ''قوانین ‘‘ میں تبدیلی لائے گا اور مزدوروں کو واجب سہولیات فراہم کی جائیں گی لیکن کام کرنے والے ایشیائی مزدوروں سے انٹرویو کرنے والی بی بی سی کی ٹیم کے ایک کارکن کی گرفتاری سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ شیخ صاحبان کو مزدوروں کی فلاح نہیں، اپنی ساکھ کی فکرہے۔ چنانچہ کیا فیفا کی افسوس ناک صورت ِحال تبدیل ہوگی؟ غالباً سیپ بلیٹر کی موجودگی میں تو ایسا ممکن نہیں۔ دس ملین ڈالر سالانہ پیکیج، اعلیٰ ترین سفری سہولیات اور ایک ریاست کے سربراہ کے مساوی عزت رکھنے والے عہدے سے کون دستبردار ہوتا ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں