گوشت کھانے پر قتل

آج کل ہندوستان کو شیزوفرینیا کے عجیب سے احساس نے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ ایک طرف اس کے سائنس دانوں نے مریخ کے مدار میں راکٹ بھیج دیا اور زمین کے مدار میں ایک دور بین چھوڑدی جس کی مدد سے دور خلا میں جھانکنا ممکن ہوسکے گا اور دوسری جانب پنجاب (ہندوستانی ) میں جنونی ہجوم نے محمد اخلاق کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہلاک کردیا جبکہ اُس کا بیٹا شدید زخمی ہے۔ اُن پر الزام یہ تھا کہ اُن کے فریج سے گائے کا گوشت ملا ہے۔ ایک ملک میں پائے جانے والے ان تضادات کی کیسے وضاحت کی جائے؟
اس جنون کو ہوا دینے میںوزیر اعظم نریندر مودی کا بھی ہاتھ ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ قدیم ہندوئوں نے ہزاروں سال پہلے جینیٹکس سائنس، پلاسٹک سرجری اور ہوائی جہاز ''دریافت‘‘ کرلیے تھے اور اُن کے مطابق قدیم دیومالائی ہندو داستانوں اور جدید سائنس میںکوئی تضاد نہیں۔ یہ آرایس ایس کے پھیلائے ہوئے شدت پسندانہ نظریات ہیں جن کی لگائی ہوئی آ گ میں آج ہندوستان کی اقلیتیں جل رہی ہیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ سے پتا چلا کہ محمد اخلاق کے گھر پایا جانے والا گوشت گائے کا نہیں، بکرے کا تھا۔ اب اُس قتل کو پیش آنے والا ایک ''ناخوشگوار واقعہ‘‘ قرار دیا جا رہا ہے اور سیاست دان بھی یہ کہنے سے گریز کر رہے ہیں کہ اس بد قسمت مسلمان کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ اس کا مستحق تھا۔ ہندوستانی وزیر ثقافت مہیش شرما نے اس واقعے کے بعد یہی کہا تھا۔ دوسرے وزرا بھی اس قتل کی مذمت کرنے سے گریزاں تھے۔ 
کئی حوالوںسے یہ افسوس ناک واقعہ پاکستان میں پیش آنے والے ان واقعات کی یاد دلاتا ہے جن میں توہین کے الزام میں بیچاری اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ بھارت میںاب تک اخلاق کے قتل کے الزام میں چھ افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے، لیکن پاکستان میں شاید ہی تشدد کرنے والے ہجوم میں سے کسی کو گرفتار کیا گیا ہو۔ ہمارے ہاں ہندوئوں، قادیانیوں اور مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو توہین کا جواز بنا کر ہلاک کرنے والوں کو شاید ہی کبھی سزا ملی ہو۔ افسوس، پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے لیکن یہاں اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے، لیکن بی جے پی کی مودی سرکارکو سیکولر آئین کے تقاضوں کی کوئی پروا نہیں۔ بی جے پی حکومت کی صفوں سے کبھی زبانی دعوے کے طور پر بھی اقلیتوںکے حقوق کے تحفظ کی بات نہیں کی گئی۔ 
ایک سیکولر معاشرے میں تمام عقائد کے پیروکاروں کو مساوی سمجھا جاتا ہے جبکہ ریاست کسی مذہب کی سرپرستی نہیں کرتی، لیکن یوگا ڈے کو قومی سطح پر منانے اور مذہبی رسومات اور عقائد کے علامتی اظہار کو استعمال کرتے ہوئے مودی اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنے طرزِعمل سے یہ بات ثابت کر رہے ہیں کہ اگرچہ بھارت میں تمام مذاہب برابر ہیں لیکن ہندوازم کوخصوصی امتیاز حاصل ہے۔ ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ میں یوگا کا بطورایک ایکسرسائز مخالف نہیں کیونکہ یہ جسم اور ذہن کی صلاحیتوں کے ارتکاز کے لیے بہت مفید ہے، میں خود بھی اس سے مستفید ہوا ہوں، لیکن اسے صرف اس بنا پر ایک قومی فرض قرار دینا کہ اس کا تعلق قدیم ہندو مذہب سے ہے، اقلیتوں کو عدم تحفظ کا شکار کرنے کا باعث بنے گا۔ 
بھارت کی کئی ریاستوں میں گائے کے گوشت پر پابندی کے باوجود دہلی میں مویشیوں کی چوری عام ہے۔ بہت سے منظم گروہ ادھر اُدھر بھٹکنے والی گائے ٹرکوں میں ڈال کر غیر قانونی ذبح خانوں میں فروخت کر دیتے ہیں۔ درحقیقت بھارت بیف برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے؛ تاہم زیادہ گوشت بھینس کا ہوتا ہے جسے ہندوازم میں تقدیس حاصل نہیں ہے۔ بہرحال اب زیادہ ہندو گوشت کے مختلف ذائقوں سے آشنا ہوتے جا رہے ہیں۔ پنڈت نہرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں کباب بہت مرغوب تھے؛ چنانچہ اُنھوں نے گائے ذ بح کرنے پر پابندی لگانے سے انکارکردیا۔ ایک ہندو لیڈر نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ مہا بھارت میں بیف کھانے کے بہت سے حوالے موجود ہیں۔ 
یقیناً ایک معاشرے میں بنائے جانے والے قوانین اس کی
ثقافتی اور مذہبی اقدار کی عکاسی کرتے ہیں، لیکن سیکولر ریاستیں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ ان کے مذہبی احکامات کسی خاص گروہ یا اقلیت کے حقوق کو پامال نہ کریں۔ ایک کثیر مذہبی معاشرے میں ایسا کرنا آسان کام نہیں۔ بہت سے بظاہر سیکولر معاشرے بھی ایسا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس میں مسلمان خواتین عوامی مقامات پر مکمل برقع نہیں پہن سکتیں۔ ہندوستان میں بیف پر پابندی سے مسلمانوں کے علاوہ شودروں (دلتوں) کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ بیف سستی ترین دستیاب خوراک ہے۔ گائے ذبح کرنے پر جنوبی ایشیا میں پائی جانے والی کشیدگی کی روایت قدیم دور میں بھی ملتی ہے۔ ہندو مسلم فرقہ وارانہ کشیدگی کے دور میں اکثر اوقات ہندوئوں کو ذبح شدہ گائے کے ٹکڑے اپنے مندروں میں ملتے جبکہ مسلمانوں کی مساجد میں ایک حرام جانور کا سر ملتا۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے پر الزام لگا کر لڑنا شروع ہو جاتے۔ حال ہی میں سری لنکا میں بدھ مت کو ماننے والا ایک انتہا پسند گروہ بھی مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے پر نشانہ بنا رہا ہے۔ سپر مارکیٹوں کومجبور کیا گیا ہے کہ وہ ایسا گوشت ہرگز فروخت نہ کریں جس پر ''حلال‘‘ کا لیبل لگا ہوا ہو۔ اگرچہ سری لنکا میں پائی جانے والی گائے کے گوشت کا ذائقہ انتہائی خراب ہوتا ہے لیکن مسلمان اسے استعمال کرتے ہیں۔ بدھ مذہب کے پیروکار ان کی اس عادت کو ناپسند کرتے ہیں، لیکن اب یہ ناپسندیدگی پرتشدد کارروائیوں میں ڈھل رہی ہے۔ میں بھی یہ اعتراف کرتا چلوں کہ مجھے بھی نیم پختہ کباب پسند ہیں، لیکن اگران کی وجہ سے میرے ہمسایوں کی دل شکنی ہو تو میں اپنے منہ کے مزے کو ان کے جذبات پر ترجیح دینے کے حق میں نہیں۔ درحقیقت بھارت میں پیش آنے والے واقعے میں خوراک کی ترجیح سے زیادہ مذہبی فرائض اور انسانی حقوق کا مسئلہ کارفرما ہے۔
محمد اخلاق پر ایک مشتعل ہجوم کی طرف سے حملہ، دراصل ہندو معاشرے میںطاقتور ہوتی ہوئی مذہبی عصبیت پر مبنی قوم پرستی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس عصبیت کا جارحانہ پن اندرونی اور بیرونی، دونوں سطحوں پر نمایاں ہے۔ ملک میں اقلیتوں پرحملوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے ساتھ فائرنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات اور نیپال کو پٹرولیم کی سپلائی روک دینے میں یہی ذہنیت کار فرما ہے۔ پاکستان پر تو خیر انڈیا کا اتنا زور نہیں چلتا لیکن وہ نیپال پر اس لیے دبائو ڈال رہا ہے کہ اُس نے آئین میں تبدیلی بھارت کی مرضی سے کیوں نہیں کی۔ تاہم سیکولر اقدار کے کمزور پڑنے سے ہندوستان بطور ایک ریاست کمزور ہوتا جائے گا۔ یہ اتنا بڑا اور مختلف مذاہب کے اتنے زیادہ پیروکاروںکا ملک ہے کہ کوئی ایک جماعت اپنے مذہبی نظریات نافذ کرتے ہوئے اس پر حکومت کر ہی نہیں سکتی۔ اس کے مختلف عقائد اورکلچر اس کی طاقت کا باعث ہیں، لیکن اگراقلیتوں کو عدم تحفظ کا احساس بڑھتا گیا تو اس کے وفاق کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ نہرو اور ان کے کانگرس کے ساتھیوں نے ابتدا میں ہی اس خطرے کو بھانپ لیا تھا؛ چنانچہ اُنہوں نے ملک کو سیکولرازم کے راستے پر ڈال دیا کہ صرف سیکولر ازم ہی اس کے بچائو کا واحد راستہ ہے۔ اس وقت ہندوستان کو اصل خطرہ یہ ہے کہ مودی اور بی جے پی سکیولر آئین کا حلیہ تبدیل کرنے جا رہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں