ٹھہریں‘ سلاد مت کھائیں

ہم پاکستانی‘ گلیوں اور سڑکوں پر فروخت ہونے والے کھانے پسند کرتے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو، کیا ان کا شمار دنیا کے بہترین کھانوں میں نہیں ہوتا؟ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے لیے ہم جو قیمت ادا کرتے ہیں، اس کا شمار روپوں میں نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات کھانا کھاتے ہی پیٹ تھام کر ٹوائلٹ کی طرف دوڑ لگانا پڑتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہوٹل دنیا کے گندے ترین ہوٹل ہیں اور یہ صرف سڑک کے کنارے بکنے والے کھانوں پر ہی منحصر نہیں، اچھے ریستورانوں کا بھی یہی حال ہے۔ 
اشیائے خورونوش کے حوالے سے تکلیف دہ حقائق حالیہ دنوں سامنے آرہے ہیں، جب لاہور اور راولپنڈی میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے انسپکٹروں نے عائشہ ممتاز صاحبہ کی سربراہی میں اشیائے خورونوش فروخت کرنے والے مقامات پر چھاپے مارنے شروع کیے۔ عائشہ ممتاز اور ان کی ٹیم نے لاہور میں 5500 مقامات پر چھاپے مارے، 250 کو بند کیا اور 2,500 کو نوٹس بھیجے۔ ان کارروائیوں نے لاہور کی فوڈ اسٹیبلشمنٹ، جن میں نام نہاد فائیو سٹار ہوٹل بھی شامل تھے، کی پیشانی شکن آلود کر دی؛ تاہم وزیر اعلیٰ کی پشت پناہی کی وجہ سے فوڈ اتھارٹی کسی دبائو کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ اگر آپ ثبوت دیکھنا چاہتے ہیں کہ دنیا کے ہمارے حصے میں مہنگے ہوٹل بھی کتنے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں تو دیکھیں، حالیہ دنوں بنگلہ دیش کا دورہ کرنے والی جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ کیا ہوا۔ ٹیم کے دس کھلاڑیوںکو فوڈ پوائزنگ کی وجہ سے ہسپتال جانا پڑا۔ اکثر غیرملکی انڈیا کے دور ے پر جب پیچش کے شکار ہو جاتے ہیں‘ تو وہ اس بیماری کو ''دہلی بیلی‘‘ (Delhi Belly) کا نام دیتے ہیں۔ جب میرے دوست وہاں جاتے ہیں تو میں اُنہیں خبردار کرتا ہوں کہ نہ تو کچی سبزیاں اور سلاد کھائیں اور نہ ہی ٹونٹی کے پانی سے دانت صاف کریں۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ ہمارے شاندار کھانوں سے لطف اندوز ہونے پر تلے ہوئے ہیں تو آخر کتنی احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں؟ اگر ریستورانوں کے کچن انتہائی صاف ہوں‘ تو بھی برتن اور کھانے کی اشیا تو دستیاب پانی سے ہی دھوتے ہوں گے اور یہ پانی بھی مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال پیچش کے ایک سو ملین کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ چالیس فیصد اموات کی وجہ ناقص اور آلودہ پانی ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر سال پچیس ہزار پاکستانی بچے آلودہ پانی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ یہ صورت حال افسوسناک تو ہے، حیران کن نہیں کیونکہ ہمارے شہری علاقوں کا صرف آٹھ فیصد اور صنعتی یونٹس سے خارج ہونے والا صرف ایک فیصد پانی ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ مجھے کوئی بیس سال پہلے کراچی میں شدید قسم کا یرقان ہو گیا تھا اور میری حالت اس قدر خراب ہوئی کہ میں زندگی سے تنگ آ گیا۔ کئی ہفتوں کے علاج کے بعد میری صحت بحال ہوئی اور میں زندگی کی طرف واپس لوٹ سکا۔ لندن آنے پر ایک ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ جنوبی ایشیا میں یہ بیماری عام ہے کیونکہ یہاں زیادہ تر لوگ ٹوائلٹ کے بعد ہاتھ درست طریقے سے نہیں دھوتے ہیں۔ چونکہ یرقان فضلات کے ذریعے پھیلتا ہے، اس لیے گندے ریستوران اس کے پھیلائو کا اہم ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ ان ریستورانوں کے برتن کسی گندی، تاریک اور ٹھنڈی جگہ پر کسی بالٹی یا ٹب میں جمع پانی سے دھوئے جاتے ہیں۔ تمام گندی پلیٹوںکو اکٹھا پانی میں ڈال کر کسی مزید گندے کپڑے سے ''صاف‘‘ کر لیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ برتن صاف کرنے والا یا کھانا کھانے والوں میں سے کوئی اس مرض میں مبتلا ہو۔ ایک اور بات، تنگ اور گرم کچن میں کھانا پکاتے ہوئے باورچی کو پسینہ تو بہت آتا ہے، یہ پسینہ گرتا کہاں ہے؟ چلیں چھوڑیں، بتانے کی ضرورت نہیں آپ جانتے ہیں۔ 
انفراسٹرکچر سے کئی عشروں تک غفلت اور کوتاہی برتنے کی وجہ سے ہمارے زیادہ تر سیوریج پائپ پرانے، بوسیدہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان سے رسنے والا گندا پانی تازہ پانی کے ساتھ مل جاتا ہے؛ چنانچہ گھروں میں ٹونٹی سے آنے والا پانی (اگر خوش قسمتی سے آپ کے ہاں آتا ہو) انواع و اقسام کے جراثیم سے آلودہ ہوگا۔ بہت سے لوگ جو پانی کو اُبال کر استعمال کرتے ہیں، وہ بھی اتنی دیر تک نہیں ابالتے جتنی ضرورت ہوتی ہے۔ جراثیم کو ہلاک کرنے کے لیے پانی کو بیس منٹ تک اُبالنا چاہیے۔ ان تمام ناخوشگوار حقائق کو دیکھتے ہوئے پنجاب میںگندے ریستورانوں اور ہوٹلوں کے خلاف کارروائی کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ سندھ اپنے ہزاروں ریستورانوں کے خلاف ایسے اقدامات کرتا کیوں دکھائی نہیں دیتا۔ یقیناً وہ بھی پنجاب کے ریستورانوں جتنے ہی گندے ہیں، لیکن بات یہ ہے کہ پنجاب میں موجودہ فوڈ اتھارٹی کو وزیر اعلیٰ کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ جہاں تک سندھ کا تعلق ہے، وہاں پی پی پی کی حکومت اور سرکاری افسران دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹنے میں اتنے مصروف ہیں کہ ان کے پاس ایسے کاموں کے لیے وقت ہی نہیں۔ 
اگرچہ ناقص خوراک اور آلودہ پانی سے عوام کو بچانے کے لیے قوانین موجود ہیں لیکن انسپکٹرز نوٹس دے کر صرف رشوت کی رقم کھری کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ریستورانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے سٹاف کا سال میں دو مرتبہ طبی معائنہ کرائیں، لیکن ہمارے ہاں اس کی پروا کون کرتا ہے؟ کچھ سادہ سے طریقے اختیار کرکے ہزاروں اموات اور علالت کی وجہ سے لاکھوں ورکنگ ڈے ضائع ہونے سے بچائے جا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاںسیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس اگر لگائے گئے ہیں‘ تو بھی ان کی نہ تو مرمت ہوتی ہے اور نہ ہی فلٹر وغیرہ تبدیل کیے جاتے ہیں۔ زیر زمین پائپ تبدیل نہ کیے جانے کی وجہ سے بوسیدہ ہو چکے ہیں، فیکٹریاں کیمیکلز ملا ہوا لاکھوں گیلن پانی قریبی دریائوں اور ندیوں میں گراتی ہیں۔ اس پانی سے آبپاشی کی جاتی ہے؛ چنانچہ ملک بھر کے کھیتوں میں آلودگی پھیل جاتی ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کے قوانین موجود، لیکن اُنہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جب انسپکٹروں کی مٹھی گرم کر دی جائے تو اُن کی نگاہوں کا زاویہ بدل جاتا ہے۔ 
یہ سب کچھ سیاست دانوں اور صحافیوں کی نظروں کے سامنے ہو رہا ہے، لیکن وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ کچھ رپورٹرز گندے ریستورانوں اور ناقص پانی کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن ان کی رپورٹوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اشرافیہ تو منرل واٹر خرید لیتی ہے (اگرچہ ہمارے ہاںاس کی کوالٹی بھی مشکوک ہے) لیکن اُنہیں ملک کے کروڑوں افراد کی کوئی پروا نہیں کہ وہ آلودہ پانی اور خوراک کی وجہ سے یرقان، پیچش، گیسٹرو اور مختلف جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں لہٰذا اگلی مرتبہ آپ باہر سے کھانا کھائیں تو سلاد سے اجتناب کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں