امریکی سیاست کا الجھاؤ

قدیم دور سے ہی ساحلی شہروںاور ان سے ملحق علاقوں کے لوگ روادار اور جدت پسند رہے ہیں جبکہ ملک کے اندرونی حصوں والے لوگ اپنے فکری اور سماجی خول کے اندر بند رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بندرگاہوں اور ملکوں کے داخلی مقامات پر بیرونی دنیا سے سیاح، مبلغ، تاجر اور اشیا آئیں، اور ساحلی علاقوں کے لوگوں کو مہمان نوازی کرنے اور نت نئے خیالات کو اپنانے کا موقع ملا۔ اقبال احمد مرحوم نے ایک مرتبہ کراچی کو ''پاکستان کا واحد سیکولر شہر‘‘ قرار دیا تھا۔ 
اسی اعتبار سے امریکہ کے مشرقی اور مغربی ساحلوں پر واقع ریاستیں مغربی وسطی علاقوں کی نسبت زیادہ لبرل رہی ہیں؛ چنانچہ ساحلی علاقوں کی ''بلو سٹیٹس‘‘ کہلانے والی ریاستیں روایتی طور پر ڈیموکریٹس کو ووٹ دیتی ہیں‘ جبکہ ملک کے اندرونی حصوں کی ''ریڈ سٹیٹس‘‘ عام طور پر رپبلکنز کو ووٹ دیتی ہیں۔ یقینا یہ بیانیہ عمومی رجحانات کا اظہار ہے، اسے حتمی ووٹنگ بلاک نہیں مانا جا سکتا۔ کچھ ایسے صدارتی امیدوار دیکھنے میں آئے ہیں‘ جنہوں نے ملک بھر سے واضح اکثریت حاصل کی؛ تاہم گورنروں، سینیٹروں اور ارکان کانگرس کے چنائو کے لیے ہونے والے انتخابات میں ''بلو سٹیٹس‘‘ اور ''ریڈ سٹیس‘‘ کا رجحان غالب رہتا ہے۔ 
اگرچہ رپبلکنز کی صفوں سے ڈونلڈ ٹرمپ نیو یارک سٹیٹ اور کیلی فورنیا میں سبقت لیے ہوئے ہیں‘ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ (بشرطیکہ وہ اپنی پارٹی کی طرف سے نامزد ہو جاتے ہیں) نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھی ان دونوں اہم ریاستوں میں سبقت 
لے جائیں گے۔ درحقیقت حالیہ دنوں اُن کی طرف سے دیے جانے والے کچھ غیر مہذب بیانات کی وجہ سے معاشرے کے سنجیدہ اور اہم دھڑوں میں ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اگرچہ اُنھوں نے خواتین کے بارے میں دیے جانے والے ایک غیر شائستہ بیان پر رجوع کرنے کی کوشش کی‘ لیکن یہ کوشش مزید اشتعال انگیز ثابت ہوئی۔ ٹرمپ کے بارے میں یہ بات پورے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ بے سر و پا بیانات دینے کی اپنی فطری صلاحیت کو دبانے سے قاصر ہیں۔ سان فرانسسکو (جہاں سے میں اس وقت یہ کالم لکھ رہا ہوں) کو شاید نیو یارک کے بعد امریکہ کا سب سے زیادہ کثیرالثقافتی لبرل شہر کہا جا سکتا ہے۔ سلیکان ویلی کی وجہ سے یہاں کی مقامی معیشت فروغ پا رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ایک بڑی تعداد میں اس شعبے میں قسمت آزمائی کرنے والے میدان میں اترتے ہیں لیکن سب کے سب ہی کامیاب نہیں ہو سکتے‘ اور چند ماہ تک چکا چوند سرگرمی دکھا کر غائب ہو جاتے ہیں؛ تاہم کامیاب ہونے والے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ 
سلیکان ویلی سے وابستہ فرموں میں کام کرنے والے اعلیٰ تنخواہ پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اُن کے باس اُن کے ہر طرح کے ناز نخرے اٹھاتے ہیں۔ اس ناز برداری کے پیچھے ملازموں کی فلاح کا کوئی اعلیٰ و ارفع جذبہ کارفرما نہیں ہوتا‘ بلکہ اس کی وجہ صنعت کی روحِ رواں انتہائی سخت مسابقت ہے۔ چونکہ محبت اور جنگ کی طرح اس ہائی ٹیک شعبے میں بھی سب کچھ جائز ہے، اس لیے باس ڈالروں کی طاقت کو سمجھتے ہیں۔ ان کی سان فرانسسکو میں توانا موجودگی کا اگر کوئی نقصان ہوا ہے‘ تو وہ یہاں سے ہپی افراد کی روانگی ہے۔ اس کی وجہ مکانوں کے کرایوں میں بے پناہ اضافہ ہے۔ ہپی افراد کی روانگی کی وجہ سے اس شہر کا رنگ برنگا کلچر دم توڑ گیا ہے۔ اب جبکہ امریکہ کے صدارتی انتخابات کے لیے حتمی نامزدگی کی بے رحم دوڑ کا فوکس نیو یارک سٹیٹ کی طرف منتقل ہو چکا ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ ٹیڈ کروزکو تارکین وطن کی ناراضی کا سامنا ہے ، ٹرمپ کے قریبی حریف کو بھی '' نیو یارک کی اقدار‘‘ پر منفی تبصرے کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ چونکہ اس شہر کو اپنے لبرل اور روادار رویے پر ناز ہے، اس لیے مسٹر کروز جیسے آئوٹ سائیڈر کی طرف سے اس پر طنزیہ جملے کسنا اس کے لیے ناقابل برداشت ہے؛ چنانچہ اس وقت وہ پولز میں ٹرمپ اور دیگر امیدواروں سے کہیں پیچھے ہیں۔ 
ڈیموکریٹس کی صفوں میں برنی سینڈرز اور ہلیری کلنٹن کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ برنی سینڈرز سات میں سے چھ ابتدائی مقابلہ جیت چکے ہیں لیکن نامزدگی کے لیے مطلوبہ delegates کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ہلیری کو delegates کی لیڈ حاصل ہے‘ لیکن اُن کے لیے نیو یارک میں کامیابی انتہائی اہم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہاں سے سینیٹر منتخب ہوئی تھیں‘ اور اسے اپنا دوسرا گھر قرار دیتی ہیں۔ اگر وہ یہاں شکست سے دوچار ہوتی ہیں تو اُن کی بطور صدر کامیابی کی اہلیت پر سوال اٹھے گا۔ مسابقت سخت ہونے کی وجہ سے جذبات بھی عروج پر ہیں۔ ہر دھڑا اپنے مخالف امیدوار پر الزام لگا رہا ہے کہ اُس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ یہ چیز ہلیری کلنٹن کے لیے پریشان کن ہے کیونکہ اُن کی بطور سابق حکومتی عہدیدار کارکردگی پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ سینڈرز کا کہنا ہے کہ وہ کاروباری طبقے کی فنانسنگ کے سہارے اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں؛ چنانچہ وہ مخصوص مفادات رکھنے والے کاروباری طبقے کی احساس مند رہیں گی‘ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں میں اصلاحات لانے کے لیے سخت فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی۔ دوسری طرف مسز کلنٹن کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اپنے سخت جان حریف سے کس طرح جان چھڑائیں۔ خود پر لگنے والے الزامات کے جواب میں وہ صرف یہی کہہ پائی ہیں کہ سینڈرز بغیر کسی ہوم ورک کے میدان میں آ گئے ہیں۔ آج سے چند ماہ پہلے تک عمومی رائے یہی تھی کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے سینڈرز کا جادو ماند پڑتا جائے گا‘ لیکن گزشتہ چند ہفتوں کے دوران وہ ہلیری کلنٹن سے بھی زیادہ فنڈز اکٹھے کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی فنانسنگ بڑے کھلاڑیوں کی بجائے چھوٹے چھوٹے ڈونر کر رہے ہیں۔ وہ کھلے عام جلسوں میں کہتے ہیں کہ اُنہیں ملنے والے عطیات کا اوسط ستائیس ڈالر نکلتا ہے۔ اگر کہیں وہ نیو یارک میں جیتنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ تو اس کے بعد ہونے والے کئی ایک ابتدائی رائونڈز میں فتح اُن کی ہو گی۔ اس کے بعد آئے گا انتہائی اہم ریاست، کیلی فورنیا کا مرحلہ۔ اگرچہ وہاں ہونے والے پول سروے میں ہلیری کو چھ فیصد برتری حاصل ہے، لیکن وہ گزشتہ سال یہاں سے حاصل ہونے والی ساٹھ فیصد مقبولیت کے ہدف سے بہت پیچھے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سینڈرز ہلیری کے قلعوں میں شگاف ڈالنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ 
اُدھر ٹرمپ کو اپنے حریف کروز کے بتیس فیصد کے مقابلے میں انتالیس فیصد کی برتری حاصل ہے، لیکن دیکھا گیا ہے کہ بڑے بڑے جلسوں، خاص طور پر جہاں خواتین اور تارکین وطن کی موجودگی زیادہ ہو، میں ان کی کارکردگی خراب رہتی ہے۔ ایک اور بات یاد رکھنے کی ہے کہ ابتدائی رائونڈ کے ان انتخابات میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کا بمشکل بیس فیصد ہی ڈالا جاتا ہے۔ اس ابتدائی رائونڈ میں شرکت کرنے والے صرف وہی لوگ ہوتے ہیں‘ جو سیاسی طور پر بہت متحرک ہوں، لیکن خاموش اکثریت فائنل مقابلوں میں سامنے آتی ہے؛ چنانچہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگرچہ ٹرمپ سفید فام امریکیوں کے لیے تو بہت پُرکشش ہیں‘ لیکن امریکی معاشرے کی اکثریت کا فیصلہ ابھی آنا باقی ہے۔ باقی دنیا نسبتاً سکون کا سانس لے رہی ہے کیونکہ ٹرمپ کے وائٹ ہائوس میں داخلے کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ بہرحال ابھی نومبر آنے میں کافی دیر ہے اور اس سے پہلے ہم امریکہ میں سجے ہوئے سیاسی اکھاڑے میں بہت سے دائو پیچ دیکھیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں