مصر سے شام تک

میں گزشتہ ہفتے، اپنے بھائی نوید کے ساتھ بیٹھا ٹی وی پر مصرکے صحرائے سینا میں روسی مسافر طیارے کے گرنے کی خبریں دیکھ رہا تھا تو میں نے تبصرہ کیا کہ میرے خیال میں یہ دہشت گردی کا نتیجہ لگتاہے۔ اُس وقت تک ابھی برطانوی اور امریکی حکومتوں کا یہ بیان سامنے نہیں آیا تھا کہ اُن کے خفیہ اداروں کو شبہ ہے کہ اس بدقسمت طیارے کو بم کے ذریعے تباہ کیا گیا ہے۔ یقینا میر ے پاس خفیہ اداروں کے اندر کی معلومات جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں، لیکن میری رائے کی بنیاد یہ سوچ تھی کہ طیارہ اچھے موسم میں دن دہاڑے، بغیر کوئی ہنگامی سگنل دئیے اس طرح نہیں گرسکتا۔میرے اندازے کو تقویت دینے والا ایک اور عامل یہ تھا کہ سینائی کا وہ علاقہ ،جہاں طیارہ گر ا تھا، ایک مذہبی انتہا پسند گروہ، انصار البیت المقدس، کا گھر ہے۔ گزشتہ سال اس گروہ کے ارکان نے داعش کے نام نہاد خلیفہ البغدادی کی خلافت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ وفاداری کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد اس گروہ نے اپنا نام تبدیل کرتے ہوئے خود کو ''آئی ایس آئی ایل ، صوبہ سنائی‘‘ قرار دے دیا۔ 
البغدادی کی خلافت تسلیم کرنے سے پہلے اور اس کے بعد یہ گروہ سنائی اور دیگر علاقوں میں مصری سکیورٹی فورسز پروحشیانہ حملوں میں ملوث رہا ہے۔ اس کے ہمدرد مصری ریاست کے مختلف اداروں میں مضبوط جڑیں رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنرل السیسی کے جابرانہ رویے کی وجہ سے مشتعل ہونے والے اخوان المسلمین کے بعض نوجوان بھی اس گروہ کی جانب کشش محسوس کرتے ہیں۔ اگرچہ داعش نے روسی مسافر طیارے کی تباہی کی ذمہ داری قبول کی 
لیکن اس نے طیارہ گرانے کے لیے اپنائے گئے طریق ِ کار کے بارے میں خاموشی اختیار کی۔ کہا گیا کہ وہ وقت آنے پر سب کچھ ظاہر کردیں گے۔ یقینا وہ مقامی ایجنٹوں ، جنھوں نے بم نصب کیا،کی شناخت کو فی الحال پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کسی سامان لادنے والے نے چپکے سے بم ڈیوائس طیارے کے سامان رکھنے والے حصے میں چھپا دی ہو۔ ہم کسی چیچن گوریلے کے طیارے میں بم رکھنے کے امکان کو بھی رد نہیں کرسکتے۔ ان دونوں کیسز میں بنیادی ہدف روس ہی ہے۔ اس کی طرف سے حالیہ دنوں صدر بشار الااسد کی حمایت کے لیے کی گئی مداخلت نے مشرق ِوسطیٰ کے بہت سے سنی مسلک کے انتہا پسند گروہوں، جیسا کہ داعش اور النصرہ ، کو مشتعل کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ ترکی اور ایک اہم عرب ملک بھی شدید ناراض ہیں کہ ماسکو اُن کے بدترین دشمن کی جان بچانے کے لیے میدان میں آن موجود ہوا ہے۔ 
اس دہشت گردی کا دوسر ا ہدف مصر کی فوجی قیادت ہے کیونکہ اس نے ایک منتخب شدہ صدر کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اخوان کی حکومت کا تختہ الٹتے اور اسے ایک کالعدم تنظیم قرار دیتے ہوئے جنرل السیسی اور اس کی فوج نے لاکھوں مصریوں کو انتخابی عمل سے باہر کردیا تھا۔ اس کے نتیجے میں آرمی چیف کو ڈالے گئے ووٹوں کا 97 فیصد مل گیا۔ اس کے بعد سے اخوان کے بہت سے نوجوان حامی زیر ِ زمین چلے گئے ۔ حکومت کی طرف سے اپوزیشن کو دبانے کے لیے کیے جانے والے تشدد کی وجہ سے مصر میں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی(مصرکی معیشت میں سیاحت کی صنعت اہم کردار ادا کرتی ہے)۔ حال ہی میں میکسیکو کے سیاحوں کی پارٹی پر فضائی حملہ کر کے اُنہیں ہلاک کردیا گیا کیونکہ مصری سکیورٹی فورسز اُنہیں غلطی سے سمگلر یا دہشت گرد سمجھ بیٹھی تھیں۔ 
اس خطے میں دہشت گردی کی تازہ ترین کارروائی ، جس میں224 جانیں ضائع ہوگئیں، کا مقصد الشرم الشیخ کے ساحلوںپر سیاحوں کی آمد روکنا بھی ہو سکتا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک نے اس صحرائی ایئرپورٹ پر اپنی پروازیں اتارنا بند کردی ہیں۔ مصری معیشت زر ِ مبادلہ اور روزگار کے مواقع کے لیے سیاحت کی صنعت پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ گزشہ سال اس نے سیاحت سے 7.7 بلین ڈالر کمائے۔ اس سال بھی یہاں بارہ ملین سیاحوں کی آمدمتوقع تھی۔ وزیر ِ سیاحت، خالد رامے(Khaled Ramy)کا کہنا ہے کہ چند ماہ پہلے تک اُنہیں توقع تھی کہ مصر2020 ء تک سیاحت سے 26 بلین ڈالر کما لے گا، لیکن اب ہوسکتا ہے کہ اُنہیں اس ہدف پر نظر ِ ثانی کرنی پڑے کیونکہ سیاحوں کی آمدمیں کمی کا رجحان نمایاں ہے۔ السیسی کے شب خون سے پہلے مصر کی بارہ فیصد افرادی قوت(کم وبیش تیس لاکھ افراد) سیاحت کے شعبے سے روزی کماتی تھی۔ اس سے جی ڈی پی کا گیارہ فیصد حاصل ہوتا تھا۔ ان اعداد وشمار کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ مصری حکومت طیارے کی تباہی کو دہشت گردی کی بجائے ایک حادثہ قرار دینے پر کیوںتلی ہوئی ہے۔ 
یہ واقعہ (یا تخریبی کارروائی) روس کی شام کی پالیسی پر کس طرح اثر انداز ہوگا؟شروع میں تو صدر پیوٹن نے بھی طیارے کی تباہی کے پیچھے داعش کے ہاتھ کو خارج ازامکان قرار دیا تھا، لیکن اب اُنھوں نے شرم الشیخ کے لیے تمام پروازیں معطل کردی ہیں۔ اُن پر اس کا سیاسی دبائو بھی پڑے گاکیونکہ بہت سے روسیوں نے اُن کی شام میں مداخلت کی مخالفت کی تھی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پیوٹن کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ اُن کی جارحانہ فارن پالیسی ہی ہے۔ اس سے پہلے یوکرائن میں کارروائی کے بعد اُن کی مقبولیت کاگراف بلند ہو اتھا۔ چنانچہ یہ بات ممکن دکھائی نہیں دیتی کہ وہ داعش کی اس کارروائی کے بعد اپنا راستہ تبدیل کرلیں گے۔ 
ایک طیارے کو گراتے ہوئے داعش نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ دور دراز کے مقامات تک رسائی رکھنے والی ایک مہیب طاقت ہے۔ اگرچہ دنیا کے بہت سے طاقتور ممالک اُس کے خلاف کارروائیاںکررہے ہیں لیکن اس کی عسکری قوت میں کمی کاکوئی اشارہ نہیںملتا۔ طیارے کی تباہی کے بعد اب ہم روسی جنگی طیاروں کی زیادہ کارروائیوں کے علاوہ روسی سپیشل فورسز کو بھی یہاں اترتے دیکھیں گے۔ فی الحال روسی بمباری کا ہدف فری سیرین آرمی اور النصرہ اور ایسے گروہ تھے جو شام کی حکومت کے خلاف کارروائیاں کررہے تھے۔ اس کی وجہ سے داعش کی تباہی روسیوں کی ترجیحات میں شامل نہ تھی، لیکن ہوسکتا ہے کہ اب اُنہیں اپنی ترجیح بدلنی پڑے اور ہم البغدادی کے دستوں پر زیادہ کاری ضرب لگتی دیکھیں۔ 
اس دوران روس نے سکیورٹی کونسل کے سامنے ایک درخواست رکھتے ہوئے شام میں آئینی تبدیلیوں پر زور دیا ہے۔ اس میں اٹھارہ ماہ کے اندر انتخابات کرانے کی تجویز بھی شامل ہے۔آئینی تبدیلیوں کی افادیت اپنی جگہ لیکن وہ اس خون میں لتھڑے ہوئے ملک کے زخموں کا مداوا نہیں ہوسکتیں،لیکن ا ن سے ایک حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اس مسئلے کا حل فوجی نہیں، سیاسی ہے۔ ہم شام میں کم از کم روس اور امریکہ کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے دیکھ رہے ہیں تاکہ ان کے طیارے غلطی سے ایک دوسرے کے ساتھ الجھ نہ بیٹھیں۔ یقینا یہاں قیامِ امن کے لیے عالمی طاقتوں کے درمیان وسیع تر تعاون درکار ہوگا۔ اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اگرچہ روس اپنے اتحادیوں، جیسا کہ ایران اور شام ، کو آن بورڈ لیتے ہوئے تنہا کارروائی کرسکتاہے، امریکہ اپنے اتحادیوں، انقرہ اور ریاض، کو قائل کرنے سے قاصر ہے۔ جب تک یہ اختلاف طے نہیں ہوگا، شام کا مسئلہ کسی حل کی طرف بڑھتا دکھائی نہیں دیتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں