شام پر برطانیہ کے فضائی حملے

شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے کے موضوع پر دارالعوام (ہائوس آف کامنز) میں دس گھنٹے تک ہونے والی بحث کے بعد حکومت کوبھاری اکثریت سے کامیابی ملنا حیرت کی بات نہ تھی۔ بمباری کسی ایسے ہدف پر کرنی تھی جو بہت دور کسی صحرا میں تھا۔ سمندر پارکسی ملک پر بمباری کرنا ایسے ہی ہے جیسے داخلی طور پر ہونے والی کسی خرابی کی تحقیق کرنے کے لیے انکوائری کمیٹی قائم کرتے ہوئے وقت ٹالنا۔ اس سے یہ تاثر دینا مقصود ہوتا ہے کہ حکومت کچھ کر رہی ہے؛ حالانکہ حکومت صرف وقت گزار رہی ہوتی ہے۔ چند دن تک ہم رائل ایئرفورس کے بہادر پائلٹوں کو سائپرس کے فوجی ٹھکانوں سے پرواز کرتے ہوئے دشمن پر بمباری کرتے دیکھیںگے۔ اس دشمن کے پاس جنگی طیارے ہیں نہ ایئرڈیفنس سسٹم۔کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ داعش پر بمباری نہ کی جائے، لیکن جب امریکہ اور دوسرے کئی ممالک کی ایئر فورسز گزشتہ ایک سال سے بمباری کرتے ہوئے کوئی مقصد حاصل نہیں کرسکیں تو پھر برطانیہ کی طرف سے کیے جانے والے تھوڑے سے تعاون کا کیا فائدہ ہوگا؟ گزشتہ برس کی فضائی بمباری سے پراسرار طور پر، داعش کا بال بھی بیکا نہ ہوا اور نہ ہی کسی نے اس کی ایک بلین سالانہ تیل کی سمگلنگ کے انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ 
گزشتہ ہفتے ہائو س آف کامنز میںاپنی تقریر میں ڈیوڈ کیمرون نے دعویٰ کیا کہ برطانیہ کی فضائی بمباری کو ستر ہزار اعتدل پسند جنگجوئوں کے زمینی دستے معاونت فراہم کریں گے۔ حالات پر نظر رکھنے والے بہت سے افراد نے وزیر ِاعظم کی رجائیت کوکھوکھلی خوش فہمی قرار دے کر اس کا مذاق اُڑایا۔ ان افراد میں نامور صحافی رابرٹ فسک بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنے حالیہ مضمون میں جنگجوئوں کی تعداد محض وزیر اعظم کا دل رکھنے کے لیے سات سو بیان کی تاکہ ستر ہزارکے ''قریب ترین‘‘ دکھائی دے، وگرنہ مسٹر فسک کے مطابق وہ ستر سے زائد نہیں ہیں۔ اگر یہی وہ عظیم الشان فوج ہے جو مشرق وسطیٰ کا پانسہ پلٹنے کے لیے برطانیہ کے فضائی حملوں کی منتظر ہے تو پھر عقل حیران ہے کہ جب امریکی بمباری کر رہے تھے تو اُنہوں نے معرکہ سر کیوں نہ کر لیا۔ ہمیں یاد ہے کہ کانگرس کمیٹی کے سامنے پینٹاگون کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب اُس نے کمیٹی کو بتایا کہ امریکی فورس سے تربیت یافتہ سینکڑوں معتدل جنگجوئوں میں سے صرف نصف درجن کے قریب داعش سے لڑ رہے ہیں۔ باقی جنگجوئوں نے امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیار پہلی ہی فرصت میں مختلف جہادیوں کے ہاتھ فروخت کرکے دام کھرے کرلیے تھے۔ ہاں، یہ ہو سکتا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون کے اعتدال پسند، اوباما کے اعتدال پسند دستوں سے مختلف اور زیادہ سخت جان ہوں۔
لیبر پارٹی کے رہنما جرمی کوربین نے گرما گرم تقریر کرتے ہوئے شام میں کارروائی کی مخالفت کی۔ تقریر کے دوران اُنہیں حکومتی بنچوں کی طرف سے کی جانے والی تنقید کا نشانہ بننا پڑا؛ چنانچہ وہ اپنی امن پسندی کا اظہار کرنے کے لیے تو کوئی نکتہ نہ اٹھا سکے لیکن اُنہوں نے وزیر ِاعظم کو یہ احساس دلا کر شرمندہ کیا کہ بمباری کی مخالفت کرنے والے دہشت گردوںکے ہمدرد نہیں ہوتے۔ بہرحال جب کوربین نے اعلان کیا کہ لیبر اراکین اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کے لیے آزاد ہیں تو بہت سے لیبر اراکین نے حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس پر لیبر پارٹی کو مزید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس مسئلے پر یہ پارٹی منقسم دکھائی دی تھی۔ یہ بات واضح ہے کہ کسی واضح اور مربوط حکمت ِعملی کی عدم موجودگی میں ڈیوڈ کیمرون کا فیصلہ محض برطانیہ کو اہم عسکری کھلاڑی ثابت کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ برطانیہ کو اپنے اتحادیوں، جیسے امریکہ اور فرانس کے ساتھ مل کر لڑنے سے کنی نہیں کترانی چاہیے۔ برطانوی افواج کے حوالے سے یہ بات دیکھنے میں آئی تھی کہ وہ افغانستان،عراق اور لیبیا میں اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کرنے میں ناکام رہیں۔ درحقیقت فرانس نے عراق جنگ میں شرکت کرنے سے انکار کرتے ہوئے امریکی تنقید کا سامنا بھی کیا تھا۔ 
اگرچہ شام کے معتدل جنگجوئوں اور کردوں کے بارے میں بہت سی توقعات ہیں کہ وہ داعش کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں، لیکن حقیقت توقعات کے بہت برعکس ہے۔ درحقیقت شام میں اگر داعش کے مقابلے پر کوئی فورس کھڑی ہے تو وہ شام کی سرکاری فوج ہے۔ اس وقت اُنہوں نے روسی فضائیہ کے تعاون سے اپنا کھویا ہوا علاقہ واپس حاصل کرنا شرو ع کردیا ہے۔ کرد صرف اپنے علاقے کا دفاع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس کے علاوہ کسی دوسرے مقصد کے لیے لڑنے سے اُنہیں کوئی غرض نہیں۔ ستم یہ ہے کہ کردوں پر ترک فضائیہ کم و بیش روزانہ کی بنیاد پر بمباری کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکوںکو داعش کا مبینہ ''اتحادی‘‘ کہا جا رہا ہے۔ چنانچہ یہاں یہ سوال کھڑا ہوجاتا ہے کہ جو معتدل فورس برطانوی فضائی حملوں کی منتظر تھی، وہ کہاں ہے؟
سنائی کے صحرا میں روسی مسافر طیارہ گراتے اور پھر پیرس میں خوفناک حملے کرتے ہوئی داعش، روس اور مغربی طاقتوں کو زمینی دستے بھیجنے کے لیے اکسا رہی ہے، لیکن امریکی سپیشل فورس کے مٹھی بھر دستوں کے علاوہ کسی ملک کی فوج اس دلدل میں قدم رکھنے کے لیے تیار نہیں۔ غالباً اُنہیں عراق اور افغانستان میں فوجیں اتارنے کا حشر یاد ہے۔ اگرچہ مغرب کے لاکھوں افرادا پنی اپنی حکومتوں پر مزید کچھ کرنے کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں لیکن وہ بھی زمینی دستے بھیجنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہر کوئی خطرے سے بچنا چاہتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُن کا مقابلہ کسی روایتی دشمن سے نہیں جو میدان سے فوجیوں کو جنگی قیدی بنا کر جنیوا قوانین کے مطابق سلوک کرے گا۔ اس کی بجائے داعش پکڑے گئے فوجیوں کے سر قدیم زمانے کے وحشی قبائل کی طرح قلم کردیتی ہے اور مہذب دنیا اپنے فوجیوں کے سر قلم کروانے کے لیے تیار نہیں۔ 
ایک حقیقت پسند دنیا میں اتحادی اپنی اپنی ترجیحات طے کرتے ہوئے سب سے بڑے خطرے سے پہلے نمٹنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر آنے والے خطرے پر توجہ دی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت سب سے بڑے خطرے پر اتفاق رائے نہیں پایا جاتا ۔ سعودی اور ترک، اسد حکومت سے نفرت کرتے ہیں، چنانچہ وہ داعش سے پہلے اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ روسی اور ایرانی اپنے اتحادی، اسد کو بچانا چاہتے ہیں۔ اس دوران امریکی جو اسد کو ایران اور حزب اﷲ سے قربت کی وجہ سے پسند تو نہیں کرتے لیکن آہستہ آہستہ اسے برداشت کرنے کے قابل ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ بشارالاسد کے اپنے دامن پر خون کے کتنے دھبے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ شام کو متحد رکھنے اور اس کی اقلیتوں کی حفاظت کرنے والی واحد قوت اسد ہی ہیں۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ حالات شام کی تقسیم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں