میں اس ہفتے کچھ اور لکھنا چاہتا تھا لیکن ایک قاری کی طرف سے بھیجی گئی ای میل نے میری توجہ کا رخ موڑ دیا۔ میرے قاری نے مجھے یاد دلایا کہ پچاس کی دہائی میں کلفٹن فیملی کی تفریح کے لیے بہترین جگہ ہوتی تھی اور بچے جہانگیر کوتھاری پریڈ، کتراک بینڈ سٹینڈ اور لیڈی لائیڈ پائر کے گرد بھاگتے دکھائی دیتے تھے۔ اب یہ تاریخی مقامات تعمیرات کی زد میں آچکے ہیں۔ پی پی پی حکومت کے ہاتھوں کراچی کے شہری صرف یہی نہیں بھگت رہے بلکہ بدعنوانی کی لغت میں چائنہ کٹنگ کا بھی نیا اضافہ ہوا ہے۔ عوامی منصوبوں کے لیے مختص کی گئی زمین یا اس کے کچھ حصے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ملی بھگت یا چشم پوشی کے ذریعے نجی پراپرٹی کے طور پر استعمال میں لائے جاتے ہیں یا فروخت کرکے بھاری رقم کھری کی جاتی ہے۔
حال ہی میں اس اتھارٹی کے دفتر میں رینجرز افسران نے چھاپہ مارا جس کے نتیجے میں زرداری صاحب آگ بگولا ہوگئے اور فوج کو کھری کھری سنا ڈالیں۔ اس کے ڈائریکٹر جنرل جن کا بہت پیارا سانام ہے۔۔۔۔۔ منصور کاکا۔۔۔۔۔۔ان کی اچانک طبیعت خراب ہوگئی (شاید موسم کا اثر ہے) اور وہ طبی وجوہ کی بنا پر رخصت پر چلے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی زرداری صاحب کے بہت قریب ہیں، اس لیے اُنہیں پی پی پی کی بہت سی تجوریوںکا علم ہے۔ کراچی کو اے ٹی ایم مشین کی طرح استعمال کرنے والا ایک شخص قمر صدیقی ہے جو کراچی فشریز ہاربر اتھارٹی کا صدر ہے۔ اب وہ رینجرز کی تحویل میں بہت سے ''نغمے‘‘ سنا رہا ہے۔ اگر اس کے اعتراف پر یقین کرلیا جائے تو ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی دولت کا70 فیصد بلاول ہائوس کو جاتا تھا۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ ایسے الزامات کو عدالت میں ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسے سندھ حکومت نے مقررکیا تھا۔
1970ء کی دہائی میں قائم ہونے والی پی پی پی کی پہلی حکومت ، چاہے آپ اس کی پالیسیوںسے اختلاف کرتے ہوں، اپنے جانشینوں خاص طور پر موجودہ پارٹی قیادت کے مقابلے میں بہت موثر اور شفاف تھی۔ بعد میں قائم ہونے والی تینوں حکومتیں بدعنوانی اور نااہلی کی نذر ہو گئیں ۔ موجودہ صوبائی حکومت اُن سے بھی بدتر ہے۔ ماضی میں پارٹی چاہے حکومت میں اچھی کارکردگی نہ بھی دکھائے، ایک موثر اپوزیشن ثابت ہوتی تھی لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ پارٹی نے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ معاہدہ کررکھا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے، وہ سراپا تعاون رہیں گے۔
حالیہ دنوں حیدرآباد میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے میری نظر خستہ حال اور بدنما عمارتوں پر پڑی۔ ہر طرف گندہ پانی کھڑا تھا اورہر چیز سے لاپروائی ٹپک رہی تھی ۔دل سے آہ نکلی کیونکہ کبھی یہ شہر بہت جاذب نظر ہوتا تھا۔ کراچی کے زیادہ ترحصے بھی ایسے ہی ہیں۔ اگرچہ کچھ عرصہ پہلے ایم کیو ایم کی شہری حکومت نے کراچی کی حالت سدھارنے کی کوشش کی ، لیکن پیپلز پارٹی کی توجہ کا مرکزاپنی حالت سدھارنے پر ہے۔
طویل عرصہ پر محیط میری تحریریں گواہ ہیں کہ میں نے ہمیشہ فوجی مداخلت کی مخالفت کی ہے اور میں معمول کے حالات میں سرکاری دفاتر میں رینجرز کی مداخلت اور بدعنوانی کے شبے میں افسران کی پکڑ دھکڑ کے خلاف ہوں لیکن اپنے شہر کو نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں کی وجہ سے اندھیر وں کا شکار ہوتے دیکھ کر دل سے صدانکلتی ہے : ''بس، بہت ہوگئی‘‘۔ میرے دوست ایاز امیر اور زاہد حسین نے حال ہی میں اپنے کالموں میں یہی سوال اٹھایا ہے کہ جمہوریت کے لبادے میں نااہلی اور بدعنوانی کو کتنی دیر تک برداشت کیا جاسکتا ہے؟یقیناً سیاست دانوں کو جمہوریت کے نام پر اپنی لالچ پوری کرنے کی ہمیشہ کے لیے چھٹی نہیں مل جاتی ؛ تاہم اس سے مراد جمہوریت کی مذمت نہیں اور نہ ہی ایک اور فوجی مداخلت کے لیے اپیل ہے، کیونکہ ہم اس کو اچھی طرح دیکھ چکے ہیں۔ درحقیقت آج ہمیں جن بہت سے مسائل کا سامنا ہے ، اُن کی وجہ فوجی حکومت ہی
تھی۔ اس کے با وجود فوج اور سیاست دانوں کے درمیان تنائو ملک کے لیے برا نہیں ۔ اگر ان کے درمیان شراکت داری ہو تو پھر سیاست دانوں کو کوئی ڈر اور خوف باقی نہیں رہتا اور وہ جوچاہتے ہیں کرگزرتے ہیں۔
سویلین حکومت اور فوج کے درمیان تنائو کا منفی پہلو یہ ہے کہ جب پی پی پی اقتدار میں تھی تو ایسا لگتا تھا کہ اس کی حکومت کسی بھی وقت ختم ہوسکتی ہے ؛ چنانچہ اس نے حلف اٹھاتے ہی وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور اپنے سامنے بہنے والی مالی گنگا میں ہاتھ دھونے شروع کردیے، جیسے ہم نے دیکھا کہ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو فوج اور عدلیہ کے ہدف رہے۔ پی پی پی کا بیانیہ یہ تھا کہ چونکہ وہ سندھی ہیں ، اس لیے اُنہیں نشانہ بنایا جاتا ہے؛ تاہم اب جبکہ سندھ میں ان کی حکومت تھی، انہوںنے سندھ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ پی پی پی کا موجودہ دور سندھ کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ سندھ اور پنجاب کے درمیان بہت فرق پڑچکا ہے۔ اب کراچی سے لاہور کی سیر کو آنے والا ایک نوجوان پکار اٹھتا ہے: ''ایسا لگتا ہے میں کسی اور ملک میں آگیا ہوں‘‘۔