وائٹ ہائوس کو جانے والے نشیبی راستے

جس وقت آپ سوچتے تھے کہ ری پبلکن امیدوار وں کے بیانات حماقت کی حدوں کو چھو رہے تھے، وہ دوقدم پستی کی طرف مزید بڑھے اور بیہودہ بیانات دینا شروع کر دیے۔ اُن کے اہم حریف ، ٹیڈ کرز اور مارکو روبیوان کے خلاف اکٹھے ہوگئے اور اُن پر توہین آمیز جملوں کی بوچھا ڑ کردی۔ دوسری طرف ٹرمپ بھی ٹرمپ ہیں، اُنھو ں نے بھی اپنی طبیعت کے مطابق جواب دیا۔ گرچہ ٹرمپ کوئی بہت بڑی سیاسی شخصیت نہیں لیکن وہ مرحلہ وار کامیابیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کا اب تک کا سکور دس میں سے سات ریاستوں میں کامیابی حاصل کرناہے۔ فی الحال اُنہیں اپنے حریفوں سے سبقت حاصل ہے۔ 
صورت ِحال یہ ہے کہ اگر کوئی غیر معمولی واقعہ رونما نہ ہوا تو ٹرمپ کو صدارتی انتخابات کے لیے ری پبلکن کا امیدوار نامزد کرلیا جائے گا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ری پبلکن اسٹبلشمنٹ ایک ایسے امیدوار سے خائف ہے جس پر اُس کا کنٹرول نہ ہو۔ چنانچہ اب ٹرمپ کی نامزدگی کا راستہ روکنے کے لیے کچھ حربے استعمال کیے جارہے ہیں چاہے اُنہیں ووٹروں کی بھرپور حمایت کیوں نہ مل جائے۔ری پبلکن اسٹبلشمنٹ میں موجود ایک سرکردہ سیاست دان، مٹ رونی ،جنھوں نے 2012ء میں صدراوباما کے مقابلے میں الیکشن لڑا تھا، کھل کر ٹرمپ کے خلاف صف آرا ہوچکے ہیں۔ وہ رائے دہندگان سے کہہ رہے کہ ٹرمپ کی بجائے کسی اور امیدوار کی حمایت کریں۔ ٹرمپ کو نامزدگی سے محروم کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ کنونشن فلور کو کھول دیں اور شرکا کو اجازت دے دیں کہ وہ کسی بھی ری پبلکن کو ووٹ دے دیں چاہے وہ ابتدائی مراحل میں شامل نہیں بھی تھا۔ بہرحال اس سے صورت ِحال نازک رخ اختیار کرسکتی ہے اور عین ممکن ہے کہ ری پبلکن کی اپنی صفوں میں خانہ جنگی شروع ہوجائے۔ اس کے نتیجے میں ڈیموکریٹس کو ایک مرتبہ پھر وائٹ ہائوس میں داخل ہونے کا موقع مل جائے گا۔ 
دوسری طرف ڈیموکریٹس کی صفوں میں معاملات کھلے ، شفاف اور مہذب انداز میںا ٓگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ برنی سندرس نے باوقار انداز میں مقابلہ کیا لیکن ہلیری کلنٹن فیصلہ کن سبقت لیتے ہوئے مسٹر برنی سے کہیں آگے نکل چکی ہیں۔ اگرچہ تجربہ کار سینٹر، سندرس برنی نے بہت سے نوجوان حامیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا لیکن ہلیری کو جنوب میں سیاہ فام ہسپانوی نژاد امریکیوں کی حمایت حاصل ہے۔ اگرچہ مس کلنٹن کو ''اعتماد‘‘ کے اہم ایشو کا سامنا ہے لیکن وہ معاشی اور مخصوص نسل کے امریکیوں میں ایک مقبول شخصیت ہیں۔ چنانچہ آج کی صورت ِحال پر طائرانہ نگاہ کہتی ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں مس کلنٹن اور ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہونے جارہا ہے۔ دونوں امیدواروں کے پاس وائٹ ہائوس کا دعویٰ کرنے کے لیے اگر متاثر کن جواز موجود ہے تو ان کے سامنے کچھ مسائل بھی ہیں۔ ہلیری کلنٹن سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ ہونے کے باوجود ابھی تک اپنا نام ایف بی آئی کی انکوائری لسٹ سے نکلوانے کی کوشش میں ہیں۔ ہلیری پر الزام ہے کہ اُنھوں نے مبینہ طور پر سرکاری ای میلز کو اپنے سرور میں ریکارڈ کیا اور ایسا کرتے ہوئے غیر ذمہ داری کا مظاہر ہ کیا جس کی وجہ سے سرکاری راز غیر محفوظ ہوگئے۔ درحقیقت بل کلنٹن اور اب ہلیری کلنٹن، دونوں کا مشکوک سرگرمیوں میں ملوث رہنے کے الزام نے پیچھا کیا ہے۔ 
جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ہے تو اُنہیں اپنے موجودہ حمایتی کیمپ کو وسعت دینی ہوگی کیونکہ فی الحال اُن کی حمایت معاشرے کے اس طبقے کی طرف سے ہے جو موجودہ صورت ِحال سے نالاں ہے اور وہ امریکہ کو وال سٹریٹ کے طاقتور بنکاروں اور واشنگٹن کے سیاست دانوں کی بجائے اپنی مرضی سے چلانا چاہتا ہے۔ امریکہ میں بہت دیر کے بعد یہ طبقہ انگڑائی لے کر بیدار ہورہا ہے ، تاہم مسٹر ٹرمپ صرف اس پر انحصار کرکے ایک اچھا مقابلہ تو کرسکتے ہیں، کامیابی کے لیے اُنہیں کچھ اور بھی چاہیے ہوگا۔ یہی چیز برنی سندرس کے حامیوں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ تاہم ان کے حامی نوجوان اور تعلیم یافتہ ہیں۔ انھوں نے انقلابی رہنماہونے کا تاثر دیتے ہوئے نعرہ لگایا تھا کہ وہ یونیورسٹی تک تعلیم مفت کردیںگے۔اس وقت امریکی نوجوانوں پر یونیورسٹی تعلیم مکمل کرتے کرتے بہت سا قرض چڑھ چکا ہوتاہے۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا سیاست میں نوارد امریکہ کے سیاسی منظر نامے میں کوئی بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں؟ امریکی کی موجودہ نوجوان نسل نے اپنے بچپن سے ہی کلنٹن کو واشنگٹن کی سیاست میں فعال پایا ہے۔ چنانچہ وہ لاشعوری طور پر اسے واشنگٹن میں دیکھنا چاہیں گے۔ ری پبلکن کے قائدین نے دیکھا کہ ابتدائی انتخابی جائزے کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں ٹرن آئوٹ معمول سے زیادہ رہا۔ اس کی وجہ ٹرمپ کی پرکشش شخصیت بتائی جاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بیرونی دنیا ٹرمپ کو دنیا کے طاقتور ور ترین عہدے پر فائز ہونے کا تصور کرکے بھی خوفزدہ ہوجائے لیکن بہرحال اُن کی قسمت کا آخری فیصلہ امریکیوں کے ہاتھ ہی ہے۔ دراصل انتخابات میں امیدوار کی بجائے امریکی عوام کی مرضی کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ 
یقینا ٹرمپ کے میکسیکو کے باشندوں، مسلمانوں اور عورتوں کے حوالے سے سامنے آنے والے بیانات دنیا کے لیے بے چینی کا باعث ہیں لیکن اس سے اُن کی پول ریٹنگ متاثر نہیں ہوئی۔ درحقیقت اُن کا سرخ چہرہ، بال اورقدرے لاابالی پن اُنہیں امریکی سیاست کی ایک ہر دل عزیز شخصیت بنا دیتا ہے۔ درحقیقت ٹرمپ بے دھڑک ہوکر ایسی باتیں کررہے ہیں جو زیادہ امریکی کرنا چاہتے تھے لیکن سماجی ضبط اور نسل پرستی اور نسائیت سے بیزاری کے الزام سے ڈر کر زبان پر لانے سے گریز کرتے تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مقبولیت انتخابی حمایت میں کس حد تک ڈھلتی ہے۔ ہوسکتاہے کہ بہت سے حامی ٹرمپ کی صدارت سے خائف ہوکر عین وقت پر ارادہ تبدیل کرلیں۔ تاہم ابھی نومبر آنے میں کافی دیر ہے ، اُس وقت تک کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال یہ بات ماننا پڑے گی کہ ٹرمپ کی صدارت ایک ڈرائونا خواب دکھائی دیتی ہے۔ بہرحال امریکی سیاست میں صاف گوئی کا کریڈٹ ٹرمپ کو دینا پڑے گا۔ وہ کھلے عام بش کو مورد ِالزام ٹھہراتے ہیں کہ اُن کے عراق پر حملے کے نتیجے میں داعش جیسا عفریت بوتل سے باہر آیا۔ اسی طرح ٹرمپ لیبیا کے قذافی کو منصب سے ہٹائے جانے کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہلیری کلنٹن لیبیا پر کارروائی کرنے والوں کے حامیوں میں شامل تھیں۔ 
درحقیقت امریکی انتخابات انتہائی مشقت طلب اور تھکا دینے والی سرگرمی ہوتی ہے۔ ان پر کئی ماہ اور کئی بلین ڈالر صرف ہوجاتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ ہم رہنمائوں کی زمین و آسمان کے قلابے ملا دینے والی تقریریں اور بلند بانگ دعوے نہ سنیں لیکن امریکی رائے دہندگان اور پارٹیاں اپنے امیدواروں کا خورد بینی جائزہ ضرور لیتی ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں