کراچی ہی کراچی ہے

میرے بھتیجے نادر نے پچیس سال پہلے جو سب سے پہلا لفظ بولا وہ ''ٹینکر‘‘ تھا۔ خیر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ اس گاڑی کا گھروںکو پانی سپلائی کرنا معمول کی بات تھی۔ آج ربع صدی بعد صورت ِحال مزید بدتر ہوچکی ہے۔ اگلے دن اپنے دو دوستوں کے ساتھ لنچ پر تھا تو ''آب ِرواں‘‘ یعنی ٹینکروں میں پانی کی سپلائی کے موضوع پر بات چیت چل نکلی۔ ایک دوست نے کہا کہ اُسے پچاس ہزار روپے ماہانہ ٹینکر واٹر پر صرف کرنے پڑتے ہیں۔ دوسرے دوست کا خرچہ اس سے بھی زیادہ تھا۔ یہ دونوں دوست کراچی کے سب سے مہنگے علاقے ڈیفیس سوسائٹی میں رہتے ہیں، لیکن اس کے زیادہ تر رہائشیوں کے لیے پانی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ٹینکر ہیں۔ 
یقیناً اتنی بھاری رقم پانی پر خرچ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، صرف خوشحال افراد ہی ایسا کرسکتے ہیں، کم وسائل رکھنے والے افراد پبلک مقامات پر لگے ہوئے نلکوں سے قطار میں کھڑے ہو کر پانی بھرتے ہیں۔ گزشتہ موسم ِگرما میںجب درجہ حرارت معمول سے بڑھ گیا تو پانی کی عدم دستیابی پر فسادات بھی ہوئے تھے۔ ہمارا آبائی گھر کراچی کے ایک پرانے حصے میں ہے جہاں خوش قسمتی سے مین پائپ لائن سے پانی آتا رہتا ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ عشروں سے کراچی کے رقبے اور آبادی میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے زیادہ تر شہریوں کو پانی اوپن مارکیٹ ( ٹینکر مافیا) سے خریدنا پڑتا ہے۔ اس صورت ِحال کے باوجود شہر میں کوئی بھی پیاس سے نہیں مرتا، دولت مند افراد کے گھروں میں سرسبز لان بھی ہیں اور سوئمنگ پول بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شہر میں مقدار کے مطابق پانی پہنچ رہا ہے، البتہ اس کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ شہری اور صوبائی حکام ایک نظام کے تحت گھروں میں پانی کی فراہمی یقینی کیوں نہیں بناتے؟ اس کا جواب شہر میں ٹینکروں کے ذریعے پانی سپلائی کرنے والوں کی جیبوں میں جانے والی بھاری رقوم میں مضمر ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ یہ رقم حتمی طور پر طاقتور سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کی جیب میں جاتی ہے؛ چنانچہ وہ فراہمی آب کا نظام کیوں بہتر بنائیںگے؟ کچھ افواہیں یہ بھی سننے کو ملتی ہیں کہ کراچی میں متعین طاقتور ادارے کے کچھ اہلکار بھی اپنے نگرانی میں کہیں سے ٹینکر بھراتے ہیں۔ میں اس صورت ِحال پر پی پی پی اور ایم کیو ایم کو مورد ِالزام ٹھرائوں گا۔ اس کے علاوہ فوجی حکومتیں بھی طویل عرصہ تک رہی ہیں لیکن اُنھوں نے بھی شہر میں پانی کی سپلائی بہتر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ہم اس صورت ِحال کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اب حرف ِشکایت بھی زبان پر نہیں لاتے۔ پانی کی عدم فراہمی کو بھی ہم گندگی سے بھری ہوئی گلیوں کی طرح ایک معمول کی بات گردانتے ہیں۔ 
لاہور میں کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا کام نجی کمپنیوں کے سپرد کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں آپ کو شاید ہی کسی مقام پر کوڑے کے ڈھیر دکھائی دیں۔ مجھے ایک ٹائون پلانر نے جو اس معاملے کو بہت اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں، بتایا کہ کراچی کے دو مافیا ڈان شہر کے کوڑے کرکٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے حکام کو ادائیگی کرتے ہیں۔ اُنھوں نے نوعمر لڑکوں کی بھاری فوج بھرتی کی ہوئی ہے جو گلیوں میں بکھرے ہوئے کوڑے سے ری سائیکل ہونے والی اشیا اٹھاتے ہیں۔ اس دوران کوّے، چیلیں اور آوارہ کتے بھی وہاں گھومتے ہوئے بچی کھچی خوراک کھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ حال ہی میں میری ایک آنٹی کا انتقال ہوا تومجھے اُن کی تدفین کے لیے ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں جانا پڑا۔ اگرچہ شہر کے باقی قبرستانوں کی نسبت اس کی حالت قدرے بہتر ہے اور یہاں قبریں منظم طریقے سے بنائی گئی ہیں، اس کے باجود مجھے بہت مشکل سے راستہ ملا۔ اکثر مقامات پر قبروں کو پھلانگ کر گزرنا پڑتا تھا۔ تاہم طارق روڈ کا قبرستان جہاں میرے والدین دفن ہیں کی حالت اس کی نسبت انتہائی خراب ہے۔ وہاں قبریں ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہیں اور اکثر اوقات جگہ نہ ہونے کی وجہ سے پرانی قبروںکو ہی کھودکر نئی میت کو لحد میں اتارنا پڑتا ہے۔ جب بھی وہاں جاتا ہوں منظر تبدیل ہوچکا ہوتا ہے اور میں بڑی مشکل سے جسم و جان کا رشتہ قائم رکھتے، کتبوں اور 
خاردار پودوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ماں باپ کی قبروں تک پہنچ پاتا ہوں۔ قبرستان ایسی جگہ ہونا چاہیے جہاں جا کر آپ گہری سوچ میں ڈوب جائیں، زندگی کی بے ثباتی کا گہرا احساس آپ کے دل و دماغ کا احاطہ کرے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہم راستے کے پیچ و خم میں الجھے، اپنے پیاروں کی قبریں تلاش کرنے کی دقت سے ہی نہیں نکل پاتے۔ اگرچہ طارق روڈ کے اس قبرستان کی انتظامیہ اسے کئی سال پہلے''مکمل بھرا ہوا‘‘ قرار دے چکی ہے لیکن بھاری رقم کے عوض یہاں جگہ تلاش کرلی جاتی ہے۔ 
درحقیقت ہمارے قبرستان بھی اُسی طرح افراتفری کا شکار ہیں جیسے پاکستان۔ پاکستان کے قیام کے چھ عشرے بعد بھی اس کے نظریے کی بحث جاری ہے جبکہ فروعی اور مسلکی اختلافات نے معاشرے کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ اس دوران سیاست دان اور جنرل ڈھول بجاتے ہوئے آتے ہیں اور عوام دھمال ڈال کرتھوڑ ی دیر کے لیے خوش ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ممتاز قادری کے بڑے بڑے پوسٹر بھی تمام شہر میں دکھائی دیتے ہیں۔ قادری کو اس قتل کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی جس کا اُس نے عدالت کے روبرو سینہ تان کر اعتراف کیا تھا۔ اس کے بعد اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے نظر ثانی اور پھر رحم کی اپیل مسترد ہونے کے بعد ہی حکومت نے سزا پر عمل درآمد کیا۔ لیکن اب اُسے ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اب شہر میں لگے ہوئے پوسٹرز پر اس کا نورانی چہرہ سرخ پھولوں کے درمیان دیکھ کر دل دھک کرکے رہ جاتا ہے۔ اس دوران ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ جب وہ عدالت میں پیش ہوتا تھا تو وکلا اُس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے تھے۔ 
پی پی پی کی سندھ میں طاقت دیکھ کر خیال آتا ہے کہ چونکہ ممتاز قادری کے ہاتھوں قتل ہونے والے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر پی پی پی سے تعلق رکھنے والے ایک سرکردہ رہنماتھے اس لئے پی پی پی کو کم ازکم سندھ میں اُن کے قاتل کو ہیرو کا درجہ دینے والے گروہوں کے خلاف کریک ڈائون کرنا چاہیے تھا۔ یہ صرف چند ایک مسائل ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے ورنہ کراچی میں زندگی ''جبر مسلسل ‘‘ سے کم نہیں۔ اس کے باوجود کراچی میں زندگی کا سفر جاری ہے۔ دل کی بتائوں۔۔۔۔! ان پریشانیوں کے باوجود کراچی کے سوا کہیں سکون نہیں ملتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں