عرب ممالک کا دہشت گردی کیخلاف اتحاد

میرے لیے داعش سے اتفاق کرنا ناممکن لیکن جب اس سفاک اور جنونی گروہ نے اپنے خلاف حالیہ دنوں بننے والے اسلامی ممالک کے اتحاد کو ''احمقوں کاٹولہ‘‘ قرار دیا تو اس بیان میں موجود سچائی کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ جب برادر عرب ملک کے ولی عہد اور وزیر ِ دفاع ، محمد بن سلمان نے اس گروہ کی تشکیل کا اعلان کیا اوراس کے گروہ میں جن کانام شامل کیا گیا ، اُن میں سے بہت سے ارکان نے حیرت کا اظہار کیا تو باقی دنیا کھل کھلا کر ہنس پڑی۔ تاہم بننے والے اس الائنس سے نہ تو داعش اور نہ ہی کسی اور دہشت گرد گروہ کی رات کی نیندیں حرام ہونے کا امکان ہے۔ یہ ایک کارروائی ہے ، بالکل جیسی آپ اپنے دفاتر میں دیکھتے ہیں۔ 
اس الائنس میں شامل ارکان پر ایک نظر ڈالیں۔ ان میں یوگنڈا، گیبن، بینن اور ٹوگو ڈومسلم اکثریت رکھنے والی ریاستیں نہیں۔ کیمرون، آئیوری کوسٹ اور مالدیپ جیسی ریاستوں کی وجہ شہرت عسکری قوت ہر گز نہیں۔دنیامیں سب سے زیادہ مسلمان آباد ی رکھنے والی ریاست، انڈونیشیا نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ اس کا اس الائنس سے کوئی سروکار نہیں۔ اسی طرح ایران، عراق، شام اور افغانستان بھی اس میں شامل نہیں۔ پاکستانی سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ اُنہیں بھی اپنی شمولیت کا علم میڈیا کے ذریعے ہوا۔ چنانچہ تشکیل پانے والی ایسی لڑاکا فورس کو دیکھ کر جہادیوں کو لرزہ براندام ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یاد رہے، اس الائنس نے کوئی جنگ وغیرہ کرنی بھی نہیں۔ اس کے سرخیل سعودی عرب کے کریڈٹ پر جدید جنگیں لڑنے کا کوئی تجربہ نہیں، اسے تو خود اپنے دفاع کے لیے بیرونی تعاون درکار ہے۔ اس نے زیادہ سے زیادہ غریب اورکمزور ملک، یمن پر نہتے شہریوں پر بمباری کی ۔ یہ بمباری بھی صرف جدید طیاروں سے کی گئی، زمینی دستے داخل نہیں کئے گئے۔ 
سمجھ نہیں آتی کہ بغیر سنجیدہ مشاورت کے ایسا منصوبہ کیسے بنا؟ سعودی عرب سے جاری ہونے والا بیان ظاہرکرتا ہے کہ یہ ایکشن کا کوئی سوچا سمجھا منصوبہ نہیں بلکہ ایک مبہم بیان تھا۔ چونکہ پیرس اور کیلی فورنیا حملوں کے بعد امریکہ کا سعودی عرب پر دبائو تھا کہ بڑھتی ہوئی انتہا پسند ی اور داعش کے خلاف کچھ کیا جائے، چنانچہ خالص بیوروکریسی کے انداز میں جیسے کمیٹی بنا کر فعالیت کا تاثر دیا جاتا ہے کہ ہاتھ پائوں نہ ہلانا پڑے، یہ الائنس بنا لیا گیا۔ جب حکومتوں پر عوامی دبائو ہوتا ہے کہ وہ کسی بحران سے نمٹنے کے لیے کچھ کریں تو وہ کوئی انکوائری کمیٹی بنا کر فعالیت کا تاثر دیتی ہیں۔ یہ کمیٹی کبھی کبھار میٹنگز کرتی ہے اور جب تک رپورٹ تیار ہوتی ہے، لوگ اس کے بار ے میں بھول جاتے ہیں۔ غالباً یہ الائنس بھی اسی طرح تیار کیا گیا ہے۔ اسی طرح سے اس الائنس کا اعلان کردیا گیا ہے لیکن اس کے کسی واضح ڈھانچے کااور مقصد کا کسی کو علم نہیں۔ امکان ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ فعالیت کچھ جنرلوں اور سرکاری افسروں کے چندفری عمروں تک محدود رہے گی۔ اس دوران امریکی مطمئن رہیں کہ ایکشن ہورہا ہے اور عالم ِ اسلام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہے ۔ اس طرح امریکہ بھی اپنے عوام کو یہ کہہ کر مطمئن کرسکے گا کہ دہشت گردی کے خلاف تین درجن عسکری قوتیں بر سرِ پیکار ہیں، اس لیے اس کے مٹنے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح یہ اتحاد سب کو خوش کردے گا۔ داعش کو بھی۔ 
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس انتہا پسندی کے خلاف یہ الائنس بن رہا ہے کہ اس کے خلاف تو خود ان ریاستوں، جو اس کے خلاف لڑنے جارہی ہیں، میں بھی کچھ نہیں کیا جارہا ۔ یہ بات بارہا کہی جاچکی ہے کہ دہشت گرد دراصل انتہاپسندی کی فعال شکل ہیں، جب تک انتہا پسندی کا تدارک نہیں ہوگا، دہشت گردوں کے خلاف لڑتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان ممالک میں وجود رکھنے والے تنظیمیں انٹر نیٹ کے موثر استعمال سے مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمان نوجوانوں کو بھی انتہا پسندی کی طرف راغب کررہی ہیں۔ اس نیٹ ورک کے خلاف بھی کچھ نہیں کیا جارہا۔ اس پرمغربی ممالک میں کی طرف سے زیادہ تر خاموشی اختیار کی جاتی ہے ۔ شاید وہ اپنے اسلحے کے بڑے بڑے خریداروںکو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ درحقیقت یہ عرب ریاستیں مغربی اسلحے کی بہت ''اچھی خریدار‘‘ ہیں۔ کچھ عرصہ بعد خریدا گیا اسلحہ زنگ آلود ہوجاتا ہے ، تو پھر مزید جدید ہتھیار خریدے جاتے ہیں۔ اس طرح مغرب کی اسلحے ساز فرموں کا کام چلتا رہتا ہے ۔واشنگٹن کی خاموشی کی بھی یہی وجہ ہے ۔ مغرب اور امریکہ میں یہ خطرہ بھی پایا جاتا ہے کہ جاتا ہے کہ اگر عرب ریاستوں پر زیادہ دبائو ڈالا گیا تو صورت ِحال 1973ء کار خ نہ اختیار کر جائے جب سعودی عرب نے تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی ۔
آخر میں اہم ترین بات یہ ہے کہ مغرب اس بات سے خوفزدہ ہے کہ ان ریاستوں میں ایک اور بہار ِ عرب حکمران خاندانوں کو چلتا نہ کردے۔ ان ریاستوں پر نسل در نسل حکمرانی کرنے والے خاندانوں کے ساتھ عالمی طاقتوں کی وابستگی کوئی ڈھکی چھپی داستان نہیں۔ عالمی پشت پناہی عرب اشرافیہ اپنے عوام کو دبا کررکھتی ہے لیکن مغرب کو اس پر کوئی پریشانی نہیںہوتی۔چونکہ ان ریاستوں میں سب سے اہم سعودی عرب ہے ۔ اگر یہاں طاقت کا خلا پیدا ہوتا ہے تو اس سے یہ خطہ عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔ اس لیے مغربی دنیا کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ عرب اشرافیہ کو برہم کیے بغیر عالمی جہادی تنظیموں کو ختم کرنا ہے۔ اس کے لیے عالمی برادری کو ایک تنی ہوئی رسی پر چلنا پڑے گا۔ دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات کے طور پر بعض مدرسوں کو تنظیموں کی فنانسنگ روکنا ہوگی۔ یہ فنانسنگ مبینہ طور پر بیرون ملک دولت مند تاجروں کی طرف سے آتی ہے۔ اس کے علاو ہ اشرافیہ پر دبائو بڑھانے کے لیے ان کے نوجوان شہزادوں کے ویزے روک لیے جائیں تاکہ وہ یورپ کے نائٹ کلبوں اور کیسنیوز تک رسائی حاصل نہ کرسکیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے اسرائیل اور ایک اہم عرب ریاست کے درمیان کچھ پالیسیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ یہ صورت ِحال بھی واشنگٹن کے لیے پسندیدہ ہے ۔
اس دوران دہشت گردی کے خلاف لڑنے والا چونتیس ممالک کا اتحاد اپنا 'کام ‘ جاری رکھے گا۔ اگرچہ اس سے کسی کو بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ دنیا کے اس حصے سے دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے دستوں کی روانگی کبھی دکھائی نہیں دے گی۔ میٹنگز ہوتی رہیں گی ا ور بیانات جاری کیے جاتے رہیں گے ۔ تاہم خدشہ ہے کہ داعش ان ''اقدامات ‘‘ سے متاثر نہیںہوگی۔ حالیہ دنوں آنے والے اخباری اطلاعات کے مطابق لاہور سے کچھ خواتین شام کی طرف سفر کرتی پائی گئیں۔ دوسری طرف ہماری حکومت داعش کی موجودگی سے قطعی انکاری ہے۔ یہ ہے وہ الائنس جس نے داعش کو للکارناہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں