جنگل میں تارکین ِوطن کے غول

کئی ہفتوںسے پورے برطانیہ میں ٹیلی ویژن سکرینوں پر دیکھا جارہا ہے کہ فرانس کے ساحلی شہر کیلاز(Calais) سے بہت سے تارکین ِوطن انگلش چینل عبورکرکے انگلینڈ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ داخل ہونے کی کوشش کرنے والے ان افراد کو ہر قیمت پر انگلینڈ سے دور رکھا جائے جبکہ کچھ آوازیں ہمدردی اور انسان دوستی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ میڈیا کی طرف سے اٹھائے گئے اس طوفان کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ صرف دو سے تین ہزار پناہ کے متلاشی افراد کیلاز کے ''جنگل‘‘ میں ہیں۔ دراصل تارکین ِوطن کے کیمپ کو جنگل کا نام دیا گیا ہے۔ اتنی تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود برطانوی وزیرِاعظم نے انہیں ''تارکین ِوطن کا غول‘‘ قرار دے دیا جو ان کے ملک میں آنے پر تلاہوا ہے۔ اگرچہ یہ جنگل کئی سالوں سے آنکھ کا بال بناہوا ہے، لیکن ان دنوں اس کی خبروں میں آنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ فرانس کے فیری ورکرز نے ہڑتال کرتے ہوئے یورو ٹنل کو بند کردیا ہے۔ اس کی وجہ سے ٹرین، کاریں اور بسیں رک گئی ہیں ؛ چنانچہ تارکین ِ وطن کو اپنی من پسند جگہ پر جانے کا موقع مل گیا۔سرنگ کے دونوں طرف گاڑیوں کی میلوں لمبی قطاریں ہیں جن پر میڈیا کے کیمروں کا فوکس ہے۔اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ گروہ درگروہ تارکین وطن انگلینڈ کی طرف امڈے چلے آرہے ہیں، لہٰذا اس منظر نے دائیں بازو کے رہنمائوں کو حواس باختہ کردیا ہے۔ 
یہ لوگ اتنی مشکل اٹھا کر برطانیہ میں داخل ہونے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟دائیں بازو کے برطانوی سیاست دانوں کا اصرار ہے کہ ان کا ملک پناہ گزینوں اور تارکین ِوطن کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے، اس لیے ہر قسم کے لوگ اس طرف کا رخ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کے آنے سے مقامی آبادی یقینی طور پر دبائو میں آتی ہے۔ اس وقت برطانوی معاشرے میں یہ تاثر تقویت پا رہا ہے کہ ان افراد کے آنے سے ان پر مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے۔ اس کے باوجود اگر یورپ میں مجموعی طور پر داخل ہونے والے افراد کا موازنہ اس ''جنگل‘‘ سے کیا جائے تو یہ برائے نام دکھائی دیتا ہے۔ صرف اس سال ترکی، لیبیا اور دیگر ممالک سے غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخل ہونے والوں کی تعداد دولاکھ کے قریب ہے۔ یونان کے کئی جزیرے ترکی کے ساحل سے کچھ ہی دور ہیں۔ یہاں سے ہزاروںافراد یورپی یونین میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ایک مرتبہ ان افراد کو لس باس (Lesbos) یا کسی اور جزیرے میں رجسٹرکرلیا جاتا ہے تو پھر اُنہیں یونان کے شہری علاقوں میں جانے کی اجازت ہوتی ہے، جہاںسے وہ فرانس ، جرمنی ، سکینڈے نیویا اور برطانیہ جانے کے لیے کمر کس لیتے ہیں۔ ان افراد کو روکنے کے لیے ہنگری ایک دیوار تعمیر کر رہا ہے۔ لیبیا سے اٹلی کی طرف سمندری راستے سے چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں آنے والے سیکڑوں افراد سمندر میں ڈوب جاتے ہیں لیکن کئی ہزار اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ اُنہیںاس غیر قانونی طریقے سے آنے کے لیے ایجنٹوں کو ہزاروں ڈالر دینے پڑتے ہیں، پھر بھی جان کو خطرے میں ڈالنا ہی پڑتا ہے، لیکن لوگ آتے رہتے ہیں۔ 
ایسا کیوں ہے کہ لوگ یورپ میں داخل ہونے کے لیے اتنے بے تاب ہوگئے ہیں؟ دراصل ان افراد کے آبائی ممالک میں بڑھتی ہوئی غربت، عدم تحفظ کا احساس اور بہت سے دوسرے حوصلہ شکن عوامل اُنہیں مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں کی طرف جانے اوراپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس وقت قومی آبادی کے تناسب سے جو قوم یورپ میں داخل ہونے والوں میںسب سے اونچے درجے پر ہے، وہ اریٹریا کے باشندے ہیں۔ اگرچہ اریٹریاکی ایتھوپیا سے جنگ ختم ہوئے مدت ہوچکی لیکن فرد ِواحد کی سخت گیر آمریت جو شمالی کوریا کی یادتازہ کرتی ہے، گزشتہ دودہائیوںسے اقتدار پر قابض ہے۔ یہاں نوجوانوں کو پچیس ڈالر ماہانہ تنخواہ پر جبری طور پر فوج میں بھرتی کرکے طویل عرصے تک سخت جسمانی مشقت لی جاتی ہے؛ چناچہ ان کے پاس اپنے وطن سے بھاگ جانے کا محرک موجود ہے۔ 
تاہم یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایتھوپیا کے ساتھ طویل اور خونی جنگ، جس کی وجہ سے موجودہ آمر حکمران کو اقتدار حاصل کرنے کا موقع ملا، 1962ء میں ایتھوپیا کے شہنشاہ ہیلی سلاسی (Haile Salassie) کی طر ف سے اریٹریا کی سرزمین پر زبردستی قبضے کی کوشش تھی۔ یہ دونوں ممالک اٹلی کے نوآبادیاتی نظام کا حصہ تھے۔اس کے خاتمے کے بعد وہ 1941ء میں آزاد ملک بن کر ابھرے۔ چنانچہ اریٹریا کی موجودہ صورت ِحال کی ذمہ داری یورپی نوآبادیاتی اور استحصالی قوتوں کے سرجاتی ہے۔ کشمیر سے لے کر شام تک، بہت سے علاقوں میں ہونے والی کشمکش کی جڑیں بھی اُسی نوآبادیاتی نظام میں گڑی ہوئی ہیں۔ اس وقت اگر لیبیا سے ہزاروں افراد فرار ہوکر دنیا کے دیگر حصوں کی طرف جا رہے ہیں تو یہ کوئی محض اتفاق نہیں۔ جب قذافی کو ہلاک کرنے میں نیٹو نے باغیوںکی مدد کی تو ملک میں حکومت نامی کوئی چیز باقی نہ رہی۔ قذافی کی ہلاکت کے بعد سے ملک میں جنگل کا راج ہوگیا اوریہاںسے لوگ جان بچا کر دیگر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ حکومت نامی کسی چیز کی غیر موجودگی میں جرائم پیشہ افراد کے گروہ ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں۔ یہاں سے سرکاری اسلحہ خانے لوٹ کر مختلف گروہوںاور انتہا پسند تنظیموں کو ہتھیار فراہم کرنے کا دھندہ عروج پر ہے۔دنیا نے قذافی کو ہٹاکر کیا پایا؟شام کا شیرازہ بکھرنے کے عمل کی جڑیں عراق پر نیٹو اور امریکی افواج کے حملوں میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ان حملوں کے نتیجے میں وہاںانتہا پسندی پیدا ہوئی ۔کبھی صدام کی سیکولر بعث پارٹی نے ان مذہبی عناصرکو دبا کر رکھا ہوا تھا، لیکن صدام حسین کے بعد عراق ہر قسم کی انتہا پسند تنظیموں خاص طور پر شیعہ سنی کشمکش کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ یہاںسے پھوٹنے والی مسلکی نفرت کی لپیٹ میں بشارالاسد بھی آرہے ہیں۔لہٰذا شام اور عراق سے بھی مہاجرین بڑی تعداد میں یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔ 
جب یورپی اقوام ان پناہ گزینوں اور تارکین ِوطن کو اپنی سرحدوں پر روکنے یا اس مسئلے کا تدارک کرنے کا سوچیں تواُنہیں اس کے پیچھے اپنی ذمہ داری پر بھی ضرور غورکرنا چاہیے؛ تاہم زیادہ تر لوگ، جیسا کہ ڈیوڈ کیمرون، تاریخ کا مطالعہ کرنا پسند نہیں کرتے اور بے دھڑک ہوکر ان فراد کو ''تارکین وطن کے چھتے‘‘ قرار دے ڈالتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی ڈکشنری میں آج کل لفظ ''ہمدردی‘‘ متروک ہوچکا ہے۔یورپ بھر میں تارکین وطن کو ایک خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ Ipsos سروے کے مطابق جدید ممالک کے کم وبیش نصف کے قریب افراد کا خیال ہے کہ تارکین ِوطن کی وجہ سے اُنہیں اپنے رہن سہن میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرنا پڑ رہی ہیں جو وہ پسند نہیں کرتے۔ ترکی، اٹلی اور روس میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہے جو تارکین وطن کی وجہ سے اپنی زندگی میں ناروا تبدیلیاں دیکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں دیکھا جاسکتا ہے کہ یورپ بھر میں نسل پرست اور دائیں بازو کی جماعتیں سیاسی مقبولیت حاصل کرتی جا رہی ہیں۔ نسل پرست رہنما ، جیسا کہ نیشنل فرنٹ کی Le Pen اور یونائیٹڈ کنگڈم پارٹی کے فاریج، مقبولیت حاصل کررہے ہیں کیونکہ یہ رہنما تارکین ِوطن کے خلاف پیدا ہونے والے جذبات کو سیاسی فائدے میں ڈھال رہے ہیں۔جب دنیا میں کشمکش مزید بڑھے گی تو یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہوکر سراٹھائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں