الیکشن کوئی راکٹ سائنس نہیں

عمران خان کی طرف سے2013ء کے انتخابی نتائج پر اٹھائے گئے طوفان اور مچائے گئے شور سے اگر کوئی بہتری کی توقع تھی تو امید کی جانی چاہیے کہ اگلے انتخابات، جو 2018ء میںکسی وقت ہونے ہیں، دھاندلی اور بے ضابطگیوں سے ممکنہ حد تک پاک ہوںگے۔ کئی برسوں سے ہم اس بات کے عادی ہو چکے ہیںکہ ہمارا الیکشن کمیشن اس سے بہتر نہیںہوسکتا‘ جو ہے۔ ہم اس کی خامیوں، کوتاہیوں اور لغزشوںسے سمجھوتہ کرچکے ہیں۔ دراصل سرکاری افسرشاہی سے ہمیں اس سے زیادہ توقعات ہوتی بھی نہیں ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ معاملات نے بہتری کے بجائے مزید خرابی کی طرف بڑھنا ہے اور ہماری یہی واحد ''توقع‘‘ ہمیشہ پوری ہوتی ہے، اس ضمن میں ہمیں ''مایوسی‘‘ کا منہ کبھی نہیں دیکھنا پڑا۔ 
ہوسکتا ہے، میں بہت سے معاملات پر عمران خان سے اتفاق نہ کروں، لیکن میں نے اُن کے انتخابی اصلاحات کے مطالبے کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ الیکشن کمیشن نے حال ہی میں انکوائر ی کمیشن کی طرف سے کی گئی تنقیدکو اگلے انتخابات میں اصلاح لانے کے منصوبے میں شامل کرلیا ہے۔ موجودہ نظام میں برائے نام تبدیلیاں کرنے کے بجائے کچھ بنیادی اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان کی حیثیت کیا ہے، میں کچھ تبدیلیوںکا مشورہ دینا چاہتا ہوں۔ میرا پہلا سوال یہ ہے کہ ایک امیدوارکو ایک سے زائد حلقوںسے کھڑا ہونے کی اجازت کیوں دی جاتی ہے؟جہاں تک میں جانتا ہوں، دنیا کی کسی جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا کہ ایک امیدوار متعدد حلقوں سے الیکشن لڑ رہا ہو۔ برطانیہ میں، جہاںسے جمہوریت کا آغاز ہوا، اس کی ہرگز اجازت نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں پارٹی لیڈر سوچتا ہے کہ کسی مخصوص حلقے میں طاقتور حریف کے مقابلے میں ان کی پارٹی کے کمزور امیدوار کے کامیاب ہونے کے امکانات معدوم ہیں‘ تو وہ خود وہاںسے کھڑا ہوجاتا ہے۔ کسی رہنماکا ایک سے زیادہ حلقوں میں کامیاب ہونا اُس کی ''بے پناہ‘‘ مقبولیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کامیاب ہونے کے بعد وہ ایک کے سوا باقی تمام نشستیں چھوڑ دیتا ہے اورخالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوتا ہے۔ 
درست طریقہ یہ ہے کہ عوام کو ایسا امیدوار منتخب کرنے کا موقع دیا جائے‘ جو ان کے حلقے سے تعلق رکھتا ہو اور منتخب ہوکر ان کے علاقے پر توجہ دے سکے۔ کسی نامی گرامی سیاست دان کا ملک کے کسی اور حصے سے اٹھ کر پیرا شوٹ کے ذریعے کسی اور حلقے میں اترنا اور بدقسمتی سے کامیاب ہوجانا وہاںکے لوگوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ،کیونکہ منتخب ہونے کے بعد وہ اُن کی رسائی سے دور ہوجاتا ہے یعنی ان کے ہتھے نہیں چڑھتا۔ اس سے میرے ذہن میں خیال آتا ہے کہ ہمیں ایک اور تبدیلی کی ضرورت بھی ہے۔ اس وقت صوبائی اور قومی سطح کے امیدواروںکا انتخاب پارٹی قیادت کرتی ہے۔ پارٹی ہر حلقے سے ایسے امیدواروںکو ٹکٹ کیوں نہیںدیتی جنہیں مقامی افراد کی حمایت حاصل ہو؟ اگر یہ پالیسی اپنا لی جائے تو سیاست دانوںکو اپنے اپنے حلقے سے وابستگی رکھتے ہوئے عوامی حمایت جیتنا ہوگی اور اپنی کارکردگی سے پارٹی قیادت کو ٹکٹ دینے کے لیے قائل کرنا ہوگا۔ اس طریقے سے سیاست دانوںکوکسی پارٹی کی مقبولیت کی پکی پکائی کھیر نہیں ملے گی، اُنہیں عوام کے درمیان جانا پڑے گا۔ 
گزشتہ سال مجھے یہاں برطانیہ میں کسی انتظامی معاملے پر اپنے علاقے کی رکن پارلیمنٹ سے ملنا پڑا۔ اُس محترمہ نے مجھے وقت دیا اور بہت مہربانی سے پیش آئیں۔ اس کے بعد آج تک مجھے اُن کی ای میلز باقاعدگی سے آتی ہیں۔ وہ مجھے بتاتی رہتی ہیں کہ وہ اس حلقے کے لیے کیا کر رہی ہیں اور اُن کی ویسٹ منسٹر میں کیا مصروفیات ہیں۔ یہ مہربانی صرف مجھ تک محدود نہیں، وہ یقیناً اپنے حلقے کے ہزاروں افراد سے رابطے میں رہتی ہوںگی۔ اسی طرح کے رابطوں سے ہی سیاسی ساکھ بنتی ہے۔ کیا آپ پاکستان میں ایسی کوئی مثال جانتے ہیں؟ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ منتخب ہونے کے بعد زیادہ تر نمائندے اپنے حلقوں میں کبھی نہیں دیکھے جاتے۔ وہ صرف انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے نمودار ہوتے ہیں، اس کے بعد پردہ داری کو رسم ِدنیا بنا کر اسلام آباد یا صوبائی دارالحکومت کی فضائوں میں روپوش ہوجاتے ہیں۔ 
اب انتخابات کے اصل مسئلے کی طرف واپس آئیں۔ انگوٹھے لگانے والی سیاہی کا استعمال صرف وقت کا زیاں ہے۔ میں نے جب بھی اسے انگوٹھے پر لگایا، نہایت آسانی سے صاف ہوجاتی ہے۔ اس کی بنیاد پر آپ کسی شخص کو ایک سے زائد ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتے۔ کیوں نہ ووٹ ڈالنے والوںکی پولنگ بوتھ میں داخل ہوتے وقت تصویر اتارلی جائے۔ آج کل ڈیجیٹل فوٹوگرافی پرکوئی خرچہ نہیں آتا۔ اس سے پریزائیڈنگ آفیسر کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ یہ شخص پہلے تو ووٹ نہیں ڈال چکا۔ اردگرد لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمرے اس بات کا جائزہ لیںکہ آیا کوئی کسی کو ڈرا دھمکا کر جعلی ووٹ ڈالنے پر تو مجبور نہیں کررہا؟ نقاب پوش خواتین کی تصویر لیڈی پریزائیڈنگ آفیسر بنائے گی۔ اس پر قدامت پسند خاندانوںکوغیر محرم کے سامنے تصویر اتروانے کے لیے بے نقاب ہونے پر اعتراض نہیں ہوگا۔ 
اس وقت الیکشن کمیشن ایک چیئرمین اور چاروں صوبوں سے ایک ایک رکن پر مشتمل ہے۔ یہ تمام افراد ریٹائرڈ جج ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تمام افراد قانونی میدان میں ماہرہوںگے اور بطور وکیل اور جج یہ اس نظام کو بھی اچھی طرح جانتے ہوںگے، لیکن ہوسکتا ہے وہ مطلوبہ انتظامی صلاحیتیں نہ رکھتے ہوں۔ کسی بھی ریٹائرڈ جج کو قدرت ہر قسم کی صلاحیتوںسے نہیں نواز دیتی۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ قومی اور صوبائی حلقوں میں انتخابی مرحلے پر بہت تنائو ہوتا ہے۔ اس میں بہت سے چیلنج درپیش ہوتے ہیں اورہوسکتا ہے کہ ایک ریٹائرڈ شخص اتنادبائو برداشت نہ کرسکے۔ انتخابات سے پہلے لاجسٹکس بھی مشکوک رہتے ہیں۔ ہزاروں عارضی ملازمین کی خدمات حاصل کرکے اُنہیں برائے نام تربیت دی جاتی ہے، کروڑوں بیلٹ پیپر شائع کیے جاتے ہیں، پھر اُنہیں ملک کے دور دراز علاقوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہر پولنگ اسٹیشن پر سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ آخر میں ڈالے گئے ووٹوں کو گنتی کے بعد محفوظ مقام پر پہنچایا جاتا ہے۔ ان تمام مراحل میں کہیں نہ کہیں، دیدہ دانستہ ، غلطی یا بددیانتی کا امکان موجود رہتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا ہونا کوئی غیر متوقع واقعہ نہیں ہوتا۔ ان مسائل پر قابو پانے کے لیے بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ ہورہی ہے اور یہ نہایت کامیاب طریقے سے ایک عشرے سے ہورہا ہے۔ ہم بھی الیکٹرانک ووٹنگ کا طریقہ کیوںنہیں اپناتے؟ آخری بات یہ کہ زیادہ تر ممالک دوسرے ممالک میں مقیم اپنے شہریوںکوووٹ ڈالنے کی اجازت دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ معاملہ اٹھایا تھا لیکن الیکشن کمیشن نے یہ کہہ کر اسے سرد خانے میں ڈال دیا کہ دوسرے ممالک میں رہنے والے شہریوں کے ووٹ بنانے کے لیے طویل وقت درکار ہے۔ الیکشن کمیشن سے گزارش ہے کہ ابھی کافی وقت پڑا ہے‘ یہ تمام کام کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں