ترک قیادت کا تنقید پر رد ِعمل

مشورے دینے کا ماہر کوئی شخص اپنے کلائنٹ کو نصیحت کرے گا کہ وہ کبھی بھی اپنے اوپر ہونے والی تنقید پر آپے سے باہر نہ ہو کیونکہ اس سے اُس کے ناقدین کی مفت میں ہی تشہیر ہوجائے گی،نیز لوگ اُس الزام کے بارے میں بلاوجہ متجسس ہوجائیں گے جس کی وجہ سے تنقید کی جارہی تھی۔ اگر تنقیددوٹوک اور تیزو تند ہو تواس پر برافروختہ ہونا اور بھی سنگین غلطی ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ طیب اردوعان کو درست مشورہ دستیاب نہیں کیونکہ وہ ایسے معاملے میں الجھ رہے ہیں جن کا تعلق اُن کی ساکھ سے ہے اور اس کی وجہ سے وہ معاملہ مزید شہرت پذیر ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت وہ جرمن حکومت کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ وہ ٹی وی چینل کو اُن کا مذاق اُڑانے والا گیت ''Erdowi, Erdowa, Erdogan‘‘ نشر کرنے سے روک دے۔ اس گیت میں ترک حکومت کی طرف سے کچھ صحافیوں کو قید اور احتجاجی مظاہرین پر تشددکرنے اور کردشہر یوں کی بجائے داعش کو ترجیح دینے کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ترکی کے احتجاج کا شکریہ کہ اس کی وجہ سے یہ گیت عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کرگیا۔ اب تک اسے یوٹیوب پر پچاس لاکھ مرتبہ دیکھا جاچکا ہے۔ 
اس وقت امریکہ میں ترکی کی سکیورٹی فورسز کو حکومت مخالفین کے خلاف کارروائی کرتے دکھایا جارہا ہے۔ ناظرین کی کثیر تعداد نے مسٹر اردوعان کے گارڈز کو ایک ترک صحافی کو ٹھوکریں مارتے دیکھا، جبکہ ایک استاد کو Brooking Institute کے باہر نازیبا الفاظ سے مخاطب کیا گیا۔ یقینا اس طریقے سے آپ دنیا کے عوام کو اپنا دوست نہیں بنا سکتے ہیں۔ اگر تر ک رہنما ا سے اپنا امیج بہتر کا طریقہ سمجھ رہے ہیں تو یقیناوہ سخت غلطی پر ہیں۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کے موقع پر ترک صدر سے ترکی میں میڈیا پر کیے جانے والے حالیہ کریک ڈائون کی بابت استفسار کیا گیاتو اُن کا جواب تھا کہ گرفتار شدگان نے دہشت گردی سے متعلق جرائم کا ارتکاب کیا تھا، اور اُن کے پاس ان کے جرائم کے ثبوت موجود ہیں۔یہ کہتے ہوئے اُنھوں نے ثبوت کے طور پر ایک کاغذ لہرایا۔ 
اگرمذہبی انتہا پسندوں کی سرگرمیوں ، ان کے ہتھیاروں اور ان کی تصاویر کے ساتھ تحقیقاتی رپورٹ شائع کرنا دہشت گردی سے معاونت کے مترادف ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ترکی میں آزاد میڈیا شدید خطرے سے دوچار ہے۔ اس وقت ترکی کی مختلف عدالتوں میں صحافیوں اور دانشوروں کے خلاف ترک صدر پر تنقید کرنے پر 1,800 کیسز موجود ہیں۔پاکستان کے سابق صدر، آصف زرداری ، جو پاکستانی میڈیا کی تنقید کا من پسند ہد ف ہیں، یقینا اپنے ترک ہم منصب کو رشک بھری نظروںسے دیکھتے ہوں گے کہ وہ کس طرح میڈیا کودبانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ طیب اردوعان خود پر کی جانے والی ہلکی سی تنقید کے بارے میں بھی بے حد حساس ہیں۔ اُن کا بس چلے تو اپنی مخالفت کرنے والوں کو گولیوں سے بھون دیں۔ چنانچہ اخبار ''جمہوریت ‘‘ کے صحافیوں کے خلاف کیس کی سماعت کے موقع پر اُنھوں نے اُن غیر ملکی سفارت کاروں کی سرزنش کی جو عدالت میں کارروائی کا جائزہ لے رہے تھے۔ آج کل یہ ایک معمول کی بات ہے کہ سفارت کار سیاسی کیسز پر نظر رکھتے ہیں، لیکن ترک صدر سفارت کار حضرات کو بتاتے ہیں کہ اُنہیں ان کیسز سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کہتے ہوئے یقینا ترک صدر دنیا میں سفارت کاری کے معمولات کو چیلنج کررہے تھے۔ ایک برطانوی سفارت کار کے دو ترک صحافیوں کے ساتھ سیلفی بنانے پر بھی طیب اردوعان مشتعل دکھائی دیے۔ 
میں فرض کرتا ہوں کہ اگر آپ انقرہ میں ایک ہزار کمروں کے ایسے محل میں رہتے ہیںجس کی تعمیر پر ایک بلین ڈالر صرف ہوئے ہیں تو آپ یقینا خود کو عثمانی خلیفہ سمجھ کر ہر قسم کی تنقید سے مبرا قرار دینے کی غلط فہمی کا شکار ہونے میں ''حق بجانب ‘‘ ہیں، لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ باقی دنیا ترک خلافت کے اُس دور سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ آپ اینجلا مرکل سے یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ کسی ٹی وی چینل کو طیب اردوعان پر تنقید کرنے والا گیت بند کرنے کی ہدایت کریں گی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکی کو بہت سی رعایتیں دینے کی وجہ سے آج کل مس مرکل یورپ میں تنقید کی زد میں ہیں۔ اس کی وجہ ترکی کے راستے آنے والے شامی مہاجرین کو بہت زیادہ رعاتیں دینے کی جرمن پالیسی ہے۔ ترکی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ چھ بلین یورو، Schengen area میں ویزہ فری سفر اور یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیے کیے جانے والے تحقیقاتی عمل کو تیز تر کرنے کے وعدے کے عوض ترکی یورپ کی دربانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے مزید مہاجرین کو یورپ میں داخل ہونے سے روکے گا۔ 
تاہم طیب اردوعان کی شام کے حوالے سے جارحانہ پالیسیاں اُسے ایک اچھا نیٹو ممبر ثابت نہیں کرتیں۔ اس نے اپنے ہمسائے، روس کو بھی بلاوجہ اشتعال دلا کر خطے میں مزید جارحانہ پالیسیاں اپنانے کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ امریکی صدر، بارک اوباما نے اشارۃً کہہ دیا تھا کہ وہ واشنگٹن میں ہونے والی ایٹمی کانفرنس کے موقع پر طیب اردوعان سے علیحدگی میں ملاقات نہیں کریںگے۔ اس طرز ِعمل کو واضح ناپسندیدگی قرار دیا جاتا، چنانچہ آخری لمحے پر چند منٹ کی ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔یہ ملاقات اردوعان کی انا کی تسکین کے لیے کافی تھی۔ بہرحال امریکی اپنی نجی گفتگو میںکرد گروہ ''وائی پی جی‘‘ کے خلاف جنگ پر ناخوش ہیں کیونکہ شمالی شام میں موجود یہ گروہ داعش کے خلاف کامیابی سے جنگ کررہا ہے۔ حال ہی میں ترکی اپنی سرحدوں پر بہت سی سفارتی اور عسکری جنگوں میں مصروف ہے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے شعلے مسٹر اردوعان کی تنک مزاجی نے بھڑکائے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ترکی کے قومی مفاد سے نہیں ہے۔ 
اکثر آمرانہ سوچ رکھنے والے رہنما، چاہے وہ جمہوری نظام کے ذریعے ہی اقتدار میں کیوں نہ آئے ہوں، میڈیا اور اپوزیشن کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ آمریت تنقید کا سہار نہیں رکھتی۔اس رویے کی وجہ سے خدشہ ہے کہ طیب اردوعان ترکی کو یورپی یونین سے دور لیے جارہے ہیں۔ ان کی طرف سے میڈیا پر کیے جانے والے کریک ڈائون کو مغربی دارالحکومتوں میں ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا گیا ہے۔ تاہم وہ کسی تنقید کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ناقدین دیکھ رہے ہیں کہ اردوعان کی فورسز کردوں کو کچلنے کے لیے اُنہیں دہشت گرد قرار دے رہی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو خدشہ ہے کہ ترکی مشرق ِوسطیٰ کی دیگر ریاستوں کی طرح ایک آمرانہ مزاج کی ریاست بن جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں