نسلی امتیاز

افریقہ میں تین ہفتے سفر کرنے کے بعد بھی یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ میں اس براعظم کو جان پایا ہوں۔ دراصل یہ بر ِاعظم سیاحوں کے لیے تحیر آمیز لینڈ اسکیپ، جنگلی حیات اور اشتہا انگیز اشیائے خور و نوش کی ان گنت اقسام رکھتا ہے اور یہاں کی سیاحتی صنعت بھی بہت ترقی یافتہ ہے۔ عمدہ ہوٹل، ریستوران اور دنیا بھر کے سامان سے بھرے ہوئے ایسے شاپنگ سنٹرز ہیں جن کی جھلک صرف دبئی میں ہی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے باوجود خوشحال شہری آبادیوںکے اردگرد کچی آبادیوں سے جھلکتی غربت اور مجبوری حساس طبع افراد کے دل زخمی کردیتی ہے۔ 
دنیا کے تمام ممالک میں دولت کی ناہمواری بڑھتی جا رہی ہے، لیکن امیر غریب کے بڑھتے ہوئے فرق کی بنیاد پر فہرست ترتیب دی جائے تو یقیناً جنوبی افریقہ اونچے نمبروں پر جگہ نہیں پاتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ تمام غریب افراد سیاہ فام ہیں۔ جب جلد کی رنگت معاشی حیثیت کا پتا دیتی ہو تو یہاں آنے والے سیاح کے لیے یہ جاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ نسلی امتیازکی دیوارگرے بائیس برس بیت چکے ہیں۔ تھیوری کے اعتبار سے ایسا ہوچکا ، لیکن اس کا عملی اظہار دکھائی نہیں دیتا۔ سفید فام افراد خوشحال ہیں اور سیاہ فام پسماندہ۔ زیادہ تر سیاہ فام افراد جو خوشحالی کا سفر طے کر پائے، اُنہوں نے حکمران جماعت افریقی نیشنل کانگرنس کے پلیٹ فارم کو استعمال کیا۔ اس طرح سیاسی سرپرستی میں آگے بڑھنے کے رجحان نے میرٹ کا خاتمہ کردیا اور ملازمتیں اور کنٹریکٹ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ملنا 
معمول بن گیا۔ چنانچہ یہ بات باعث حیرت نہیں کہ صدر زوما پر بدعنوانی اور اقربا پروری کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ دولت کی ناہمواری سے بھی زیادہ تباہ کن صورت ِحال تعلیمی اداروں کا پست معیار ہے۔ سیاہ فام طلبہ کو کامیاب کرانے کے لیے سکولوں کے معیار کو جان بوجھ کر گرایا گیا ہے۔ حالیہ دنوں جنوبی افریقہ کے اخبار دی سٹار میں ''فری سٹیٹ یونیورسٹی‘‘ کے وائس چانسلر نے بہت تفصیل کے ساتھ لکھا کہ امتحان میں پاس ہونے والوں کے گریڈ میں تنزلی اور ہائی سکول کے بعد یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والوں کی تعداد میں یک لخت کمی کا رجحان نمایاں ہے۔ 
ہم پاکستان میں بھی اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ تعلیمی معیار کا زوال معاشرے کے لیے انتہائی تباہ کن ہوتا ہے۔ اس کے سماجی اقدار سے لے کر معیشت تک، ہر شعبے پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لینے کی پالیسی تباہ کن ثابت ہوئی۔ جنوبی افریقہ میں نسلی امتیازکے خاتمے کے بعد جب انتخابات میں افریقی نیشنل کانگرس کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے بہت سے ماہر اور تجربہ کار سفید فام اساتذہ کے ملازمت چھوڑ نے اور ناتجربہ کار سیاہ فام اساتذہ کے لیے جگہ خالی کرنے کے لیے 
پرکشش پیش کش کی۔ جب سکولوں کے فائنل امتحانات میںطلبہ کی زیادہ تعداد فیل ہونے لگی تو پاس مارک کم کرکے تیس فیصد کردیے گئے، لیکن صورت ِحال بہتر نہ ہوسکی۔ سکولوں میں دی جانے والی ناقص تعلیم نے یونیورسٹیوں کی تعلیم کو بھی متاثر کرنا شروع کردیا۔ چونکہ حکومت سیاہ فام افراد کو ملازمتیں دینے پر تلی ہوئی تھی، اس لیے اس نے بہت سے ''امتیازی قوانین‘‘ متعارف کرائے تاکہ سفید فام اور سیاہ فام افراد کی تعلیمی قابلیت اور صلاحیتوں کا فرق ختم کیا جاسکے۔ یہ صورت ِحال صرف ملازمتوں میں ہی نہیں، زندگی کے دیگر شعبوں اور کاروبار میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ بہت سے سفید فام بزنس مین شکایت کرتے ہیں کہ اُنہیں کسی سیاہ فام کو اپنا شراکت دار بنانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وہ کاروبار میں کوئی حصہ نہیں ڈالتا لیکن منافع میں شریک بن جاتا ہے۔ 
بہرحال، قبل اس کے کہ میرٹ کی تباہی پر سینہ کوبی کی جائے، بہتر ہے نسلی امتیاز کے دورکی نشانیاں محفوظ کرنے والے میوزیم کا بھی دورہ کرلیا جائے تاکہ تصویر کے دونوں رخ سمجھنے میں آسانی ہو۔ یہاں آکر سیاح کو احساس ہوتا ہے کہ اُس دور میں سیاہ فام کیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ یہاں ملنے والی دھندلی تصاویر اور ادھوری ڈائریوںکے علاوہ سرکاری دستاویزات سے سیاہ فاموں کے لیے روا رکھی جانے والی نفرت بھیانک شکل میں سامنے آجاتی ہے۔ خبروں اور انٹرویوزکی پرانی فلمیں اُس دورکی یاد دلاتی ہیں جب افریقہ کے اصل باشندوںکے ساتھ ہر قسم کی ناانصافی روا رکھی جاتی تھی۔ اس دور کے خاتمے کے بائیس برس بعد سیاہ فاموں کو افریقی نیشنل کانگرس کی صورت میں سیاسی تقویت ملی۔ نوجوان نسل کے لیے یہ جماعت نسبتاً خوشحال درمیانے طبقے کی سفید فاموں کے ساتھ شراکت داری کی علامت ہے۔ اس دوران نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاہ فام باشندے کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال ایک یونیورسٹی نے فیسوں میں اضافے کا اعلان کیا تو طلبہ نے گلیوں میں پرتشدد احتجاجی مظاہرے شروع کردیے۔ ان مظاہروں نے حکومت کو ہلاکر رکھ دیا۔ اُس وقت سوشل میڈیا پر فیسیں کم کرنے کے لیے بھر پور مہم چلائی گئی۔ حالیہ دنوں Sipho Hlongwane نے گارڈین اور میل میں لکھا کہ ''سماجی اور معاشی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والی بحث کی شدت میں کمی آ چکی ہے۔ افریقی نیشنل کانگرس کے لیے ضروری ہے کہ وہ احساس دلائے کہ وہ مقامی افراد کی حکومت چلا رہی ہے۔ لیکن اس وقت وہ ریاست کے وسائل کو چند من پسند سیاہ فاموں کی معاشی بہتری کے لیے مختص کرکے سابق نظام کو تحفظ دینے کی کوشش کر رہی ہے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد بھی جنوبی افریقہ کے سیاہ فام باشندے انصاف سے محروم ہیں۔ ابھی تک یہاں مہنگی گاڑیاں چلانے اور پوش علاقوں میں بڑے بڑے گھروں میں رہنے والے افراد سفید فام ہیں۔ ہمارے اور جنوبی افریقہ کے نوآبادیاتی دورکے خاتمے میں یہ فرق ہے کہ جنوبی ایشیا سے سفید فام حکمران 1947ء میں واپس چلے گئے تھے، لیکن جنوبی افریقہ میں 1994ء میں ایسا ہوتا دکھائی نہ دیا؛ حالانکہ افریقی نیشنل کانگرس نے انتخابی کامیابی بھی حاصل کی تھی۔ نیلسن منڈیلا کا شکریہ کہ اُن کے پرامن اور مفاہمت آمیز رویے کی وجہ سے آزادی کے وقت خونریزی نہیں ہوئی۔ اس وقت جنوبی افریقی کے سفید فام باشندے خوف محسوس کر رہے ہیں کہ یہ ملک بھی دوسرا 'زمبابوے‘ ثابت ہوسکتاہے۔ زمبابوے میں فروغ پاتی معیشت کو رابرٹ موگابے کی غلط پالیسیوں نے تباہ کرڈالا تھا۔ اس وقت جنوبی افریقہ میں صورت ِحال غیر واضح ہے۔ افریقی باشندے زیادہ تر سوشل میڈیا پر اپنے جذبات کا اظہار کر کے خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں